مژگان تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

جمعہ 12 ستمبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

میرا وطن ، میرے غریب ہم وطن آج کل جس جن آسمانی آفات کی زد میں تباہ و برباد ہو رہے ہیں، مرے کو مارے شاہ مدار، کے مصداق ، آسمانی آفات کے ساتھ ساتھ جس طرح ایک اچھا پڑوسی ہونے کا مظاہرہ انڈیا نے پانی چھو ڑ کر کیا ہے، ا سے دیکھتے ہوئے سوائے کڑھنے ، اور جل جل کے بجھنے کے کوئی چارئہ کار نہیں ہے۔
بیس پچیس سال پہلے یہاں ٹورونٹو میں ہماری کمیونٹی کے معروف” شالامار ریستوراں“ پر بیٹھا تھا، ریستو راں کے مالک خالد بخاری صاحب سے دوستانہ تعلقات کی وجہ سے کھانے پینے کے ساتھ ساتھ بڑے دوستانہ ماحول میں گپ شپ بھی ہوتی رہتی تھی۔

ایک دن ہماری محفل میں خالد بخاری صاحب کی ایک پرانی کسٹمر بھی آ کر بیٹھ گئیں۔جو انہیں دنوں میں انڈیا اور پاکستان میں گھوم پھر کر آئی تھی۔

(جاری ہے)

اُنہوں نے بتایا کہ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کے حالات بہت بہتر ہیں۔میں نے اُن سے پوچھا۔آپ نے یہ اندازہ کس بات سے لگایا ہے۔اُن کا جواب تھا۔انڈیا کے بڑے شہروں کلکتہ اور بمبئی میں لوگ نسل در نسل فٹ پاتھ پر رہ رہے ہیں۔

جب کہ میں نے کراچی اور لاہور یا پنڈی میں کسی ایک بھی فیملی کو فٹ پاتھ پر رہتے ہوئے نہیں دیکھا۔ٹرانسپو رٹیشن سسٹم بھی انڈیا کے مقابلے میں میں نے پاکستا ن کا بہتر دیکھا ہے،اس کے علاوہ انڈیا میں جو چند فیملیاں امیر ہیں،وہ بہت امیر ہیں، گو کہ یہی حال پاکستا ن میں بھی ہے ۔لیکن پاکستان میں درمیانے درجے کے لوگوں کے چہرے پر میں نے وہ محرومیاں اور غربت نہیں دیکھی، جو انڈیا میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

انڈیا میں بہت غربت ہے۔مجھے یاد پڑتا ہے یہ جنرل محمد ایوب خان کے دورِ حکومت کے چند سال بعد کی بات ہے۔ایوب خان پاکستان کو تعمیر و ترقی کے جس راستے پر ڈال گئے تھے۔اس وقت تک اُس کے ثمراتی گلستاں پاکستان میں بخوبی دیکھے جا سکتے تھے۔رشوت تو ہمارے ہاں شروع ہی سے تھی۔لیکن رشوت کا گراف اتنا نہیں تھا،جتنا آج ہے۔بڑے ہائی پیمانے کی لوٹ کھسوٹ کا کلچر جنرل محمد ضیا الحق کے دور سے شروع ہوا ہے، اور اُن کی باقیات نے اسے جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔

ایسی ایسی شرمناک لوٹ کھسوٹ کے قصے کہانیاں سننے کو ملتے ہیں کہ اللہ میری توبہ۔
اب وہی انڈیا کرپشن کا قابل افسوس ریکارڈ رکھتے ہوئے بھی، معیشت اور فوجی طاقت کے اعتبار سے دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہونے لگا ہے اور آسمانی آفات ، جس طرح کی آفت سے آج کل ہمیں سامنا ہے، بچنے کے لئے اس نے بے شمار ڈیم بنا لئے ہیں۔جب کہ ہمارے لیڈران قوم نے نہ صرف یہ کہ ایسی قومی ضروریات پر کوئی توجہ دینے کے بجائے بڑے منجھے ہوئے لٹیروں کی طرح پاکستان کو لوٹا ہے ، پاکستان کی قومی دولت کو بیرون ِ ملک بھی پہنچا دیا ہے۔

منگلہ اور تربیلا ، دو بڑے ڈیم محمد ایو ب خان بنوا گئے تھے۔اس کے بعد کوئی چھوٹا موٹا ڈیم بنا دیا گیا ہو تو میرے علم میں نہیں ہے لیکن کوئی بڑا ڈیم ہم نہیں بنا سکے۔ پاکستان کے ساتھ درد مندانہ رشتہ رکھنے والے صحافی ایک مدت سے خبر دار کر رہے ہیں کہ آئندہ پندرہ بیس سالوں میں پاکستان پانی کی قلت کی وجہ سے ایک بنجر میں بدل جائے گا۔لیکن ہمارے لیڈرا نِ قوم میں سے کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

ان کی ترجیحات کو پاکستان کا سنجیدہ طبقہ فضولیات میں شامل کر رہا ہے۔لیکن ذمہ دار لوگوں کو اپنا سریا کھپانے کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے۔جب کہ مذکورہ ضرورت کے پیش نظر کالا باغ ڈیم کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔آج کل میاں محمد نواز شریف جس طرح ساری پارلیمنٹ کے ہیرو بنے ہوئے ہیں۔انہیں چاہیے کہ جس طرح انہوں نے اپنے استعفے ٰ کے خلاف بل پاس کرا لیا ہے۔

اسی طرح وو سارے پاکستان کے عوامی نمائندگان سے کالا باگ ڈیم کی تعمیر کا بل بھی پاس کروا لیں، میاں صاحب بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ سوائے تحریک پاکستان کے باقی سب جماعتیں ہمارے ساتھ ہیں ۔ اب تو انہوں نے میرے ہاتھ باندھ دئے ہیں،میں مستعفی ہونا بھی چاہوں تو نہیں ہو سکتا۔محترم قائد ایوان !آپ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے منطوری کا بل پیش کر کے تو دیکھیں۔

کم از کم آپ کو اتنا تو معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان کی ساری جما عتیں آپ کے ساتھ اپنی کھال بچانے کے لئے کھڑی ہیں۔یا قوم کی بہتری کے لئے کھڑی ہیں ؟ کھرا کھرا بے خوف و خطر لکھنے اور بولنے کے لئے جناب حسن نثار میرے پسندیدہ صحافی ہیں۔انہوں نے پارلیمنٹ کے اِس جارحانہ اتحاد پر ایک جملہ کہہ کر قوزے میں سمندر بند کر دیا ہے،کہتے ہیں۔”جس طرح کھانے کے لئے ہاتھ کی پانچ انگلیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔

اسی طرح ہمارے یہ پارلیمانی لیڈران اکٹھے ہو گئے ہیں۔“
میں اپنے ایک حالیہ کالم میں جناب آفتاب شعبان میرانی سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کر چکا ہوا ہوں۔ انہوں نے بھی یہی فرمایا تھا” ہمارے قومی لیڈر کسی قومی مسئلے پر متحد ہوں نہ ہوں،لیکن کرپشن کے خلا ف آواز اٹھانے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کے کھرے ہو جاتے ہیں“کالا باغ ڈیم قوم کی بقا و حیات کا مسئلہ ہے اور اس وقت ساری پارلیمنٹ عمران خان کے خلاف میاں صاحب کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑی ہے۔

میاں صاحب کو چاہیے کہ اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس قومی مسئلے کو حل کر لیں۔قوم پر ان کا یہ بہت بڑا احسان ہو گا۔ ویسے بھی پاکستان کو بنجر ہونے سے بچانے کے لئے ہمیں سارے کام چھوڑ کر اپنی ساری توجہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے پر خرچ کرنا چاہیے۔یہی طوفانی پانی جو آج کل ساری قوم کے لئے تباہی کا باعث بنا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں زراعت کے لئے نعمت بن جائے گا۔ ورنہ غفلتِ مسلسل کی صورت میں ہر آسمانی آفت کی تباہ کاریوں کے مناظر دیکھتے ہوئے ہم مجبور و بے بس لوگوں میر#صاحب کویاد کر کر کے آنسو بہاتے رہیں گے۔
کن نیندوں سو رہی ہے چشم ِ نیم باز
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :