تباہی

اتوار 14 ستمبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

ہم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ فوج دائیوں کا بھی کام کرئے گی کیونکہ یہ حکمران اور بیوروکریٹس نکھٹو ،نکمے، ناکارہ اور بے حس ہو چکے ہیں۔ جب پیسہ لوٹنے کی باری ہو تو یہ پیش پیش ہوتے ہیں ساتھ ساتھ فوج کو بدنام کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے مگر جب کوئی آفت آتی ہے تو پھر اُسی ادارئے کی طرف مسکین سا منہ بنا کر دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ تو اللہ بھلا کرئے پاک فوج کا جو کسی صورت اپنی قوم کوتنہا نہیں چھوڑتی۔
ہم نے جب سے ہوش سمبھالا ہے تب سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اسی طرح آپ تاریخ پاکستان سے کچھ عرصہ بعد کی کتابیں پڑھ لیں وہاں بھی یہ جملہ بار بار دیکھنے کو ملے گا کہ ملک تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔

(جاری ہے)

کمال کی بات ہے کہ پچھلے 66سالوں میں ہم نازک ترین دور سے نکل نہیں پائے اور پتا نہیں کتنے سالوں تک ایسے ہی چلتا رہے گا۔

سیلاب کی کیا بات کریں اُس پر تو سب لکھ رہے ہیں اور ہر کالم نگار سے لے کر دانشور تک حکومتوں کی نااہلیوں پر ماتم کر رہے ہیں کہ ہر سال یہ آفت ہم پر آتی ہے مگر اس سے نپٹنے کا کوئی طریقہ ہماری سمجھ میں آتا نہیں۔ آے بھی کیسے اور تھوڑے کام ہیں کرنے کہ ہر ہفتے باہر جانا ہوتا ہے دورئے کرنے ہوتے ہیں بچوں کی شادیا ں کرنی ہوتی ہیں رشتہ داروں کے فنکشن اٹینڈ کرنے ہوتے ہیں۔

باہر جو بچوں کے کاروبار ہیں اُن پر بھی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ آفتوں کا کیا ہے اُس کے لیے آرمی جو ہے ۔
پاکستان میں کوئی ہی ادارہ ایسا ہو گا جو تباہی کے دھانے پر نا کھڑا ہو سب کو یاد ہو گا جب موجودہ حکومت نئی نئی اقتدار میں آئی تو اُسکے کرتا دھرتا لوگوں نے بڑھے بڑھے بیان دیے کوئی کہتا تھا میں بجلی پوری کردوں گا کسی نے کہا میں ریلوئے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کردوں گا تو کوئی اقتصادیات میں بہتری کی باتیں کرتا رہا مگر ایک سال پورا ہونے کے باوجود ہم آج بھی ویہیں کھڑئے ہیں جہاں بابائے سیاست آصف علی زرداری صاحب ہمیں چھوڑ کر گئے تھے۔

زرداری صاحب نے ملک کو پتھروں کے زمانے میں دھکیلنے کی پوری کوشش کی اور کسی حد تک اس میں کامیاب بھی نظر آئے کہ پوری کی پوری کابینہ مال بنانے میں لگی رہی اور عوام بھوک ننگ سے مرتے رہے۔ پھر دوسروں کی باری شروع ہو گئی اور اُسی پالیسی کو آگے چلایا گیا کہ اپنی جیبیں بھرو عوام جائے بھاڑ میں۔
شلوار اُونچی کر کے پانی میں اُتر کر تصویر بنانے سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کرنظارہ کرنے سے سیلابی پانی کم نہیں ہو جائے گا۔

کسی بزرگ کے سر پر ہاتھ رکھنے سے اُس کے گھر کی غربت دور نہیں ہوتی۔ لُٹی عزت کے ہاتھ میں چیک پکڑا نے سے عزت واپس نہیں ملتی۔ انگلی ہلانے سے کوئی مسیحا نہیں بن جاتا۔ عمل کی ضرورت ہے بھائی جو ہم میں نے نہیں ہے۔ پہلے تو ہم سنتے تھے نا کہ نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں مگر اب ہم تباہی کے دھانے پر کھڑئے ہیں ایک ان دیکھا بارود ہمیں اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور پوری قوم کو اپنے ساتھ لے جائے گا۔

امراء کا کیا ہے وہ تو ٹکٹ پکڑئیں گے اور اپنے بال بچوں کے پاس یورپ بھاگ جائیں گے مگر سہنا کس نے ہے صر ف اور صرف عوام نے۔
سیاسی حالات بھی تبائی کی طرف جا رہے ہیں ساری سیاسی جماعتیں جمہوریت کو بچانے کے لیے میدان میں اُتر آئی ہیں مگر عوام کو بچانے کا کسی کے پاس وقت نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب اپنا اپنا اقتدار بچانے کی جنگ ہے یہ جو مل بانٹ کر کھا رہے ہیں ان کو ڈر ہے کہ ان سے یہ مال نا چھن جائے ۔

پارلیمنٹ میں پہلی دفعہ اپنے سیاسی لیڈروں کی تقاریر سننے کا اتفاق ہوا سن کر حیرت ہوئی کسی ایک نے بھی عوامی مسائل کی بات نہیں کی ہر کوئی اپنی اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔دو چوہدری اپنی اپنی کرسی بچانے کے لیے ایک دوسرے کی طرف سے لگائے گے الزامات کو پیار سے برداشت کر گئے۔ پیپلز پارٹی حکمران پارٹی کو بلیک میل کر رہی ہے کہ آپ کی حکومت تب تک بچی ہوئی ہے جب تک ہم آپ کے ساتھ ہیں اگر ہم نے ساتھ چھوڑ دیا تو آپ کی کرسی نہیں رہے گی۔

اس سے صاف ظاہر ہے کہ بات صرف کرسی کی ہے ملک یا عوام کی نہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی تمام لوٹوں نے اپنا اپنا حصہ وصول کیا اور آج بھی مفاد پرست اپنا اپنا حصہ وصول رہے ہیں۔
دیکھنے والوں کو سب نظر آرہا ہے کہ عوام میں شعور آتا جا رہا ہے سب کو اپنے اپنے حقوق کی پہچان ہو رہی ہے کہ کس طرح ہمارے حقوق پر حکمران ڈاکہ ڈال کر اپنی اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔

جس طرح ایک آدمی کی جائیداد میں اُس کی تمام اولادبرابر کی حصہ دار ہوتی ہے اسی طرح کسی بھی ملک کے تمام شہری اپنے ملک کے وسائل میں حصہ رکھتے ہیں مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں عوام کے لیے صرف مسائل ہی مسائل ہیں اور وسائل صرف چند ہاتھوں میں ہیں۔ لوگ بھوک پیاس سے مر رہے ہیں مگر حکمرانوں کو کسی بات کی فکر نہیں تھوڑی سی بھاگ دوڑ کیمروں کے سامنے کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔

ان حکمرانوں کو ادراک نہیں کہ یہ بھوکے ننگے عوام جب اپنا حق لینے کی تھان لے گیں تو پھر پانی کے ساتھ ساتھ لوگوں کا سیلاب بھی آئے گا جو سب کرپٹ لوگوں کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ اُس دن یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کون کتنابڑا لیڈر ہے بلکہ سب کے سب کو سزا دی جائے گی۔
قائد نے دن رات کی محنتوں سے یہ قطہ ہمارے لیے حاصل کیا تھا مگر ہم نے کیا کیا اس کا آدھا حصہ کھو دیا اور باقی کا کچھ پتا نہیں۔

کیا حکمرانوں کو کرپٹ لوگ نظر نہیں آتے کیا انہیں نہیں پتا کہ عوام کس طرح زندگی گزار رہے ہیں روز کا جینا اور روز کا مرنا عوام کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ خود یہ لوگ بلٹ بروف گاڑیوں میں پھرتے ہیں ہیلی کاپٹر ان کی سواری ہے ان کے بچوں کے لیے کئی کئی پولیس والے دستیاب ہیں مگر غریب کے لیے کیا ہے کچھ بھی نہیں غریب کے لیے صرف آسرا ہے وہ آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ کی رضا سمجھ کر چپ سادھ لیتا ہے جبکہ اللہ نے خودفرمایا ہے کہ کوشش کرو گے تو تم کو عطا کروں گا۔

کیا غریب کابچہ بچہ نہیں کیا غریب کی ماں ماں نہیں غریب کے بہن بھائی انسان نہیں کیا غریب کو اچھے سکول و کالج جانے کا حق نہیں کیا غریب کو اچھی زندگی گزارنے کا حق نہیں بالکل ہے تو پھر پاکستان کا غریب اور عام شہری کیوں ذلت کو اپنائے ہوئے ہے اگر ہم اسی طرح دبکے بیٹھے رہے تو آنے والی نسل بھی غلامی کا طوق لیے پیدا ہوگی۔ قرض کھائیں گے حکمران اور ادا کریں گے عوام۔

ہم تباہی کے دھانے پر کھڑئے ہیں اور یہ ایسی تباہی ہے جو سب کو تباہ برباد کر دے گی۔ کچھ نہیں بچے گا امیر غریب کا فرق نہیں رہے گا سب کو اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ اس سے پہلے یہ تباہی اپنا رنگ دیکھائے ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لے چاہیں اور عوام کے لیے کچھ کرنا چاہیے نہیں تو جہاز کا ٹکٹ کٹانے کا وقت بھی نہیں ملے گا۔ بھاگنے کے تمام رستے بند ہو جائیں گا پھر اُس دن تمام بربادیوں کا حساب لیا جائے گا۔ کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :