تطہیر کی ضرورت ہے

ہفتہ 6 ستمبر 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

بات تو کہیں سے بھی شروع کی جا سکتی ہے۔ مسئلہ بات شروع کرنا نہیں بلکہ بات کا باعزت اختتام ہوتا ہے! بات شروع کر دی گئی، پھر بات بڑھنے لگی، بات سے بات نکلی اور دور تلک جا پہنچی، رجسٹر کھلتے گئے، کیچڑ اچھلنے لگا ، چہرے اور کپڑے لت پت ہوتے چلے گئے اور اب بات ہے کہ بنائے نہیں بنتی۔
تحریکِ انصاف کی سب سے بڑی غلطی اپنے سیاسی مخالفین کی قوت کا درست اندازہ لگانے میں مکمل ناکامی کے ساتھ ساتھ ااپنے اکابرین اور عوامی حمایت کا حد درجہ ناقص قیاس بھی ہے! 12 اگست کو انتخابی اصلاحات کے معاملے پر حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دینے والا لیڈر آج ایک کنٹینر کی چھت پر اتنا تنہا و اداس کیوں کھڑا ہے؟ بلاشبہ اس کی وجہ چیئر مین صاحب کی ناقص فیصلہ سازی اور حکمتِ عملی ہے۔

کسی بھی قسم کی تفتیش اور چھان بین کے بغیر وزیر اعظم پاکستان کے استعفی جیسے لایعنی مطالبے کا حصول محض اسی صورت ممکن ہے کہ موجودہ پارلیمان اور منتخب وزیرِ اعظم کو ماضی کی رو اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے اور نظام کا بوریا بستر گول کر دیا جائے۔

(جاری ہے)

شاید خواہش بھی یہی تھی جو بر نہ آ سکی۔ یقینا اُس صورت میں بھی تاریخ کے پنوں پر خان صاحب کا نام سنہری حروف میں ہر گز درج نہ ہوتا۔

قادری صاحب سے ہاتھ ملاتے وقت یہ ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ ان صاحب کی جد و جہد کسی بھی طرح سیاسی نہیں۔ یہ حضرت تو اول دن سے سب کچھ تہہ و بالا کر دینے کی نیت رکھتے ہیں۔ان کے ہمراہ سیاسی کارکن نہیں بلکہ ایک حکم پر مرنے مارنے پر تل جانے والا متشدد مریدینی گروہ ہے! پھر بھی ہاتھ ملا لیا گیا۔ کیوں؟
پاکستان تحریک انصاف پارلیمان پر چڑھ دوڑنے کے فیصلے کے بعد رونما ہوئے عوامی و سیاسی ردِ عمل و واقعات کے باعث جس انتشار کا شکار ہوئی ہے اس کی تمام تر ذمہ داری خان صاحب اور ان کے رتنوں پر عائد ہوتی ہے۔

اب اگر ان کا موقف ہے کہ غیر منطقی فیصلوں اور پر تشدد احکامات سے اختلاف رکھنے والے سیاسی عہدیداران اور کارکنان بھگوڑے اور فصلی بٹیرے ہیں تو اس ردِ عمل کو کس حد تک معقول جاننا چاہئیے اور جماعت کے دیگر ممبران پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ یہ صورتحال جماعت کی تطہیر نہیں بلکہ تنزلی کی طرف اشارہ کرتی ہے! تطہیر کی ضرورت جماعت سے زیادہ خان صاحب کی طرزِ سیاست اور معاملہ فہمی کو ہے!جماعت کی فیصلہ سازی کے عمل سے اختلاف اور منطق کو منہا کر دیا جائے تو جواب آئے گا مطلق العنانیت۔

نظریہ کے نام پر اپنی جیسی جذباتی سوچ اور سوال اٹھانے کی ہمت نہ کرنے والوں کا جتھہ اکھٹا کر بھی لیا جائے تو ناکامی اور تصادم کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اختلاف رائے جمہوریت کی بنیاد ہے ۔ اختلاف رائے کا مطلب نظریے اور مقصد سے انحراف نہیں بلکہ اسی نظریے او رمقصد کے حصول کے طریقہ کار سے متعلق حکمت عملی کا تقابلی جائزہ ہے!خان صاحب اپنی سیاسی تنہائی کے ذمہ دار بذات خود ہیں۔


آزادی مارچ میں اکثریتی عوام کی عدم دلچسپی و حمایت کی بنیادی وجہ تشدد ، غیر منطقی توجیہات،کچی لسی کی طرح بڑھے ہوئے ذاتی نوعیت کے مطالبے،الزامات، گالم گلوچ اور سیاسی بدمعاشی کا وہ ماحول ہے جو اسلام آباد میں خوب گرم کیا جاتا رہا ۔ یہ بات تو طے ہے کہ عوام نے آزادی اور انقلاب کے نام پر ریاست کے ساتھ کیے جانے والے زنا بالجبر کو یکسر مسترد کیا ہے۔

انتخابی اصلاحات کی حد تک پاکستان کا ہر شخص خان صاحب کے مطالبے کی تائید کرتا ہے لیکن غیر ضروری ضدعوام کے ذہنوں میں کسی بڑے ایجنڈے کی تکمیل بارے ابہام پیدا کرتی ہے۔ پاکستان سا ملک جہاں فوجی مداخلت کی طویل اور جامع تاریخ موجود ہے بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ تاریخ ہی فوج پر مشتمل ہے تو جاوید ہاشمی جیسے سنجیدہ اور تجربہ کار سیاست دان کی جانب سے تحریکِ انصاف پر لگائے گئے انتہائی سنجیدہ نوعیت کے الزامات اس ابہام کو یقین کی حد تک لے جا تے ہیں۔

اب شاید خان صاحب اس بات کو سمجھنے میں کامیاب ہوں کہ الزامات محض الزامات گردانے جانے چاہیئں تاوقتکہ ان الزامات کو عدالتی سطح پر ثابت نہ کر دیا جائے۔خان صاحب کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی شفاف عدالتی تحقیقات کی سہولت بہرحال میسر ہے لیکن ہاشمی صاحب کے الزامات کا فیصلہ فی الوقت پاکستان کی کوئی عدالت نہیں کر سکتی۔ان الزامات کا فیصلہ ہمیشہ کی طرح تاریخ کرے گی جو سفاک ترین منصف ہے۔


فیس سیونگ کا وقت گزر چکا! تحریکِ انصاف کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات نے مثبت و منفی دونوں قسم کے ردِ عمل پیدا کئے اور چند عوامل پر سے پردہ چاک کیا! سیاسی حریف متحد ہوئے، پرتشدد سیاست کو رد کیا گیا، ریاست کے خلاف بغاوت کو مسترد کیا گیا، پارلیمان کی قوت کا اظہار دیکھنے میں آیا، تحریکِ انصاف بحیثیت سیاسی جماعت انتشار کا شکار ہوئی، حکومت کی سنجیدہ معاملات میں عدم دلچسپی عیاں ہوئی، وزراء کو اپنے رویوں اور گریبانوں میں بدبو کے بھبکے محسوس کرنے پر مجبور کر دیا گیا، افواج اور پولیس کے مابین عوام کی محبت اور نفرت کا فرق واضح دکھائی دیا گیا، چند ہزار کے جتھوں کے سامنے ریاستی مشنری بے بس نظر آئی، پولیس کو متشدد ہجوم کے خلاف ہاتھ باندھ کر کھڑا کرنا سمجھ سے بالاتر عمل تھا۔

پولیس مار کر گندی اور مر کر پلید جبکہ ریاست کی رٹ پر چڑھ دوڑنے والے افراد کے خلاف آرٹیکل 245 کے تحت تائینات فوج کی خموشی پر کیا بات کی جا سکتی ہے؟یہ تو سمجھنے کی بات ہے جسے سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں!
عملی طور پر عوام کی عدم توجہی کے باعث غبارے میں کبھی اتنی ہوا بھری ہی نہیں جا سکی کہ وہ بہت اونچا اڑتا۔ جتنا اڑ سکتا تھا اس سے کہیں زیادہ زبردستی کی پھونکیں مار مار کر اڑا لیا گیا کہ اب تو پھونک مارنے والوں کی سانس بھی پھول چکی ہے!!! تحریکِ انصاف کے لئے مناسب یہی ہے کہ انقلاب ضرور لائے! مگر درست جگہ خیبر پختونخوا اور طریقہ کار ہے کارکردگی ۔

ماردھاڑ سے بھرپور یہ طرزِ سیاست فہم رکھنے والے ووٹروں کو محض تحریکِ انصاف سے دور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ سوچئے کہ سوچنے پر کوئی پابندی نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :