حسنِ ترتیب

جمعہ 12 ستمبر 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

جب میں نے ایف ایس سی میں داخلہ لیا تو میں نے این سی سی ٹریننگ بھی منتخب کی۔این سی سی فوجی ٹریننگ تھی اور آپشن پر تھی۔ جی چاہے تو کوئی این سی سی ٹریننگ لے نہ چاہے تو نہ لے۔ایف ایس سی کے زیادہ تر طلباء این سی سی ٹریننگ کا انتخاب اس لئے کرتے تھے کہ اس سے ایف ایس سی کرنے کے بعد انجینرنگ یا میڈیکل میں داخلے کے وقت بیس نمبر ملتے تھے۔

میرے نمبر ایف ایس سی میں اتنے کم آئے کہ این سی سی کے نمبر ملانے کے بعد بھی مجھے انجینئرنگ میں داخلہ نہ مل سکتا تھا۔این سی سی کی ٹریننگ کی وجہ سے مجھے انجینئرنگ نہ مل سکے لیکن یہ ٹریننگ زندگی میں حسنِ ترتیب لے آئی۔
ہمارے انسٹرکٹر حوالدار زرین خان پٹھان ہوا کرتے تھے۔زرین خان کا سراپاقدرت نے اس طرح کا بنایا تھا کہ غصے میں سنجیدہ بات بھی کر رہے ہوتے تو ہنسی آ جاتی تھی۔

(جاری ہے)

سنجیدہ بات کرتے تو مزاق لگتا اور مزاق کرتے تو سنجیدہ بات لگتی۔قد اتنا ہی تھا جتنا فوجی بھرتی کے لئے درکار تھا۔ اگر ایک انچ بھی کم ہوتا تو فوجی بھرتی کے لئے ان فٹ ہو جاتے۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ وہ ڈھاکہ کی ململ کی طرح ماچس کی ڈبیا میں لپیٹنے سے پورے آ جاتے تھے کیونکہ یہ مبالغہ ہوگا ۔اتنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ اُن کا جسم انتہائی مختصر اور باریک تھا۔

ہم سٹوڈنٹس میں سے جو بھی انہیں اٹھانا چاہتا تھا وہ با آسانی اٹھائے جا سکتے تھے۔ جب ہمیں اُن پر بہت زیادہ پیار آتا تھا تو ہم نتائج سے بے پرواہ ہو کر انہیں اٹھا کر آٹھ دس چکر دے کر چھوڑ دیتے تھے۔ گھمانے والے کا بھی سر چکراتا رہتا تھا اوراُستادِ محترم بھی چکروں کی وجہ سے لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے بیٹھ جاتے تھے۔ اس دوران وہ جو کچھ غصے میں بولتے تھے، وہ بہت مزا دیتا تھا۔

اس لذت کے لئے چکر دینے والا بعد میں بخوشی سزا بھگت لیتا تھا۔ہمیں ٹھیک نو بجے گراؤنڈ میں فالن ہونا پڑتا تھا۔اگرچہ ہمارا ہوسٹل گراؤنڈ کے قریب ہی تھا لیکن پھر بھی بعض اوقات ہمیں زرین خان کے خوف سے ناشتہ چھوڑ نا پڑ تا تھا۔اگر نو سے پانچ منٹ بھی اوپر ہو جاتے تو وہ ہمارے ساتھ وہ کچھ کرتے جو پرانے زمانے کے اساتذہ سبق یاد کر کے نہ آنے والے بچوں کے ساتھ کرتے تھے۔

ویسے آپس کی بات ہے اس ڈانٹ کا بھی اپنا ہی سواد ہوتا تھا۔
جب ہم اپنے کلف لگی وردیوں کے ساتھ لائینیں بناتے تھے تو یہ منظر دیکھ کرناشتہ چھوڑ کر آنا بھول جاتا تھا۔اب زرین خان کے کاشن شروع ہو جاتے تھے۔ وہ تھوڑا سا توتلا تھا۔جب کاشن دیتا پریڈ دائیں پھرے گی۔ دائیں پھر۔ ہم سب ایک ساتھ دائیں کی طرف گھوم توجاتے تھے لیکن زرین خان کے انداز سے بعضوں کی ہنسی بھی نکل جاتے تھے۔

اس پر بھی کاشن آ جاتا تھا، ہنسو مت۔ہنسو مت کا کاشن وہ اس طرح ادا کرتے کہ ہنسی پھر بے قابو ہونے لگتی تھی۔جب ساری کلاس کھی کھی کرنے لگتی تو وہ غصے میں کبھی ایک طرف دوڑتے اور کبھی دوسری طرف انہیں سمجھ نہ آتی کہ کیا کریں۔پھر کوئی نہ کوئی زیرِ عتاب آ جاتا۔یہ منظر بھی قابلِ دید ہوتا تھا۔اگر زیرِ عتاب ٹرینی نیچے دیکھ رہا ہوتا تو کاشن کہ عورتوں کی طرح نیچے کیوں دیکھ رہے ہو اور اگر اوپر دیکھ رہا ہوتا تو کاشن کہ خدا بہت دور ہے سامنے دیکھو۔

سامنے دیکھتے تو کہہ دیتے پرنسپل کا کمرہ بہت دور ہے وہ تمہیں چھڑانے نہیںآ ئے گا۔میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالو۔آنکھیں اُس کی آپس میں نہیں ملتی تھیں بیلنس ہی نہیں ہوپاتا تھا۔آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا۔ بحرحال چاروناچار اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا پڑتی تھیں ۔زرین خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا گویا بھٹی میں دانے ڈالنے کے مترادف تھا۔

دیر تک بعد میں آنکھیں دکھتی رہتی تھیں۔ ہشیار باش کے دوران اگر مکھی ناک کے ارد گرد منڈلانے لگتی تھی تو اِسے ہاتھ سے اڑانے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔نہ جانے کس مٹی کی یہ مکھیاں بنی ہوئی تھیں۔ہاتھ سے تو مکھی اڑانے کی اجازت تھی نہیں اس لئے ہم منہ کو تیزی سے ادھر گھماتے جیسے تیزی میں لقمہ چبایا جاتا ہے۔یا پھر ناک میں شو ں شوں فوں فوں کرتے کہ کسی طرح یہ اڑجائے لیکن مجال ہے جو اس کے کان پر جوں بھی رینگے۔

بد بخت ناک میں سونڈ کو اس طرح گھماتی کہ خارش سے برا حال ہو رہا ہوتا لیکن خارش کرنے کی اجازت نہ ہوتی۔اگر ہمیں نزلہ یا زکام ہوتا تو ہم اس ناہنجار کی شکایت نہ کرتے چلو خوراک کے لئے تگو دو کر رہی ہوتی تھی لیکن ہمارے تو ناک میں بھی کچھ نہ ہوتا تھا پھر بھی یہ اپنی معائنہ ملتوی نہ کرتی۔اُس وقت ناک سے مکھی اڑانا دنیا کی سب سے بڑی عیاشی لگتی تھی۔

لیکن زرین خان نے یہ عیاشی ہم پر اس لئے حرام کر رکھی تھی کہ اپنے وقتوں میں اُن پر بھی یہ عیاشی حرام کی جاتی رہی ہوگی۔
فوجی زندگی میں ہر کام ترتیب تنظیم سے ہوتا ہے۔ اگر کینٹ میں کوئی مزاحیہ سٹیج شو ہو رہا ہو تو فنکار کے کسی لطیفے پر ہنسنا بھی ترتیب تنظیم سے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے کرنل ہنستا ہے، اُسے دیکھ کر میجر ہنستا ہے۔ میجر کو دیکھ کر کیپٹن ہنستا ہے، کیپٹن کو دیکھ کر لفٹین ہنستا ہے اورلیفٹیننٹ کودیکھ کر صوبیدارہنستا ہے اور اتنے زور سے ہنستا ہے جتنا زور وہ لگا سکے۔

ہنستے ہنستے اُس کی آنکھوں میں آنسو بھی آ جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ لطیفہ اُس کی سمجھ میں ہی نہ آیا ہو یا وہ اپنی کسی گھریلو سوچ میں گم بیٹھا ہو لیکن وہ میجر کو ہنستا دیکھ کر اس لئے ہنستا ہے کہ میرا صاحب ہنس رہا ہے۔اگر کوئی کرنل یا میجر سے پہلے ہنسنا شروع کر دے تو یہ ڈسپلن کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
فوجی جب چلتے ہیں تو ترتیب سے چلتے ہیں اور جب رکتے ہیں تو ترتیب سے رکتے ہیں۔

جب اٹھتے ہیں تو ترتیب سے اٹھتے ہیں اور جب بیٹھتے ہیں تو ترتیب سے بیٹھتے ہیں۔فوجی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ہمیں حسن ترتیب نظر آتا ہے۔وہ جنگل میں بھی ڈیرے لگا لیں تو حسن ترتیب سے جنگل کو منگل بنادیتے ہیں۔یہ ان کا نظم و ضبط اور حسن ترتیب ہی ہوتا ہے جو اُن میں زبردست طاقت بھر دیتا ہے اورطاقتور ترین فوجوں کو شکست دے ڈالتے ہیں۔
اگر آپ کبھی واشنگٹن میں کانگریش لائبریری میں جائیں تو آپ کو چھت پر انگریزی شاعر کے پانچ الفاظ منقوش نظر آئیں گے۔

ترتیب کائنات کاپہلا اصول ہے۔کائنات کی ہر چیز ہمیں حسنِ ترتیب کا درس دیتی نظر آتی ہے۔خود انسان حسن ترتیب کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔اگر انسانی چہرے سے ہی ذرا سے اُس کے کان آگے پیچھے سرکار دئیے جائیں ،آنکھیں یا ناک اپنی جگہ سے ایک انچ آگے یا پیچھے سرکا دئیے جائیں تو انسانی چہرے کی حسن و دلکشی ماند پڑ جائے گی۔اگر ناک، کان اور آنکھیں اپنی جگہ پر موجود رہیں لیکن چہرے کے پٹھوں میں ذرا سا کھنچاؤ آجائے تو بھی چہرے کی زیبائش میں کمی آ جاتی ہے جس کی مثال لقوہ ہے۔

فطرت کے کینوس پر جس طرف نظر پڑتی ہے حسن ترتیب دکھائی دیتی ہے۔حسن ہے ہی ِ ترتیب میں۔
حسن ترتیب کا دوسرا نام سلیقہ شعاری ہے۔لڑکی کے رشتے کے وقت جہاں اُس کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو دیکھا جاتا ہے وہاں اُس کی سلیقہ شعاری کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ آیا وہ چیزوں کو ترتیب تنظیم سے رکھتی ہے یا اِدھر اُدھر بکھیرے رکھتی ہے۔کاموں کو اہمیت کے لحاظ سے کرتی ہے یا جو اہم کام ہوں انہیں بعد میں کرتی ہے اور جو غیر اہم ہوں انہیں پہلے سرانجام دیتی ہے۔

ہم روزمرہ کے امور جلد بازی یا منتشر خیالی میں سر انجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے اِ ن امور میں ترتیب نہیں رہتی۔روزمر ہ کے کاموں میں نظم و ترتیب نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں بعد میں پریشانیاں اُٹھانا پڑتی ہیں۔صبح اُٹھتے ہی کئی طرح کے کام ہمارے ذہن پر آکر دستک دینے لگتے ہیں۔اگر ہم انہیں کسی کاغذپر ترتیب وار تحریر نہیں کرتے اور اِن کاموں کو نبٹانے کے لئے ذہن میں ایک منصوبہ بند ی نہیں کرتے تو یہ کام
ہمارے لاشعور میں کھلبلی مچا دیتے ہیں۔

ہم گھبراہٹ اور ذہنی ٹینشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ہم منتشر خیالی کا شکار ہو جاتے ہیں اور کوئی کام ڈھنگ سے نہ کرسکنے کی وجہ سے اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔اگر ہم تھوڑی سی محنت سے اپنے کاموں کو نظم و ترتیب میں کر لیں تو ترتیب وار ہم اپنے کاموں کو نبٹاتے ہوئے بے چینی اور اضطراب کا شکار ہرگز نہ ہوں بلکہ ایک راحت سی محسوس کریں۔
حسنِ ترتیب تمام طبقات کے لئے ضروری ہے چاہے وہ طالب علم ہوں، چاہے وہ صنعت کارہوں۔

چاہے وہ مرد ہوں چاہے وہ عورتیں ہوں۔یوں تو نظم و ترتیب کی ضرورت ہر شعبہ ہائے زندگی کو ہوتی ہے لیکن نظم و ترتیب کی ضرورت بڑے عہدے والوں کو زیادہ ہوتی ہے۔انہیں فوری نوعیت کے چھوٹے چھوٹے فیصلے تھوڑی تھوڑی دیر بعد کرنے ہوتے ہیں۔اس دوران غیر ضروری کاموں پر بھی توجہ ادھر اُدھر منعکس ہوتی رہتی ہے۔بعض اہم عہدوں پر ایسی حالت میں کئے گئے فیصلوں پر قوموں کی تقدیر یں بنتی یا بگڑتی ہیں۔

تیزی ،گھبراہٹ یا منتشر خیالی سے کئے گئے غلط فیصلوں کی وجہ سے قومیں مدتوں تک سزا بھگتتی رہتی ہیں۔ان پوسٹوں پر تعینات کرنے سے پہلے یکسوئی، قوتِ فیصلہ اور حسن ترتیب کی ٹریننگ لازمی قرار دی جانی چاہیے۔
حسنِ ترتیب چھوٹی چھوٹی باتوں کی مشق کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔حسنِ ترتیب پروان چڑھتی نہیں بلکہ چڑھائی جاتی ہے۔روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں حسنِ ترتیب کا خیال رکھنے سے یہ خوبی پروان چڑھتی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان کی زندگی نظم و ترتیب میںآ جاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :