حقیقی تبدیلی مگر کیسے؟

ہفتہ 6 ستمبر 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

اسلام آباد پر ہونے والی یلغار کی بنیاد سانحہ ماڈل ٹاون میں حکومتی ناانصافی اور عوام کے مسائل کو نظر انداز کرنا بنی اس کے ساتھ ہی ہمارا نظام حکومت نہ ہی ہی عوام کو کچھ ڈلیور کر پارہا ہے اور نہ ہی ہم بین الاقوامی سطح پر کوئی اچھی شہرت حاصل کر پائے ہمارے ملک میں جو کچھ ہوتا ہے ہو رہا ہے چھوٹے سے چھوٹے واقعے کی پل بھر میں خبر دنیا بھر میں پہنچ جاتی ہے ہم یہاں بیٹھے محسوس کرتے ہیں کہ دنیا ہم سے بے خبر ہے جبکہ ایسا نہیں ہے آج کے دور میں کسی واقعے کو چپھپانا یا یہ کہنا کہ یہ ہمارا مسلہ ہے دنیا کو اس سے کیا، احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔

ہمارئے سیاسی مکمل طور پر ناکارہ ہو چکا ہے جمہوریت کی بات کی جاتی ہے جبکہ ہماری سیاسی اشرافیہ کے روئے ہمیشہ سے غیر جمہوری رہے ہیں سیاست کو یہاں ”پیشہ“ کہا جاتا ہے کیونکہ کسی سیاستدان کو عوام کی خدمت کرتے کبھی نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی ایسی کوئی مثال سامنے آئی ہے جس پر پاکستانی قوم کو فخر ہو۔

(جاری ہے)

جس پارلیمنٹری نظام کو لے کر ہم چل رہے ہیں یہ ہمیں پاکستان بننے کے ساتھ ہی ورثے میں ملا تھا یہ ایک ایسا نطام ہے جو برطانیہ میں تو بڑی کامیابی سے چل رہا ہے جنہوں نے یہ نظام ہمیں دیا ان کے خیال میں ہم بھی ا س ں طام کے فیوج برکات سے مستفید ہوں گے لیکن کتنا مستفید ہو سکے ہیں ملک کی موجودہ حالت بتا رہی ہے برطانیہ میں اگر یہ نظام کامیاب ہے تو اس کی بنیادی وجہ وہاں برادری ازم ،قومیت ، فرقہ بندی یا وڈیرہ ازم کی بنیاد پر ووٹ نہیں ڈالے جاتے ، وہاں وارڈ لیول سے لیکر مرکزی سطع تک سیاسی جماعتیں انتہائی منظم انداز میں کام کرتی ہیں جس منشور کا اعلان کیا جاتا ہے ووٹر اس پر سوال جواب کرے ہیں جبکہ وہاں شرح خوندگی سو فیصد بتائی جاتی ہے جبکہ پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے 25,30 فیصد سے اوپر ہی نہیں جا پارہا اور جس شرح خواندگی کی بات کی جاتی ہے اس میں بھی انسانی شعور کی بلندی کہیں نظر نہیںآ تی اور یہاں حق رائے دہی کی بنیاد ،نسلی ،لسانی ،فرقہ وارنہ تقسیم، ذات برادری،قومیت یا وڈیرہ شاہی کی دھونس دھاندلی پر ہے، سیاسی جماعتوں کی کوئی موثر تنظیم سازی نظر نہیں آتی ملک اور عوام کے بنیادی مسائل کیا ہیں ان کے حل کی کوئی بات ان کے منشور میں نظر نہیںآ تی، پاکستان میں کوئی ووٹر اپنے منتخب نمائندے سے یہ سوال نہیں پوچھ سکتا کہ وہ اس نے جو وعدے کئے ہیں پورے کیوں نہیں کئے جمہوریت بنا جمہور کے کیسے چل سکتی ہے ایک وقت تھا کہ پاکستان کے لبرل و دائیں بازو کے دانشور اور عوام مورثی جمہوریت کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے مگر آج جب پی ٹی آئی اور پاکستا ن عوامی تحریک عوام کی آواز بن کر باہر نکلے ہیں تو ان کے خلاف ساری جماعتیں تو متحد ہوئی ہیں لبرل و دائیں بازو کے دانشور بھی کوئی اچھی روائت قائم نہیں کر پا رہے آج جب یہ موقع آیا ہے کے قائد کے تصور پاکستان کے مطابق جس کا اظہار انہوں نے اپنی 1947 کی تقریر میں کرتے ہوے کہا تھا کہ پاکستان ایک اسی ویلفئیر ریاست ہو گی جس میں سب کے مساوی درجہ اور پاکستا کا ہر شہری مساوی حقوق کا حق دار ہو گا ۔

ملک کی موجودہ صورت حال اس بات کا تقاضا کر رہی ہے اور اس بات کی ضرورت سے انکار نہیں بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اب پاکستان کے نظام حکومت کی تشکیل نو کی جائے اور قائد کی وژن کے مطابق23 مارچ 1940کی قرار داد لاہور میں تحریر کردہ اقلیتوں کے حقوق کو بھی شامل کیا جائے اور 11 اگست 1947 کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے قائد اعظم محمد علی جناح کے تحریری خطاب کو اس آئین کا حصہ بنایا جائے تو اس کے بعد ہی قیام پاکستان کے ان مقاصد کے حصول کی طرف سفر شروع کیا جا سکتا ہے جن کی خاطر یہ ملک وجود میں آیا تھا۔


اس وقت سٹیٹس کو کی ساری قوتیں آنے والی تبدیلی کے خلاف متحد ہو کر سرمایہ دارنہ جمہورئت کے تحفظ کر رہی ہیں جس کا مظاہرہ پارلیمنٹ کے مشرکہ اجلاس میں ہو رہا ہے جس جمہوریت کے یہ پروردہ ہیں وہاں وزیر اعظم پاکستان اپنے مخالفین کی تقریر سننا بھی گوارہ نہیں کرتے اور ہاوس سے باہر چلے جاتے ہیں کیا اسے جمہوریت کہا جاسکتا ہے؟
آج 68 برسوں بعد بھی عام آدمی کی حالت بہتر سے بد ترہو چکی ہے اگر اسی طرح کی جمہوریت چلتی رہی جس میں صرف مفاد پرست ہی اقتدار میںآ تے رہے تو کئی سال اور بھی گزر جائیں تو مسئلہ وہیں کا وہیں کھڑا رہے گا اور اس دوران عوام کے مسائل ان کی جہالت، غربت، بیروزگاری اور خود کشیوں میں اضافہ ہوتا رہے گا، موجودہ سسٹم عوام کے مسائل حل کرنے میں بلکل ناکام ہو چکا ہے یہاں کے معروضی حالت بھی اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ یہاں کا نظام پارلیمنٹری سسٹم کی بجائے صدراتی نظام کی طرز پر ہو تو وہ زیادہ کامیاب ہو سکتا ہیصدارتی نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ صدارتی امیدوار نے ملک بھر سے ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔

اس سے برادری ازم وڈیرہ شاہی سرداری نظام اور پیروں اور مذہبی اجارہ داروں کا کا اثر و رسوخ بھی کم کیا جا سکتا ہے صادرتی نظام میں سیاسی پارٹیوں کی بلیک میلنگ سے بھی نجات مل جاتی ہے اس جانب توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں صرف انہی سیاسی جماعتوں کو حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہئے جن میں وارڈ کی سطح سے لیکر مرکزی سطح تک انتخابات ہو چکے ہوں یہی کیمٹیاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار کا چناو کر کے آگے بھیجیں۔


تبدیلی لانے کے لئے سوچ اور ذہن کو تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہے آمرانہ سوچ سے کبھی کوئی انقلاب نہیں آتا اور نہ ہی کسی تبدیلی کا ظہور ہوتا ہے اب جبکہ قوم میں اس بات کا شعور اجاگر ہو چکا ہے تو سب کو مل کر اس وقت سے فائدہ اٹھانا چاہے تاکہ حقیقی تبدیلی سے عوام اور پاکستان کی حالت بہتر ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :