جمہوریت کا راگ الاپنے والے مفاد پرست

بدھ 10 ستمبر 2014

Ahmed Adeel

احمد عدیل

آخر کا ر جمہوری باسبانوں کی دم پر پاوں آ ہی گیا یہ وہ لوگ ہیں جن کی ایک دوسرے کے پیچھے نماز جائز نہیں لیکن جب بات اپنے مفادات کی آتی ہے تو یہ سب ایک ہو جاتے ہیں اور عوام کا بھی یہ عالم ہے کہ شعلہ بیانی کو حقیقت سمجھ کر اس پر سر دھنتے رہتے ہیں ، خیر جمہوری پاسبانوں کے چند لطیفوں سے لطف اندوز ہوں جو پاکستانی برانڈ جمہوریت کی ایک زندہ مثال ہیں پہلے لطیفے کے موجد جناب اعتزاز احسن ہیں ۔

الیکشن میں بے پناہ دھندلی ہوئی، عمران خان کے مطالبات جائز ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، آسان زبان میں اس کا مطلب ہے کہ میں جانتا ہوں تم چور ہو اور میرا یقین ہے کہ قانون کو تمہیں گرفت میں لینا چاہیے لیکن اس مشکل وقت میں تمہیں قانون سے بچانے کے لیے میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔

(جاری ہے)

دوسرا لطیفہ جناب جاوید ہاشمی نے سنایا ہے جن کے بقول، عمران خان کو نہیں بلکہ حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے، آخر ماڈل ٹاون والی د رندگی کی ایف آئی آر درج کیوں نہیں کی گئی؟ وزیر اعظم ایوان میں کیوں نہیں آتے؟ نواز شریف اکتیس سال سے اقتدار میں ہیں لیکن آج تک ملک کو ٹھیک کیوں نہیں کر سکے؟ اس کے باوجود آئین کے پاسداری کرتے ہوئے میں حکومت کے ساتھ کھڑا ہوں۔

اچکزئی صاحب بلو چستان میں دودھ کی نہریں بہانے کے بعد اب بھی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، مولانا کے بقول باہر دھرنے میں بیٹھے لوگوں کی کوئی اوقات نہیں ان بھوکے ننگے لوگوں کی وجہ سے ہم پارلیمنٹ میں نہیں آسکتے اسلام آباد کو ان جھتوں سے پاک کر دینا چاہیے ، دھرنے میں ڈانس ہو رہے ہیں یہ دھرنا نہیں بلکہ ایک میوزک کنسرٹ ہے ،، مولا نا کی خدمت میں ایک شعر جو ان کو اور ان جیسے دوسرے جمہوری مداریوں کو آئینے میں ان کی اصلی شکلیں دکھاتا ہے۔


دیکھنے سے پہلے دھو آنکھوں کی گندی پتلیاں
ورنہ چہرہ ڈھانپ لے گی تجھ سے اچھائی میری
یہ وہ لوگ ہیں جو آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں، کہاں کا آئین اور کون سا قانون؟؟ قانون اور آئین تب کہاں تھا جب ایک منتخب صدر کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے نعرے لگتے تھے، قانون تب کیوں نہیں جاگا جب سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا، ماڈل ٹاون میں دہشت گردی کے خلاف قانون حرکت میں کیوں نہیں آیا؟؟ آئین تب مقدس کیوں نہیں تھا جب جالندھری جرنیل نے شریفوں کو گود لے کر پروان چڑھایا؟ لوگوں کی یاداشت کمزور ہے یا پھر یہ ویسے ہی بے حس ہیں ورنہ یہ سیاسیے جو آج پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر آئین و قانون کی بات کرتے ہیں ان کا اصل چہرہ کس سے چھپا ہوا ہے؟؟ مسٹر فضل الرحمن نے آج تک مذہب کو اپنی ڈھال بنا کر سیاست کی ہے یہ فتوے بیچتے ہی نہیں رینٹ پر بھی دیتے ہیں پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں کون سی دودھ کی نہریں بہائی ہیں جو آج یہ لوگ عوام کی بات کرتے ہیں ؟ سو کالڈ ماوزے تنگ شہباز شریف کی ساری گڈ گورننس بارش کے بعد سڑکوں پر بہتی نظر آ رہی ہے ، پورے پنجاب کا بجٹ لاہور میں ضائع کرنے والے کیا لاہوریوں کو پینے کا صاف پانی دے سکے؟؟ کیا صفائی کانظام ٹھیک کر سکے؟؟ کیا ایک اچھا تعلیمی نظام بنا سکے؟؟ کیا اپنے وعدوں کے مطابق بجلی دے سکے؟؟ جتنے نام بدلنے کے دعوے سو کالڈ خادم علی کر چکے اتنے تو طوائف گھنگرو نہیں بدلتی لیکن یہ سب ایک غلیظ جھوٹ ثابت ہونے کے باوجود بھی ابھی تک ان کا نام شہباز شریف ہے اور ابھی بھی وہ اپنے آپ کو گڈ گورننس کا بانی سمجھتے ہیںآ خر کیوں؟؟ کیونکہ یہی وہ جمہوریت ہے جس کو بچانے لے لیے سب کرپٹ ، جھوٹے، لیٹرے، مفاد پرست، فراڈئیے ایک کلب میں جمع ہیں جسے پارلیمنٹ کا نام دیا جاتا ہے، بات کرتے کہ آئین مقدس ہے آئین مقدس کیسے ہو گیا؟ آئین کیا کوئی الہامی کتاب ہے جو مقدس ہے آئین کو زیادہ سے زیادہ محترم کہہ لیں قابل احترام کہہ لیں لیکن یہ مقدس کیسے ہو گیا؟ انسانوں کی لکھی کوئی کتاب مقدس کیسے ہو سکتی ہے؟؟ پھر سب ریکارڈ پر ہے کہ پچھلے ستاسٹھ سالوں میں کیسے آئین و قانون کی دھجیاں بکھیریں گئی، جھوٹ، پرو پیگنڈہ، شعلہ بیانی، مفادات، اور اندھی طاقت یہ پاکستان میں ڈیمو کریسی کے ثمرات ہیں ان چند خاندانوں کے لیے ، ایک طرف زرداری کی تواضع ستر ڈشوں سے کی جا رہی ہے دوسری طرف مجبور ماں اپنے پانچ بچوں سمیت خودکشی کر رہی ہے ، ایک طرف مکروہ ترین حیوان نما انسان پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر آئین و قانون کا درس دے رہے ہیں دوسری طرف لوگوں کے گھر بار بارش میں تیر رہے ہیں، نہ پانی ہے نہ بجلی، نہ گیس، نہ روٹی ، نہ مکان، نہ عزت، لیکن اس کے باوجود جمہوریت کی پاسداری، آخر کیوں؟ کیونکہ یہ جمہوریت ان لوگوں کے گھر کی باندی ہے اسی جمہوریت کے طفیل یہ چند خاندان اس ملک کی رگوں سے خون نچوڑ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے باہر بیٹھے یہ چند ہزار میلے کچیلے لوگ پاکستان میں جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں ان کی وجہ سے ملک کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے، یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ ملک کے وہ اربوں کھربوں کہاں ہے جن کو کھا کر انہوں نے ڈکار بھی نہیں لیا، پیلی ٹیکیساں، سستے تندور، لیپ ٹاپ،دانش سکول، میڑو بس، اور اب نندی پور پلانٹ، یہ سب منصوبے کامیاب کیوں نہیں ہوئے اور ان بے کار منصوبوں میں جھونکا گیا اربوں روپیا کہاں گیا؟ اس سب کا آڈٹ کون کرے گا؟ کوئی بھی نہیں اس سب کا آڈٹ کوئی نہیں کرے گا نہ ہی اس ملک کی ہسٹری میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی کا آڈٹ کیا گیا ہو، ان سب جمہوری وارداتیوں کو مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ اربوں روپیہ ان کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے اس کی دہاڑیاں نہیں لگ رہیں اسی لیے سب چور کو چور کہنے کے باوجود اس کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں ، سب مختلف قراردادیں پاس کر رہے ہیں لیکن ایک قرارداد جو ہسٹری میں نہ کبھی پاس ہوئی نہ تب تک ہو گی جب تک یہ جگاڑئیے اقتدار میں ہیں وہ قراداد ہے عوام کے حقوق کی قرارداد ، عوام کے حقوق کے لیے یہ آج تک اکھٹے نہیں ہوئے لیکن جونہی یہ مردہ نظام خطرے میں پڑا یہ سب اس کو بچانے کے لیے اکھٹے ہو گئے ہیں، ستاسٹھ سالوں کی قبیح غلامی کے بعد اب تو ان مردہ نما عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کو کیسے لوٹا جا رہا ہے، نہ کوئی جمہوریت قابل احترام ہوتی ہے نہ آئین ، بلکہ سب سے قابل احترام عوام ہوتی ہے اور اگر عوام کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہی ہو اور ایوان میں یہ بحث کی جارہی ہو کہ نظام کیسا بچانا ہے تو وہ جمہوریت نہیں ہو سکتی ، جو جمہوریت عوام کو ان کے حقوق نہ دے سکے، جو آئین طاقت ور کو ظلم کرنے سے نہ روک سکے، جو قانون اقتداری وارداتیوں کا غلام ہو ، تف ہی ایسی جمہوریت اور اس کا راگ الاپنے والوں پر۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :