حیدرآباد دکن میں ہونیوالی قتل وغارت

اتوار 14 ستمبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

تحریک پاکستان زور وں پرتھی‘ مسلم لیگ دوقومی نظریہ اور کانگریس لسانیت کی بنیا د پرانتخابات میں حصہ لے رہی تھیں1946کے عام انتخابات کو جداگانہ الیکشن بھی قرا ردیاجاتا ہے جس میں یہ طے کیاجاناتھا کہ جن علاقوں(صوبوں) کے عوام اگر پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں تووہ مسلم لیگ کو ووٹ دینگے اور جو اس نظریہ کے مخالف ہیں وہ بے شک کانگریس یادوسری جماعتوں کو ووٹ دینگے۔

تاہم صوبوں سے ہٹ کر ریاستوں کی پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ ان کے نوابوں نے کرناتھاخیر پنجاب ‘بلوچستان ‘سرحد ‘سندھ ‘بنگال عوامی فیصلہ کے مطابق پاکستان میں شامل ہوگئے ریاست بہاولپور ‘خیرپور‘قلات‘ سوات‘ ہنرہ‘ دیراورچترال پاکستان کاحصہ بنیں۔۔اسی طرح حیدرآباد دکن کے نظام(نواب)میر عثمان نے پاکستان میں شامل ہونے کانہ صرف عندیہ ظاہر کیا بلکہ اس حوالے سے بھرپور کوشاں رہے۔

(جاری ہے)

14اگست کی رات جب پاکستان معرض وجود میں آیاتو اسی فیصلہ کی روشنی میں حیدرآباد دکن بھی پاکستان میں شامل ہونے کامتمنی تھا تاہم بھارتی حکومت اس کی سخت ترین مخالفت کررہی تھی اس نے ہرممکن کوشش کرکے شمولیت کو روکے رکھا۔جبکہ عوامی خواہشات کے برعکس ریاست کشمیر کو بھارت کا حصہ بنادیاگیا یہ سلسلہ چلتے چلتے گیارہ ستمبر 1948تک آن پہنچا جب بانی پاکستان حضرت قائد اعظم دنیا فانی سے رخصت ہوگئے توبھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے فوج کے ذریعے نظام حیدرآباد کی فوج کو شکست دیکر حیدرآبادکوزبردستی بھارت میں شامل رہنے پر مجبورکردیا۔

اب سامنے آنیوالے انکشاف میں بتایاگیا ہے کہ وزیراعظم کے ایما پربھارتی فوج نے تقریباً چالیس ہزار مسلمانوں کوشہید کیا۔ اس شکست کے بعد جب لوٹ مار ‘ آگ لگانے کی خبریں عام ہوئیں تو دہلی سرکار نے مختلف مذاہب کے افراد پر مشتمل وفد تشکیل دیا تاہم اس وفد کی رپورٹ دبادی گئی ۔”سندر لال رپورٹ“ میں انکشاف کیاگیا کہ ہندوؤں نے مسلمانوں سے بدسلوکی کی انتہا کردی ‘ عورتوں سے زیادتی کرنے کے علاوہ مسلمانوں کوزندہ جلادیاگیا۔

کھڈوں میں مسلمانوں کی لاشیں بھی دیکھی گئیں جبکہ کئی جلی ہوئی لاشیں بھی دکھا ئی دیں
خیر یہ رپورٹ دبادی گئی اور برطانوی میڈیا کے ذریعے منکشف ہوئیں تو کھوج کاخیال آیا ‘ حاصل ہونیوالی معلومات بڑی ہی عجیب وغریب اوردلچسپ اہمیت کی حامل ہیں۔قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں نواب میر عثمان (نظام دکن )کی کوشش رہی کہ حیدرآباد کو پاکستان میں شامل کرایاجائے تاہم بھارت سرکار کو کسی طورپر بھی گوارہ نہ تھا اورپھر اندرون خانہ سازشیں بھی ہوتی رہیں۔

ریاست حیدرآباد کے ہندوؤں کوبھی ہرممکن حد تک بہکانے کے انتظامات کئے گئے۔ خیر جونہی بھارتی فوج کی قتل وغارت انتہا کو پہنچی اورریاست حیدرآباد کی حفاظتی فوج کی شکست کے آثار نمایاں ہونے لگے تو ریاست حیدرآباد کے وزیراعظم میر لائق علی خصوصی طیارے میں پاکستان تشریف لے آئے اوریہاں شہریت اختیارکرتے ہوئے بعدمیں ملکی ترقی کے حوالے سے اپناکردار اداکیا۔

میر لائق علی کے ساتھ سرحد سے تعلق رکھنے والے غلام فاروق اورظفرالحسن کاملکی معیشت کی تقویت کے حوالے سے اہم ترین کردار رہا۔ بلکہ بعض قرآئن کے مطابق میرلائق نے واہ آرڈیننس فیکٹر ی کے قیام کے حوالے سے بھی بھرپور کردار اداکیا ۔ یہ خیال بھی انہیں بھارت میں ایسی فیکٹریوں کے قیام کے بعد آیاتھا ۔اسی دوران نظام حیدرآباد کے قریبی عمائد مجاہد اعظم سید قاسم رضوی کو بھارت سرکا ر نے پہلے سزائے موت سنائی جسے بعد میں دباؤ پر عمر قید میں بدلا گیا بعدازاں یہ سزا ختم کرتے ہوئے سید قاسم علی کو پاکستان بھجوادیاگیا ۔

سید صاحب بعد میں پاکستان میں رہے ۔
صاحبو!نظام دکن(میر عثمان)کی پاکستان سے دلچسپی ‘محبت کایہ عالم رہا کہ قیام کے فوری بعد ہی پاکستان معاشی حوالے سے بحران کا شکار رہا‘ اس دوران بانی پاکستان حضر ت قائد اعظم محمدعلی جناح نے مقتدر صاحب حیثیت شخصیات سے رابطہ کرکے انہیں ملکی معیشت کو سنبھالنے کے حوالے سے امداد کی درخواست کی ان میں اصفہانی خاندان کے چشم وچراغ بھی شامل تھے۔

خیر نظام دکن نے اس دور میں دس کروڑ روپے کا چیک بنام حکومت پاکستان کاٹا ۔ چونکہ یہ چیک بھارتی بنک کاتھا اورپھر کئی طرح کی رکاوٹیں اور کچھ ہماری حکومت کی سستی ‘لاعلمی کی وجہ سے یہ چیک غائب ہوگیا اورآج تک اس کی خبر نہیں مل سکی۔ ریاست حیدرآباد میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی جانیوالی ہولی کاانکشاف آج پانچ عشرے سے زائد عرصہ بعد ہوا مگر اس دوران بھی کئی مرتبہ یہ کہانی دہرائی گئی۔

مسلمانوں کی بوگیوں پر پٹرول ڈال کر ہندوؤں نے پوری ٹرین جلادی اس طرح ہزاروں مسلمان زندہ جلادئیے گئے ۔ یہ سلسلہ رکا نہیں آج بھی یہ تواتر سے جاری ہے۔یہاں ایک اورانکشاف بھی باعث حیرت تھا کہ بھارت سرکار نے دوعملی کامظاہرہ کرتے ہوئے قیام پاکستان کے بعد جوناگڑھ اور مناور ریاستوں کو اپنے ساتھ شامل رکھا کیونکہ ان دونوں ریاستوں کے عوام کی اکثریت پاکستان میں شامل ہونے کی حامی نہ تھی تاہم عوامی رائے کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں بھارت میں شامل رکھاگیا جبکہ ان ریاستوں کے نوابین بعد ازاں پاکستان شفٹ ہوگئے اورپھر یہی شہریت اختیارکرکے پاکستان کی ترقی کے حوالے سے اہم کردار اداکیا۔

اس کہانی پر پڑی گرد ایک اردو اخبار میں چھپنے والی ایک رپورٹ نے جھاڑتے ہوئے زخم ایک بارپھر ہرے کردئیے ۔ بزرگ دانشور ‘ اور تحریک پاکستان کے کارکن سید سعیدالحسن بخاری کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں نے ساری کہانی بے نقاب کردی۔ جب ہم نے ان کے سامنے رپورٹ رکھی تو وہ ہوک سی بھرکر رہ گئے اورپھر انہوں نے پیش آنیوالے سارے واقعات بیان کردئیے ۔

یہ بتاناضروری خیال کرتے ہیں کہ شاہ جی قیام پاکستان کے وقت سات آٹھ سال عمر کے بچے تھے۔ لیکن انہیں بعض کہانیاں آج بھی پوری طرح سے یاد ہیں۔ ریاست حیدرآباد دکن کا ذکر چھڑاتو شاہ جی روپڑے اورپھر انہوں نے روتی آنکھوں کے ساتھ نواب آف حیدرآباد (نظام دکن) میر عثمان کی پاکستان کی والہانہ محبت کا ذکر بھی کردیاآج اس سانحہ کوبیتے پانچ عشرے سے زائد کا عرصہ بیت گیامگریوں لگتاہے کہ یہ سانحہ آج بھی تروتازہ ہے ‘ آج بھی حیدرآباد کے درودیوارسے خون کی باس آتی ہے۔

جونہی بیس سے چالیس ہزار مسلمانوں کے قتل کاذکر چھڑے تو کلیجہ منہ کوآنے لگتاہے کہ وہ شہدا بھی پاکستان کی محبت میں مار ے گئے انہیں پاکستان میں شامل ہونے کی سزا کے طورپر بے دردی سے شہید کیاگیا۔ سینکڑوں نیک بیبیاں بھی پاکستان کی محبت میں عزتیں لٹابیٹھیں ‘کئی نیک باز بیبیوں کے سہاگ لٹ گئے ۔ آج برطانوی رپورٹ سے یوں لگ رہا ہے کہ قیام پاکستان سے شروع ہونیوالا سفر ختم نہیں ہوا بلکہ جاری وساری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :