پہنچی وہیں پہ خاک

بدھ 10 ستمبر 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

ایک شخص حضرت با یزیدبسطامی کی خدمت میں حاضرہوااور کہا”اپناکرتابطورتبرک مجھے دے دیجئے،میں اِس سے برکت حاصل کروں گا“۔حضرت بایزیدنے فرمایا”میں اگرتمہیں اپنی چمڑی بھی اتارکردے دوں تووہ بھی تمہارے لیے سودمندنہ ہوگی کیونکہ کسی زبان درازکوکوئی تبرک فائدہ نہیں پہنچاسکتا“۔محترم عمران خاں نے خارزارِسیاست میں قدم رکھتے ہی جس غیرپارلیمانی زبان کی ”طرح“ ڈالی اُسے نرم سے نرم الفاظ میں”بازاری“زبان ہی کہاجاسکتاہے۔

دوسری طرف انتہائے نرگسیت کے شکار ،شیخ الاسلام کہلوانے کے شوقین مولاناطاہرالقادری جب سے پاکستان تشریف لائے ہیں تب سے اب تک اپنے عقیدت مندوں کوقائل کرنے کے لیے ساڑھے پانچ سو مرتبہ ”اللہ کی عزت “کی قسم اُٹھاچکے ہیں جبکہ میرے دین کایہ طے شدہ فیصلہ ہے کہ زیادہ قسمیں کھانے والاجھوٹاہوتاہے۔

(جاری ہے)

مولانانے دھرنے کی رات کولیلةالقدرقرار دے کر دینِ مبیں کامذاق اُڑانے کی جسارت کی لیکن حیرت ہے کہ کسی مفتی نے اِس ناپاک جسارت پراب تک کوئی فتویٰ نہیں دیا۔


حضرت علی کاقول ہے”زبان ایک ایسادرندہ ہے کہ اگرتُو اُسے کھُلاچھوڑدے توعین ممکن ہے کہ تجھے ہی پھاڑکھائے“۔اسلام آبادکے ڈی چوک میں اِس قولِ علی کوہم سچ ہوتادیکھ رہے ہیں۔خاں صاحب جوآندھی،طوفان کی طرح اُٹھے اب ڈی چوک کے ایک کونے میں سُکڑے سمٹے بیٹھے ہیں۔خاں صاحب کے مدح سرا ”کالمی درویشوں“والے لکھاری نے اپنے کالموں میں سینکڑوں بارلکھا”کپتان جھوٹ نہیں بولتا“لیکن وقت نے ثابت کیا کہ کپتان کی کھیتی میں سوائے جھوٹ کے اورکوئی فصل اُگتی ہی نہیں۔

ڈی چوک کے 24 دنوں میں اُنہوں نے اتنے جھوٹ بولے کہ شمارممکن نہیں لیکن ایک آخری جھوٹ کہ ”حکومتِ پاکستان جھوٹ بولتی ہے، چین کے صدرتوپاکستان کے دورے پرآہی نہیں رہے تھے“۔اُنہیں ایسی اطلاعات پہنچانے والاٹی وی اینکرخوداتنابڑاجھوٹاہے کہ کوئی بھی عقیل وفہیم شخص اُس کی باتوں پر اعتبارکرنے کوتیارنہیں۔چینی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کردی کہ پاکستانی سیاست کی صورتِ حال کومدِنظررکھتے ہوئے دونوں ملکوں کی باہمی رضامندی سے دورہ منسوخ ہوا۔

خاں صاحب کے لیے انتہائی مایوس کُن خبریہ کہ چینی سفارت خانے نے بیان جاری کردیاہے کہ ”طے شُدہ معاہدوں پرمکمل عمل درآمدہوگااورسیاسی حالات معمول پرآتے ہی دورے کوحتمی شکل دی جائے گی“۔اُسی کذاب اینکرکوانٹرویودیتے ہوئے خاں صاحب نے یہ بھی فرمایا” چین سے 32 ارب ڈالرز7فیصدسودپرحاصل کرکے قوم کومزیدمقروض کیاجارہاہے“۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے چین سے کوئی قرض نہیں لیا۔

یہ 32ارب ڈالر زکے معاہدے ہیں جوچینی صنعت کاروں کے ساتھ کیے گئے ۔ساری سرمایہ کاری چینی صنعت کارہی کریں گے اور چینی حکومت پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے صنعت کاروں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرے گی لیکن خاں صاحب نے اِن سب پرپانی پھیرنے کی محض اِس لیے کوشش کی کہ اگریہ منصوبے شروع ہوگئے توپھرخاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ خواب وخیال بن کے رہ جائے گی۔


دھرنوں کی مایوس کُن تعداددیکھ کردونوں رہنمابھائی ، بھائی بن چکے ہیں۔اب دونوں کاایجنڈا ایک اوردونوں ہی انارکی پھیلانے کی تگ ودومیں مگن ۔اِس لیے بَرملاکہاجاسکتاہے کہ”پہنچی وہیں پہ خاک،جہاں کاخمیرتھا“۔ مسٹراورمولانا کے دھرنے ڈی چوک کے انتہائی متعفن ماحول میں اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں اورڈی چوک کوالتحریرسکوائرمیں بدلنے کاخواب دیکھنے والوں کی ہر تدبیراُلٹی ہورہی ہے۔

خاں صاحب بارباروزیرِاعظم کومصرکے صدرحسنی مبارک کاطعنہ دیتے ہیں لیکن جانتے وہ خودبھی ہیں کہ التحریرسکوائرپرلاکھوں کامجمع تھا،پوری قوم انقلابیوں کے ساتھ تھی اورحسنی مبارک نے اپنا اقتداربچانے کے لیے لگ بھگ 900 لوگوں کوگولیوں کانشانہ بنایاجبکہ خاں صاحب کی ”جوہڑ“میں بدلتی سونامی محض چندسوافرادپرمشتمل ہے۔ البتہ رات کو”میوزیکل کنسرٹ“کے شوقین پنڈی اسلام آبادکے لڑکے ،لڑکیاں ہلا گُلاکرنے اورجسم تھرکانے ڈی چوک پہنچ کردھرنے کورنگین بنادیتے ہیں۔

مسٹراورمولاناکی تویہ شدیدخواہش تھی اورہے کہ ڈی چوک کوخون میں نہلادیاجائے تاکہ اُنہیں لاشوں پرسیاست کرنے کاموقع مل سکے۔شایدایساہوبھی جاتالیکن سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے بعدحکومت محتاط ہوگئی اورصبرکادامن ہاتھ سے نہ چھوڑااِس لیے مسٹراورمولاناکالاشوں پرسیاست کرنے کامنصوبہ دھرے کا دھرارہ گیا۔چاروناچارخاں صاحب نے یہ اشارے دینے شروع کردیئے کہ فوج اُن کی پشت پرہے۔

وہ کبھی امپائرکی انگلی کھڑی ہونے کااشارہ دیتے توکبھی اپنی کورکمیٹی کوکہتے”وہ“کہتے ہیں کہ ایساکردو،ویساکردولیکن یہ جھوٹ بھی زیادہ دیرتک نہ چل سکااور”باغی“نے بیچ چوراہے بھانڈاپھوڑدیا۔ جونہی تحریکِ انصاف کے اراکینِ پارلیمنٹ کویہ ادراک ہواکہ کپتان جھوٹ بولتاہے تواُن میں پھوٹ پڑگئی جس کااقرارخودخاں صاحب نے بھی کیا۔

تحریکِ انصاف کے تین اراکین نے توویسے ہی مستعفی ہونے سے انکارکردیا،پانچ اراکین نے استعفے عمران خاں صاحب کے نام لکھے جوغیرآئینی تھے اور اب باوثوق ذرائع تصدیق کررہے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے کم ازکم 20اراکین نے سپیکرقومی اسمبلی سے خفیہ ملاقات کرکے استدعاکی ہے کہ اُن کے استعفوں پرعمل درآمدروک دیاجائے۔اگریہ سچ ہے توپھرخاں صاحب کی پٹاری میں تومحض چند”سِکے“ہی بچتے ہیں،کیاوہ اِن کھوٹے سکوں کے زورپرانقلاب لانے کے داعی ہیں؟۔

ویسے تویہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ عنقریب شاہ محمودقریشی صاحب،جہانگیرترین،اعظم سواتی اورشیریں مزاری سے مِل کرعنقریب تحریکِ انصاف سے خاں صاحب کا پتاکاٹنے والے ہیں اورتحریکِ انصاف کے اراکینِ پارلیمنٹ کی غالب اکثریت نے اُن کو ساتھ دینے کی یقین دہانی بھی کروادی ہے۔
اُدھرمولاناقادری کوبھی چودھری صاحبان یقین دلاتے رہے کہ ”وہ“اُن کے ساتھ ہیں لیکن دھرنوں کی شرمناک ناکامی کے بعد بوکھلائے ہوئے چودھری شجاعت نے ایک طرف توسابق آرمی چیف کوانتخابی دھاندلی میں ملوث قراردے دیاجبکہ دوسری طرف فوج کومارشل لاء لگانے کی دعوت بھی دے ڈالی۔

فوج کی مزاج شناسی کادعویٰ کرنے والے کچھ ریٹائرڈفوجی بھی ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت حکومت کے خلاف زہراُگلتے رہے اورہماراآزاداوربیباک میڈیاجلتی پہ تیل ڈالتارہا۔تقریباََتمام نیوزچینلز24 گھنٹے مسٹراورمولاناکے گردگھومتے اوراُن کی ”لائیوکوریج“کرتے رہے۔سبھی جانتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیاکاکاروباراشتہارات پہ چلتا ہے لیکن اِن چوبیس دنوں میں اشتہارات بھی تقریباََبندہوگئے۔

سوال یہ ہے کہ مسٹراورمولانانے اِن نیوزچینلزکوکتنے میں خریدا؟۔اُدھرپیمراکایہ عالم کہ بے بس، مکمل بے بس۔ماناکہ آئین ہمیں اظہارِرائے کی آزادی دیتاہے لیکن بانیٴ پاکستان نے تویہ فرمایاتھاکہ”آزادی کامطلب بے لگام ہوجانانہیں۔اِس کے معنی یہ ہرگزنہیں کہ آپ جورویہ چاہیں اختیارکریں اورجوجی میںآ ئے کرگزریں۔آزادی ایک بھاری ذمہ داری ہے جسے سوچ سمجھ کراستعمال کرناہوتاہے“۔یہ کیسی آزادی ہے جوبربادی کاپیش خیمہ ثابت ہورہی ہے اورالیکٹرانک میڈیابربادیوں کی داستان رقم کرنے والوں کابھرپورساتھ دے رہاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :