جملوں کے بارود

ہفتہ 6 ستمبر 2014

Shabbir Rakhshani

شبیر رخشانی

آجکل آپ فیس بک پر اپنا اکاوٴنٹ کھولیں تو سیاست کے بے تحاشا موضوعات آپکو دیکھنے کو ملیں گے۔ اور پاکستان میں جو موجودہ سیاسی صورتحال بن چکا ہے عام سے لیکر خاص تک سب کا موضوع یہی ہے۔ کہ عمران خان اور نواز شریف۔ قادری صاحب کا نام تو بہت کم آتا ہے۔ تصویر اگر کوئی شیئر کیا جاتا ہے تو بھی اس پر ضرور کوئی سیاسی موضوع لکھا نظر آتا ہے بس یوں سمجھئے کہ ہم سب نے سیاست کے مضمون میں PHDکیا ہے اور تمام لوگ ایک سیٹ پر بیٹھ کر اس عنوان کو چھیڑنا ضروری سمجھتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہیکہ آپ پاکستانی سیاست پر PHDبھی کریں تو بھی پاکستانی سیاست پر عبور حاصل کرنا آپکے بس کی بات نہیں اور لیجئے میں موجودہ پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال پر ایک تجزیاتی کالم لکھ رہا تھا جیسے میرا عنوان اپنے آدھے سفر کا مسافت طے کر چکا تھا کہ مجھے ایک دوست نے پاکستانی سیاستدانوں کے نئے داوٴ پیچ سے آگاہ کیا جس سے میرا کالم ہی ادھورا رہ گیا اور آگے لکھنا مناسب ہی نہیں سمجھا کہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچاوٴں۔

(جاری ہے)

خیر بات ہو رہی تھی ہمارے فیس بک کے نومولود سیاستدانوں کا۔ جیسے ہی آپ اپنا فیس بک اکاوٴنٹ کھولتے ہیں تو سامنے تصویروں کی صورت میں دوستوں کے شیئر کئے گئے تصاویر نظر آتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بے ہودہ قسم کے تصاویر۔ جن پر بحث کرنا فضول ہے۔ یعنی آپ نے اپنا قیمتی وقت اسی فضول بحث میں گزارنی ہے۔ ایک دوست نے ایک تصویر کسی دوسرے پارٹی سے تعلق رکھنے والے دوست کو پوسٹ کو ٹیگ کیا تو وہ تصویر دوسرے دوست کو ناگوار گزری۔

پھر بس وہی commentsپہ commentsکا سلسلہ شروع ہوا حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بحث و تقرار گالم گلوچ تک آپہنچا۔ میں بھی بیچ بچاوٴ کرنے کے لئے میدان میں کھود پڑا۔ تو ایک دوست نے مجھ پر commentsکا ایک ایسا بارود پھینکا کہ میں کہیں دور جا گرا اور یہ دوست اپنے جملوں کی تکرار میں مصروف رہے اور بعد میں یہ خبر بھی آئی کہ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف دھمکی آمیز پیغامات بھی ارسال کئے ۔

بس بھئی بڑی مشکل سے دونوں کے درمیان صلح کرایا انہیں سمجھایاکہ ایسی صورتحال موجود نہیں آپ دونوں کو صبر و تحمل اور اپنے الفاظ کا استعمال درست طریقے سے کرنا چاہئے کیونکہ فیس بک پر موجود آپکا ہر دوست آپکے خیالات سے آگاہ ہوتا رہتا ہے۔ جس کے لئے آپ لوگوں کی شخصیت پر بھی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ یہاں پر یہ بات عیاں ہے کہ ہم میں سیاسی نابلدی ہے لیکن پھر بھی سیاست کے میدان کو تنہا اکیلے نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ سیاست کا میدان ہمارے بغیر ادھورا ہے۔

حال ہی میں ایک دوست نے اپنے وال پر یہ الفاظ تحریر کئے تھے کہ عمران اور قادری کو گولی مار دینی چاہئے۔ اس پر بھی جملوں کا ایسا نہ ختم ہونے والا تبادلہ شروع ہو گیا۔ کہ بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا۔ نہ جانے کس کو عقل آگئی کہ جناب اس کمنٹس کو ہی اپنے وال سے ڈیلیٹ کرنا تاکہ اس نہ ختم ہونے والے بحث و مباحثے سے جان چوٹ جائے۔ خیر یہ کہنے والے الفاظ تو نہیں تھے کہ آپ کے جی میں جو آجائے بس آپ اسکا اظہار کردو۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمارے یہی لکھے گئے الفاظ ہماری شخصیت کے ضامن ہیں۔ ہم ان گندے جملوں کے استعمال کے بجائے اپنے درست خیالات کا اظہار کرکے اپنے سوشل میڈیا کی سوسائٹی میں ایک مثبت تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ ہماری موجودہ سوسائٹی سوشل میڈیا ہی بن گئی ہے جس سے ہم سیکھنے کے مراحل میں ہیں اور بہت سی اہم چیزیں سیکھ بھی رہے ہیں اور بہت سی چیزیں ہم اپنے ماحول کو مہیا کر رہے ہیں۔

یعنی اس سوسائٹی کے استاد بھی ہم ہیں اور شاگرد بھی ہم ہیں تو بھلا اس کی حقیقت کو جانتے ہوئے بھی اسکے درست استعمال سے غافل کیوں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ہماری اداروں کی بڑی ناکامیاں ہیں کہ آپ نے لوگوں کو ایک سہولت تو فراہم کی ہے لیکن اسکے اچھے اور برے اثرات سے لوگوں کو کیوں روشناس نہیں کرایا ہے۔ تاکہ وہ جان لیتے کہ اگر ہم اس کو اس مقصد کے لئے استعمال کریں گے تو اس میں یہ فائدے ہیں اور یہ نقصانات بھی ہیں۔


درحقیقت ہمارے نوجوانوں کے خون گرام ہیں ۔ ہم میں برداشت کا مادہ ختم ہو گیا ہے۔ ہم الفاظ کا درست استعمال نہیں کر پاتے جی میں جو کچھ بھی آجائے ہم کر لیتے ہیں پھر اس پر خوب لطف اٹھاتے ہیں کہ اس پر کتنے کمنٹس پوسٹ ہوئے کس کس نے لائک کئے۔ لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اس تصویر کی وجہ سے ہم لوگوں کو کتنا اشتعال دلاتے ہیں ۔ ہر سیاسی جماعت کا سپورٹر اپنے قائد کے خلاف ایک لفظ سننا بھی پسند نہیں کرتا اور آپ کھلم کھلا اسے چیلنج کے طور پر نازیبا الفاظ سے نواز رہے ہو اور جواب میں اسکا سپورٹر اسے ماں بہنوں کی گالی دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم مثبت سرگرمیاں کرکے ہی مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ اگر دیکھیں کوئی غلط قسم کی تحریر یا تصویر پوسٹ کر رہا ہے تو ہم اسے کہیں کہ آپ غلط کر رہے ہو۔ تاکہ اسے بھی اپنی غلطی کا احساس ہو جائے۔ آج ہم جن لوگوں کے خلاف غلط الفاظ کی بوچھاڑ کرتے ہیں ہو سکتا ہے ہم میں سے کل ایک اہم پوزیشن پر پہنچ جائے اور یہی عمل اسکے ساتھ ہو رہا ہو تو تب کتنا دکھ ہو گا کہ یہی عمل ہم اپنے جوانی کے دور میں دوسروں کے ساتھ کیا کرتے تھے آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ سوشل میڈیا کے ساتھ وابسطہ ہو کر ہمیں اپنے الفاظ اور جذبات کا مظاہرہ بہتر انداز میں کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ مثبت تبدیلی لانے میں ہم سب کا کردار شامل ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :