گول چکر

جمعہ 12 ستمبر 2014

Ali Raza

علی رضا

ایک آدمی کسی جُرم کی پاداش میں جیل گیا ۔ساتھ والے قیدی نے اس سے پوچھا کہ بھائی کس جُرم میں آئے ہو تو اس نے کہا کہ چوری کے ۔اس پر دوسرے قیدی نے اُس سے پوچھا کہ چوری کی بھی ہے یا ناجائز ہی میں قابو آ گئے ہو ۔اس بات پر پہلے والا قیدی ہنس دیا اورکہا کہ جائز بھی اور ناجائز بھی ۔دوسرے والا قیدی بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا کہ یہ کیا ۔پہلے والا قیدی کہنے لگا کہ بھئی جائز اس لئے کہ میں نے چوری کا ارادہ بنایا تھا اور چوری کرنے بھی گیا مگراس سے پہلے کہ میں چوری کرتا میں پکڑا گیا۔

دوسرا قیدی بولا کہ اور ناجائز کیسے پہلے والا قیدی رونے لگا اور روتے ہوئے ہی کہنے لگا کہ میرے بھا ئی میں نے چوری کا جب پلان بنایا تو میرے پلان میں سب سے بڑی رکاوٹ اُس گھر کا کُتا تھا جس میں میں نے چوری کرنی تھی۔

(جاری ہے)

میں نے بڑی مُشکل سے ایک مہینہ لگا کر اُس کُتے سے دوستی کی اورجب میں نے چوری کرنے کے لئے اس گھر کی دیوار پھلانگی تو بد قسمتی سے میرا پاؤں اُس گھر کی بلی پر آگیا اور میں پکڑا گیا۔


آج کل حکومت پاکستان کا حال بھی کُچھ اس سے مختلف نہیں ہے ۔بیچاری حکومت پہلے دھرنوں سے پریشان تھی ۔بلکہ حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی اس وجہ سے کافی پریشان تھی اور معاملا ت کو سلجھانے میں حکومت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑی تھی ۔مُلکی تاریخ میں پہلی بارایسا اتحاد دیکھنے کو آیا ہے۔لیکن یہ اتحاد اس وقت ٹوٹتے ہوئے دکھائی دیا جب حکومت کے ایک وزیرکا بلی کے اوپر پاؤں آگیااور مُلکی سیاست میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ۔

پاؤں کیا آیا بلی یعنی کہ اپوزیشن نے چیخنا چلانا شروع کردیا اور وزیر صاحب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے صاحب کی اچھی بھلی کلاس لے ڈالی۔اور کلاس لینا ان کا حق بھی بنتا تھا ۔ایسا تو نہیں ہے نہ کہ آپ کسے کو مارے یا دبائیں اور وہ چُپ چاپ یہ سب کُچھ سہتا رہے ۔ اس سے پہلے کہ یہ بحث طُول پکڑتی وزیر اعظم صاحب نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپوزیشن سے معافی مانگ لی اور اپنے وزیر صاحب کو سمجھایا بجھایا کہ جناب اگر حکُومت کرنی ہے تو ”ہتھ ہولا رکھو“۔

بحر حال جیسے تیسے کر کے وزیر صاحب کو منایا گیا اور یہ معاملہ ٹھنڈا پڑا۔
ابھی اس معاملے کو ٹھنڈا پڑے زیادہ دیر نہ گُزری تھی کہ بڑے چوہدری صاحب نے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔چوہدری شجاعت حسین ایک زیرک اور رکھ رکھاؤ والے سیاستدان ہیں ۔جہاں” بچہ جمور ا “سیاستدانوں کی سوچ ہمت ھار جاتی ہے وہاں پر چوہدری صاحب دور کی کوڑی لاتے ہیں اور وہ بات کر جاتے ہیں کہ سیاست کے ایوانوں میں ہلچل شروع ہو جاتی ہے۔

چوہدری شجاعت کے موجودہ بیان نے سیاست کے ایوانوں اور میڈیا میں اک نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔جو کام تقریباً پچھلے ایک ماہ سے عمران خان یا قادری صاحب نہیں کر سکے وہ چوہدری شجاعت نے کر دکھا یاانہوں نے کھلے عام دعوٰی کیا کہ الیکشن 2013ء میں جنرل کیانی براہ راست ملوث ہیں ۔چوہدری صاحب کے بیان نے نہ صرف آزادی و انقلاب مارچ کو تقویت دی بلکہ اک نئی بحث کو چھیڑ دیاہے۔

یہ سلسلہ تو اب دن رات چل رہا ہے ۔لیکن ایک نیوز چینل پررات آٹھ بجے بیٹھنے والا اینکر اس معاملہ کو بڑے زور شور سے اٹھا رہا تھا۔جناب اینکر کا فرمانا تھاچوہدری شجاعت کا سابق آرمی چیف پر بیان اصل میں پوری فوج پر الزام ہے اس سے پوری فوج کاتقدس پا مال ہوا اور جناب اینکر نے چوہدری شجاعت سے ٹیلی فون پر بھی یہ سوال پوچھ ڈالا اور جناب اینکر نے زوروشور اور دلائل سے چوہدر ی صاحب کو مجرم بھی ٹھرا دیا اور اعلان کردیا کہ آرمی چیف کا عمل اصل میں پوری فوج کا عمل ہوتا ہے اور آرمی چیف کے پیچھے پوری فوج کھڑی ہوتی ہے ۔

میڈیا اور سیاست کے ایوانوں میں ہونے والی اس بحث نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ اگر دھاندلی ہوئی ہے اور اس مبینہ دھاندلی کے پیچھے کیانی ہے تو کیانی پر الزام نہیں آنا چاہیے تھا بلکہ پوری فوج پر آنا چاہئے تھا ۔اور اگر اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو پھر سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے تمام احکامات کو اُسی طر ح استثنٰی حاصل ہے جس طرح کیانی کو حاصل ہے ۔

کیونکہ پرویز مشرف بھی آرمی چیف تھا اور اُس کے پیچھے بھی پوری فوج کھڑی تھی۔جوتجزیہ نگار کہتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل 6 صرف مشرف پر لگنا چاہیے کیونکہ وہ اکیلا اس کا ذمہ دار ہے فوج کو بھیچ میں مت گھسیٹا جائے وہ سابق جنرل کیانی کے لیے ایسا کیوں نہیں سوچتے جو پیمانہ مشرف کے لئے دن رات استعمال کیا جا رہا ہے وہ پیمانہ کیانی کے لئے کیوں نہیں ۔اصل میں چوہدری شجاعت ایک زیرک اور پہنچے ہوئے سیاستدان ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری صاحب نے جو اونٹ چھوڑا ہے وہ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔اور یہ تجزیہ نگاروں کے لئے بھی ایک امتحان ہے کہ وہ چوہدری صاحب کے اس بیان کو کس زاویہ سے دیکھتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :