خدا کی رحمت

ہفتہ 6 ستمبر 2014

Watson Saleem Gill

واٹسن سلیم گل

ابھی صرف ایک دن کی بارش نے پنجاب میں اتنی تباہی مچائی ہے کہ ابھی تک 59 معصوم جانیں چلی گئیں جبکہ آزاد کشمیر میں 35 لوگ جاں بحق ہوئے۔ یہ جانی نقصان صرف بارش سے ہوا ہے ابھی سیلاب کی آمد اور اس کی تباہی کیا گُل کھلائے گی یہ چند روز میں معلوم ہو گا۔ پاکستان میں بارشوں سے دریاؤں میں پانی کی سطح پہلے ہی سے خطرناک حد تک بلند ہے۔ جہلم میں رسول اور منگلا کے مقامات ، دریائے راوی میں بلوکی، دریائے چناب میں قادرآباد میں نہایت اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ بھارت نے بھی اکھنور سے سیلابی پانی پاکستان میں چھوڑ دیا ہے جس سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔

اور کروڑوں کیوسک قیمتی پانی زائع ہو کر سمندر برُد ہو جائے گا۔ اور ہم جو مہینہ بھر اس پانی میں ڈوبے رہیں گے۔ بعد میں اسی پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہونگے۔

(جاری ہے)


جہاں پاکستان کو خدا تعالی نے لاکھوں برکتیں معدنیات ،موسم، پہاڑ اور سمندر کی صورت میں عطا کی ہیں ،وہاں ضرورت کے مطابق بارش بھی پاکستان کے حصے میں آئی ہے ۔ پاکستان کے حکمران اس بارش کے صحیح استعمال کا تعین کر لیں تو خدا کی قسم پاکستان دُنیا میں ایک مضبوط ملک کی صورت میں نظر آیئے۔

ہماری زمین زرخیز ہے ہمیں اناج، فروٹ اور پینے کے پانی کی قطعی کمی نہیں۔ مگر آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ ہم خدا کے طرف سے دیئے جانے والے اس عظیم تحفے کا 75 فیصد حصہ ضائع کر دیتے ہیں۔ اگر ہماری حکومت اس بارش کے پانی کا صحیح استعمال کریں تو نہ صرف ہمارے پاس پینے کا پانی ہماری ضرورت کے مطابق موجود ہے بلکہ یہ پانی تھر کی بنجر زمین کو زرخیز اور ہماری بجلی کی ضروریات کے لئے کافی ہے۔


مون سون کی بارشوں اور ان سے ہونے والی تباہی کا سامنا ہمیں بہت پہلے سے ہے۔ 2010 میں آنے والے سیلاب کی تباہی کی خوفناک تصویر ابھی تک دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہے۔ اس سیلاب میں جو کہ پاکستان کی تاریخ کا خوفناک ترین سیلاب تھا ،جس میں ہماری زمینی رقبے میں سے 095،796 مربع کلومیٹر رقبہ زیر آب تھا۔ اربوں ڈالر کی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ ہزاروں لوگ جاں بحق ہوئے اور لاکھوں بے گھر ہو گئے۔

اس سیلاب سے 20 ملین لوگ براہ راست متاثر ہوئے۔ مگر اس کے بعد ہم سب کچھ بھول گئے اور آنے والے نئے سیلاب کی تباہی کا انتظار کرتے ہیں۔ اس کی روک تھام کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی اور یہ رحمت ہمارے لئے زحمت بن جاتی ہے۔
تھوڑی سی منصوبہ بندی سے ہم خدا کے اس قیمتی تحفہ کو صحیح استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنے دریاؤں کی صفائی کا پانچ سالہ منصوبہ تیار کریں تو اس کے بہت سے فوائد ہونگے ۔

غور کریں کہ یہ موُن سُون ہوائیں جب بادلوں کو ہمارے اونچے پہاڑوں پر ٹپکتی ہیں تو یہ بارش کی چھوٹی چھوٹی بوندیں نالیوں کی صورت میں پہاڑوں سے نیچے گرتی ہیں اور نیچے پہنچنے تک یہ بڑے نالوں ،آبشاروں کی صورت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کچھ نالے جمع ہو کہ ان پہاڑوں کے دامن میں جگہ بناتے ہیں جن کو ہم جھیل کہتے ہیں اور کچھ دریاؤں کی صورت میں ڈھلانوں کی جانب بہتے ہیں۔

اور پھر یہ دریا وادیوں، گاؤں اور شہروں کو سیراب کرتے ہوئے سمندر میں سما جاتے ہیں۔ مگر دوران سفر یہ اپنے ساتھ کئی قسم کے خزانے بھی بہا لاتے ہیں۔ کئی کلومیٹر اونچے پہاڑوں سے نیچے بہتے وقت یہ اپنے ساتھ جنگلوں اور میدانوں سے اپنے ساتھ درخت، ریت، مٹی، سونے کے زرات اور کئی معدنیات اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔ اتنی زیادہ ریت اور مٹی سے ہمارے دریا بھر جاتے ہیں اور پانی کنارے کاٹ کر شگاف کی صورت میں گاؤں اور دیہاتوں میں تباہی مچاتے ہیں۔

دریاؤں کے کناروں کے کٹنے سے مٹی مزید دریاؤں میں بھر جاتی ہے۔ پانی کناروں کے اوپر بہتا ہے۔ اور بارش کی وجہ سے جمع ہونے والا پانی بھی نالوں میں پہلے سے بھرے پانی کی وجہ سے نکاسی آب کے کے انتظام کو متاثر کرتا ہے ۔ جس کی وجہ سے رہائشی علاقوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے۔ ہم دیکھیں کہ تھوڑی سی توجہ سے کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اگر صرف دریاؤں کی صفائی پر توجہ دی جائے اور ان کے کناروں پر درخت لگا دیے جاہیں تو کروڑوں نہیں اربوں ڈالر بچا سکتے ہیں۔

درخت لگانے سے دریا کے کنارے مضبوط ہوتے ہیں اور کٹاؤ کو روکتے ہیں۔ ماحول میں آلودگی میں کمی کا باعث بنیں گے۔ اور ہزاروں کلومیٹر طویل دریاؤں کے کنارے لگائے جانے والے درختوں سے کروڑوں کی لکڑی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ درخت ناریل اور کھجور کے ہوں تو کروڑوں کا زرمبادلہ الگ ۔۔۔۔۔۔ ۔ اگر دریاؤں کی صفائی شروع کی جائے تو کم از کم پچیس سے تیس ہزار کے لگ بھگ روزگار نکلیں گے۔

صفائی کے دوران پہاڑوں سے بہہ کر آنے والے درختوں ، ریت، مٹی سے بھی کروڑوں کمائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریاؤں میں پانی کی گنجائش بڑھے گی۔ پانی زیادہ ہوگا تو ڈیم بھی بن سکتے ہیں اور ڈیم بنے گے تو بجلی بھی سستی اور زیادہ بن سکتی ہے۔ بجلی ہو گی تو صنعت کا پیسہ بھی چلے ، صنعت چلے گی تو خوشحالی۔۔۔۔۔ ۔اس کے علاوہ شمالی علاقوں میں سینکڑوں خاندان ان ہی دریاؤں سے سونے کے زرات تلاش کر کے گزارا کرتے ہیں۔

جو اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان سے متعلقہ پہاڑوں میں سونے کہ ذخائر موجود ہیں۔ اگر حکومت اس طرف سنجیدگی سے اس جانب توجہ دے تو نہ صرف ہم ہزاروں جانیں اور لاکھوں املاک کو بچا سکتے ہیں ،بلکہ چاول، گندم، کپاس، گنا اور دوسری زراعت کو بچا کر اپنے ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :