مجاہد ہو تو ایسا ہو !

اتوار 14 ستمبر 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

واشنگٹن ڈی سی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا دارالحکومت ہے ،ڈی سی سے مراد ڈسٹرکٹ آف کولمبیا ہے جو ایک وفاقی ضلع ہے جس میں دارالحکومت واقع ہے ۔دستور کے مطابق یہ ضلع امریکہ کی کسی ریاست کا حصہ نہیں بلکہ یہ علاقہ فیڈرل گورنمنٹ کے ماتحت ہے ۔واشنگٹن کو ڈی سی کا درجہ 16جولائی 1790میں دیا گیا تھااور اس ضلع کے قیام کے لیئے مطلوبہ زمین ریا ست میری لینڈ اور ریاست روجینیا سے حاصل کی گئی تھی ۔

امریکی محکمہء دفاع کے مرکزی دفاتر پینٹا گون ،وائٹ ہاوٴس ،پارلیمنٹ ،سینٹ ،ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف اور دیگر بہت سارے قومی اور بین الاقوامی ادارے اسی شہر میں واقع ہیں۔واشنگٹن میں امریکی پارلیمنٹ کے عین سامنے جیفر سن بلڈنگ ہے اور یہ پر شکوہ عمارت امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن کی طرف منسوب ہے ،یہ عمارت دنیا کی چند بڑی لائبریریوں میں سے ایک ہے اور اس لائبریری میں 140ملین سے زائد کتب اور دیگر قیمتی نوادرات محفوظ ہیں ۔

(جاری ہے)

تھامس جیفرسن امریکہ کے بانیوں میں سے تھے اور یہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے امریکہ کی آزادی کا اعلان تحریر کیا تھا ۔تھامس جیفرسن 1743میں ورجینیا میں پیدا ہوئے اور 1826میں وفات پائی ،وہ 1801سے 1809تک امریکہ کے صدر رہے ۔جیفر سن کی زندگی بڑی دلچسپ تھی اور وہ ہمہ جہت شخصیت کا مالک تھا،اسے مطالعے کا بڑا شوق تھا اور اس نے دنیا بھر کا لٹریچر پڑھ ڈالا تھا ،اسے انگریزی ،لاطینی ،یونانی ،فرانسیسی ،اسپینی ،اطالوی اور اینگلو سیکسن زبانو ں پر یکساں عبور حاصل تھا اور وہ ان تمام زبانوں میں بلا تکلف گفتگو کرتا چلا جاتا تھا ۔

وہ انتہا درجے کا علم دوست تھا اوراس نے علم اور مطالعے کو اپنی زندگی کا اوڑھنا اور بچھو نا بنا لیا تھا ۔جیفرسن کے مطالعے کے شوق کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس نے قرآن کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا ،وہ روزانہ صبح اٹھنے کے بعد قرآن کا ترجمہ پڑھتا،اس کے معانی و مطالب پر غور کرتا ،اپنے دوستوں سے بحث و مباحثہ کرتااور جب تھک جاتاتو قرآن کو بڑے ادب اور احترام کے ساتھ الماری میں رکھ دیتا ۔

اس کے زیر مطالعہ رہنے والے قرآن کے دو نسخے آج بھی جیفر سن بلڈنگ میں محفوظ ہیں ۔
ٍٍمطالعہ انسانی سخصیت کی تکمیل کا لازمی جزء ہے ،ایک استاد ،جج ،ڈاکٹر ،وکیل ،واعظ اور طالبعلم اگر روزانہ تین گھنٹے مطا لعہ نہیں کرتا تو وہ صاحب علم کہلانے کا مستحق نہیں اور وہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا ۔ہمارے ہاں یہ روایت چل نکلی ہے کہ جو جتنے بڑے عہدے پر فائز ہوتا ہے اس کا مطالعہ ،کتب بینی کا شوق اور کتاب دوستی اتنی ہی قابل افسوس ہو تی ہے ۔

آپ سیاستدانوں سے لے کر یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور لیکچررزتک کو دیکھ لیں آپ کو کہیں بھی مطالعے کا ذوق دکھائی نہیں دے گا ۔وی سی پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران نے اس روایت کو توڑا ہے اور نہ صرف وہ خود ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں بلکہ انہوں نے اسٹوڈنٹس میں بھی مطالعے کی نئی امنگ پیدا کی ہے ۔وی سی صاحب نہ صرف خود تحقیقی ذوق کے حامل انسان ہیں بلکہ انہوں نے جامعہ پنجاب میں تحقیقی اور ریسرچ کلچر کو فروغ دیا ہے ۔

شاید اسی ریسرچ کلچر کا نتیجہ ہے کہ جامعہ پنجاب نے پچھلے پانچ سالوں میں ریکارڈ کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔
وی سی صاحب کی تحقیقی کاوشوں کا ایک خوبصورت مرقع ”پس پردہ عالمی سیاست کے مخفی حقائق “کی صورت میں منظر عام پر آ چکا ہے اور ارباب ذوق سے داد و تحسین کے ڈونگرے وصول کر چکا ہے ۔وی سی صاحب نے اپنے ان تحقیقی کالمز او رآرٹیکلز میں عالمی سیاست کے مخفی حقائق اور خفیہ منصوبہ سازوں کے خوفناک عزائم کو طشت از بام کیا ہے اور ان کی سازشی ذہنیت کو عوام کے سامنے عیاں کر کے رکھ دیا ہے ۔

عالمی سیاست کے خفیہ منصوبہ سازوں نے مسلم امہ کے وسائل کو ہتھیانے کے لیئے کتنی خوفناک منصوبہ بندی کی ہے اس کا ادراک شاید بہت کم لوگوں کو ہے۔ اور نائن الیون کا ڈرامہ رچاکرجس طرح عالم اسلام پر یلغار کی گئی اور اس کے معدنی وسائل کو لوٹنے کی منصوبہ بندی کی گئی اس حقیقت کو بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں ۔خدا بھلا کرے ڈاکٹر مجاہد کامران کا کہ انہوں نے نائن الیون کے سانحے پر تحقیقی کالمز او ر آرٹیکلز لکھ کر قومی اور بین الاقوامی سطح پر عوام کو اصل حقائق سے آ گا ہ کیا ۔

آج دنیا میں جتنی بھی جنگیں لڑی جارہی ہیں ان سب کے پیچھے ایک مخصوص لابی کام کر رہی ہے جس کا مقصد عالمی معیشت پر قبضہ کرنا ہے ،ان جنگوں کے پیچھے وہ امیر ترین افراد ہیں جو ساری دنیا کی اکانومی کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں اور یہی وہ دماغ ہیں جنہوں نے امریکہ کی اکانومی اور سیاست کو اپنی مٹھی میں بند کیا ہوا ہے ۔نائن الیون اکیسویں صدی کا وہ عظیم سانحہ تھا جس نے عالمی سیاست کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا ،شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس سانحے کے پیچھے بھی یہی شاطر دماغ کا ر فرماتھے اور انہوں نے پوری پلاننگ کے ساتھ اس سانحے کے تانے بانے بنے تھے ۔

امریکی تاریخ میں جان ایف کینیڈی واحد صدر تھے جنہوں نے ان خفیہ دماغوں کے ہاتھوں استعمال ہو نے سے انکار کر دیا تھا اور پھر انہیں اس کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑا اور ان کو لاکھوں کے مجمعے میں گولی سے اڑا دیا گیا ۔اگر صدر کینیڈی زندہ ہو تے تو شاید امریکہ کی تاریخ کا نقشہ کچھ اور ہو تا ۔موجودہ زمانے میں دنیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے میڈیا سب سے اہم ہتھیار ہے یہی وجہ ہے کہ ان خفیہ منصوبہ سازوں نے ساری دنیا کا میڈیا اپنے کنٹرول میں لیا ہوا ہے ،اس وقت دنیا میں پانچ بڑے میڈیا ادارے یا میڈیا فرمیں ہیں اور یہ سب کی سب ان خفیہ منصوبہ سازوں کے کنٹرول میں ہیں ۔


ڈاکٹر مجاہد کامران عصر حاضر کی ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے تعلیم و تحقیق کے تھ ساتھ ساتھ اپنے قلم سے بھی جہاد کیا ہے اور انہوں نے مسلم امہ کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کیا ہے ۔بلاشبہ وہ مسلم امہ کے سفیر ہیں جنہوں نے عالمی سیاست کے خفیہ منصوبہ سازوں کی پلاننگ اور اور ان کے خطرناک عزائم کو طشت از بام کیا ہے ۔مجاہد کامران ایسے” مجاہد“ ہیں جنہوں نے بیک وقت دو محاذوں پر جنگ لڑی ہے ،تعلیم و تحقیق کا محاذ او ر ذرائع ابلاغ کا محاذ ۔

اور یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ یہ دونوں محاذوں میں ”کامران “ رہے ہیں ۔ان کی انہی بے مثال خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے اس سال انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا ہے ۔اللہ کرے یہ عظیم ”مجاہد “آئندہ زندگی میں بھی ”کامران “ رہے اور تعلیم وتحقیق اور ابلاغ کے میدان میں کامیابیاں سمیٹتا رہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :