خوشیوں کے متلاشی لوگ

پیر 8 ستمبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

سن شعور میں پہنچنے کے بعدجب پہلی دفعہ بابا اشفاق احمد کو پی ٹی وی پر دیکھاتو خیال آیا کہ پرانے زمانے کا بابا ہے ‘پتہ نہیں کیا کہتاہوگا؟ اس عمرکے لوگ عموماً نصیحتیں بہت کرتے ہیں ‘ یہ بھی وہی پرانے قصے ‘کہانیاں ‘باتیں سناکر قائل اور مائل کرنے کی کوشش کرینگے۔ سو جونہی وہ پی ٹی وی کی سکرین پر نمودار ہوتے ہم بھی اٹھ کردوسری سرگرمیوں ‘کھیل کود کی طرف مصروف ہوجاتے ‘ پھر ایک دن جب دل بہت ہی اداس تھا‘ کسی کھیل کی طرف دل مائل نہیں ہوپایا‘کسی کتاب‘ رسالے میں دل نہ لگا ‘بس ایک ہی بات دل ‘ذہن کوکھائے جارہی تھی کہ آخر خوشی ملتی ہی کیسی ہیں؟ اسی دوران پی ٹی وی پر بابا اشفاق احمدآن موجودہوئے ‘ انہوں نے ابتدائی تمہیدکے بعد ایک چھوٹا ساجملہ کہا ”خوشی کسی تحفے کی طرح ہوتی ہے ‘اسے جتنا بھی تقسیم کروگے پہلے سے کہیں طاقتو ربن کر تمہارے پاس لوٹ آئیگی“ (انکے الفاظ اب ذہن میں نہیں لیکن ان جملوں کے مندرجات بہرحال یہی تھے) ان جملوں نے ہمیں گویا جکڑلیا پھر نہ تو وقفے کے دوران ٹی وی کے سامنے سے اٹھ پائے اورنہ ہی دھیان کسی اور جانب تھا۔

(جاری ہے)

بس وہ دن اورآج کا دن ‘اشفاق احمد ہمارے جسم کا ‘ہمارے ذہن کا لازمی جزو ہیں‘ انہیں پڑھنے ‘ سننے میں جو مزہ آتاہے وہ کسی بھی چیز میں نہیں دکھائی دیتا۔ ان کے منہ سے نکلنے والے ہرجملے کو ذہن میں رکھنا محال ہی نہیں ناممکن بھی ہے تاہم کوشش کرتے ہیں کہ انہیں دیکھا‘سنا جائے ‘جانچا پرکھاجائے‘مگر باوجود کوشش کے ایسا ہونامحال دکھائی دیتا ہے کہ اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں ‘ پھر ایک دن جب سوشل میڈیا پر ان کی ایک ویڈیو نظر سے گزری ‘ ساتھ لنک بھی ہاتھ آگیا بس اس کے بعد کیا تھا ‘ اب تو ہرروز ہی بابا اشفاق سے ملاقات ہوجاتی ہے‘ کسی جگہ جانے کی ضرورت نہیں پڑتی نہ ہی کسی کی معاونت کی محتاجی ہے۔


ہمیں یاد ہے کہ ایک پروگرام میں اشفاق احمد فرمارہے تھے کہ میں اکثر بابوں کا ذکر کرتاہوں تو کئی جھلے لوگ مجھ سے پوچھ بیٹھتے ہیں ”بابا جی یہ آخربابے ہیں کون اور آپ کو ہی بابے کیوں مل جاتے ہیں ‘ ہم نے بہت تلاش کیا ایسے سیانے بابوں کوڈھونڈ نہیں پائے“اشفاق احمد مسکراتے ہوئے فرمانے لگے میں نے جواب دیا ”یہ بابے دراصل ہرانسان کے اندر موجود ہوتے ہیں ‘ بس انہیں اپنے اندرداخل ہوکرڈھونڈنا پڑتا ہے۔


اشفاق احمد کی یہ بات کچھ یوں اثر کرگئی کہ ہم نے بھی اپنے اندر جھانک ‘پرکھ ایک بابا تلاش کرلیا ‘ وہ ہمارے اندر رہنے والا ہمزاد تھا جسے ہم نے ”بھولے “ کانام دیا‘ بھولا عموماً ہمارے ہاں سیدھے سادھے مگر معصوم سے شخص کو کہاجاتاہے جسے دنیاداری کی ہوا نہ لگی ہو ‘ بس اس کے بعد ہم اکثر بھولے کی مثال دیاکرتے تھے کہ ہم سے بھولا ایسے کہتا ہے‘ بھولے نے ہم سے یہ سوال کیا‘گویا جب ہم اپنی بات اپنے چاہنے والوں تک پہنچانے میں دقت محسوس کرتے تو بھولے کاسہارا لیتے ‘ ایک صاحب نے پوچھ لیا ”ثقلین رضا! یہ بھولا ہے کون؟ ظاہراً یہ بھولا ہے لیکن باتیں بڑی سیانوں والی کرتا ہے“ ہم نے جواب دیا کہ ”بابا اشفاق احمد اکثر بابوں کاذکر کیاکرتے تھے کسی نے پوچھ لیا کہ بابے ملتے کہاں پر ہیں تو انہوں نے جواب دیا یہ ہرانسان کے اندربستے ہیں ‘ بس جی یہ بھولا بھی ہمارے اندر بسنے والا ایک ”بابا “ ہی ہے‘ پھر اس شخص نے ہم سے سوال کیا کہ ”یہ بھولا ہے کتنی عمر کا “ ہم نے جواب دیا ”چونکہ ہمارا ہمزاد ہے اس لئے اس کی عمر بھی ہمارے جتنی ہے تاہم اس کی باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ ہم سے چار گنا زائدعمرکامالک ہے“
صاحبو! ماضی میں اکثر جب کبھی یاران محفل کے ساتھ بیٹھے ہوتے تو ایک سوا ل بڑے تواتر سے کیاجاتا ” مومن اورمسلمان میں آخرفرق کیا ہے “ ہم ایک عرصہ تک خیالوں کی گھمن گھیریوں میں گرتے سنبھلتے ‘غوطہ خوری کرتے رہے‘ ذہن جواب دے گیا‘ پھر ایک دن بابا اشفاق احمد کو ہی ”پڑھ “ رہے تھے کہ کئی سالوں تک ذہن کی گتھی کو قید رکھنے والا یہ معاملہ بھی حل ہوہی ہوگیا ۔

بابا جی کہتے ہیں کہ مجھ سے کسی نے پوچھا آخر مومن اورمسلمان میں فرق کیا ہے “ بڑا ہی عرصہ اس چکر میں رہا کہیں سے جواب نہ مل پایا۔بابا اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ایک دن میں نے یہی سوال ایک چرواہے سے پوچھ لیاتو وہ مسکراتے ہوئے بولا ” جو اللہ کو مانتاہے وہ مسلمان ہے اورجو اللہ کی مانتا ہے وہ مومن“اشفاق احمد عموماً مایوسی کے اندھیروں میں بھی امیدوں کے چراغ ڈھونڈنکالا کرتے تھے۔

عموماً خوشیاں تقسیم کرنے کی بات کرتے ‘ آسانیوں کی دعا بھی کرتے تو فرماتے کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا کرے اورآسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق دے۔ بات وہی کہ وہ چاہتے تھے کہ معاشرہ چین کی طرح جڑا رہا ‘ ایک فرد کی آسانی دوسرے کیلئے سکھ کا باعث بھی بن سکتی ہے‘ ایک شخص کسی دوسرے کو خوشی تقسیم کرے اوروہ شخص اس خوشی کا ایک حصہ تیسرے فرد میں تقسیم کردے تو پھر یہ گویا ایک ختم نہ ہونے والے سلسلے کی ابتداہوتی ہے۔

چلئے اشفاق احمد کی زبانی خوشی کے متلاشی لوگوں کیلئے تریاق کاکام کرنیوالی ایک بہت ہی خوبصورت سی بات سنتے ہیں۔ بابا جی کہتے ہیں کہ اگر آپ معمولی باتوں کی طرف دھیان دیں گے ، اگر آپ اپنی " کنکری " کو بہت دور تک جھیل میں پھینکیں گے، تو بہت بڑا دائرہ پیدا ہوگا ۔ لیکن آپ کی آرزو یہ ہے کہ آپ کو بنا بنایا بڑا دائرہ کہیں سے مل جائے ۔ اور وہ آپ کی زندگی میں داخل ہو جائے ۔

لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے ۔
قدرت کا ایک قانون ہے جب تک آپ چھوٹی چیزوں پر ، معمولی باتوں پر ، جو آپ کی توجہ میں کبھی نہیں آئیں، اپنے بچے پر ، اپنے بھانجے پر ، اور اپنے بھتیجے پر آپ جب تک اس کی چھوٹی سی حرکت پر خوش نہیں ہونگے تو آپ کو دنیا کی کوئی چیز یا دولت خوشی عطا نہیں کر سکے گی ۔ روپے ، پیسے سے آپ کوئی کیمرہ خرید لیں ، خواتین کپڑا خرید لیں اور وہ یہ چیزیں خریدتی چلی جاتی ہیں کہ یہ ہمیں خوشی عطا کریں گی ۔ لیکن جب وہ چیز گھر میں آ جاتی ہے تو اس کی قدر و قیمت گھٹنا شروع ہو جاتی ہے ۔
خوشی تو ایسی چڑیا ہے جو آپ کی کوشش کے بغیر آپ کے دامن پر اتر آتی ہے ۔ اس کے لیے آپ نے کوشش بھی نہیں کی ہوتی ۔ تیار بھی نہیں ہوئے ہوتے ، لیکن وہ آجاتی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :