باغی کا سچ اور انقلاب سے کارکنوں کی رہائی تک ؟

ہفتہ 6 ستمبر 2014

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

جاوید ہاشمی کو الله نے صلاحیتوں سے خوب نوازا ہے۔ان کی تربیت، ان کی طبیعت ،جھوٹ اور غلط بات سننے کے لئے تیار نہیں۔ان کی مثبت سوچ کو داد دینا پڑے گی۔غلط بات پر وہ خاموش رہنے کی بجائے سینہ تان کر میدان میں آجاتے ہیں۔پاکستان سے محبت، جمہوری قدروں سے پیار اپنے عمل سے ثابت کیا ہے۔جھوٹ اور فریب کے اس معاشرے نے کئی دفعہ انہیں باغی ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔

12اگست کو تحریک انصاف کے صدر کی حیثیت سے اپنے چیئرمین عمران خان کی طرف سے ٹیکنوکریٹ کی حکومت کے مطالبے اور میاں نوازشریف کو فوری مستعفی ہونے کے مطالبے کے بعد بھریا میلہ چھوڑ کر ملتان چلے گئے تھے۔ پھر عمران کی نامزد ٹیم کی منت سماجت اور ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کے مطالبے سے دستبرداری کے بعد آزادی مارچ میں دوبارہ شامل ہو گئے تھے۔

(جاری ہے)

آج کے کالم میں آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے20روز سے جاری تماشے کے خدوخال اور پل پل بدلتی ہوئی صورت حال اور صبح ،دوپہر ،شام بدلتے مطالبات یہ بات کرنے کو دل کررہا تھا۔

بدھ کی رات علامہ طاہر القادری صاحب کی طرف سے انقلاب مارچ کے شرکاء سے رات گئے خطاب میں شیخ رشید کی درخواست پر کارکنان کو پارلیمنٹ کے احاطے سے کارکنان کو چلے جانے کے اعلان اور حکومت کو 30ہزار کارکنان کورہا کرنے کی شرط پر انقلاب مارچ اور دھرنے کے ختم کرنے کی مشروط پیش کش کے بعد میں سکتے میں آ گیاایسا بھی ہو سکتا ہے؟ میڈیا میں عام چرچا ہے۔


آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کا سکرپٹ لکھنے والا ایک ہے، مگر عمران خان اور علامہ طاہر القادری کی علیحدہ علیحدہ اڑان تمام خدشات کو بے بنیاد قرار دے رہی تھی۔ٹیکنو کریٹ کی قومی حکومت کے قیام میاں برادران کے استعفیٰ کے مطالبے الیکشن کمیشن کی نئے سرے سے تشکیل میاں نوازشریف، میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے لئے دباؤ غریبوں کے حقوق کی جنگ اور مڈٹرم الیکشن کے مطالبے سمیت پندرہ کے قریب دیگر مطالبات بار بار دہرائے جا رہے تھے۔

علامہ طاہر القادری کی طرف سے آئین پاکستان کو مذاق قرار دینے ،الیکشن کمیشن کو فراڈ اور دھوکہ قرار دینے سمیت انقلاب اور بس انقلاب کا نعرہ گونجتا آ رہا ہے۔آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے اسٹیج علیحدہ علیحدہ مطالبات علیحدہ علیحدہ نظریات کے باوجود قوم نے دیکھا سپیکر خراب ہونے کو بنیاد بنا کر علامہ طاہر القادری اپنا اسٹیج چھوڑ کر کس طرح آزادی مارچ کے اسٹیج پر پہنچے اور قوم نے طاہر ،عمران بھائی بھائی کا نعرہ بھی سنا اور ہاتھوں میں ہاتھ بھی دیکھے۔

کسی تجزیہ نگار نے عمران خان کی سیاسی خودکشی قرار دیا، کسی نے کچھ لکھا کسی نے کچھ لکھا۔مگر کشتی جب بھنور میں پھنسی ہوئی تھی تو حق سچ کے علمبردار جاوید ہاشمی نے سچ بول کر جھوٹ اور منافقت کی سیاست کی پیٹھ میں کیل ٹھونک دیا ہے۔
جناب جاوید ہاشمی کے کردار کو ان کے بروقت بولے گئے سچ نے اور جناب شاہ محمود قریشی کے کردار کو ان کے چھوٹے بھائی مرید حسین قریشی کے سچ نے جس انداز میں قوم کے سامنے شیشے کی طرح رکھ دیا ہے اس سے سکرپٹ لکھنے والوں کو بھی کان ہو گئے ہیں اور جناب عمران اور طاہر القادری کی سیاست کی پردہ داری کا پردہ چاک ہو گیا ہے۔

اندر سے حکومتیں بنانے اور گرانے کے اگر کوئی کردار موجود ہیں تو ان سے بھی سبق مل گیا ہے۔سچ کے ہوتے ہوئے جھوٹ کی دال نہیں گل سکتی۔اس وقت جب ملک بھر میں سیاہ بادل کھل کر برس رہے ہیں۔چاروں اطراف سیلاب کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔ان حالات میں بارش نے اسلام آباد کی ہواؤں سے پل پل پنترے بدلتی سیاست کو بھی شفاف بنانا شروع کر دیا ہے۔جناب طاہر القادری کے اس مطالبے نے تو مجھ سمیت صحافت کے تمام طالب علموں کو چوکنا کر دیا ہے۔

30ہزار کارکنان کو اگر رہا کر دیا جائے تو دھرنا ختم کیا جا سکتا ہے۔انقلاب، کفن، قبریں نعرے اب بھاگتے چور کی لنگوٹی پر ختم ہو رہے ہیں۔اس سیاست اور انقلاب کو کیا کہا جائے نیک نیتی یا ہماری قوم کی بدقسمتی بات دوسری طرف چلی گئی۔باغی کے سچ کی ستائش اور ان کی کہی ہوئی باتوں کی طرف توجہ دینے اور تہہ تک جانے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے کہنے پر ملک بھر کے ایم این اے ، ایم پی اے تو ابھی تک اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہوئے، مگر باغی پارلیمنٹ میں طبل بجا کر نہ صرف مستعفی ہو چکے ہیں، بلکہ فرما رہے ہیں۔

عمران خان کو کٹہرے میں نہیں پارلیمنٹ کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔جاوید ہاشمی فرماتے ہیں عمران خان ہم سے کہتے تھے کہ ”وہ“ کہتے ہیں آپ کے آدمی توقع کے مطابق نہیں آئے۔آپ کی کمٹمنٹ سے تو دسواں حصہ لوگ بھی نہیں آئے تو اب کیا کریں میں سنتا رہا ہوں کہ طاہر القادری ابھی تک حملہ نہیں کررہا تم دونوں فیل ہو گئے ہو وہ اسمبلی پرحملہ بھی نہیں کر پا رہا اس کی مدد بھی کی ہے روزانہ رات کو ہم سے پوچھا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے آپ کے کتنے بندے آئے ہیں۔

پوچھنے والے کون ہیں؟ کون ہمارے بندوں کی تعداد ہمیں بتاتا ہے؟اس کا جواب عمران خان ہی دے سکتے ہیں، اگر یہ الزامات ہیں تو ان کی تحقیقات اور بھی ضروری ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔اگر باغی کے الزامات حقائق پر مبنی ہیں تو یہ مقتدر حلقوں سمیت پوری پاکستانی قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
روزنامہ ”ڈان“ کے تاریخی ادرایہ کے حوالے سے بات کرنا ضروری ہے ۔

پاک فوج جو اس وقت مشکل ترین آپریشن کررہی ہے اس کی پشت پناہی اور آئی ڈی پیز کی امداد کی ضرورت ہے نہ کہ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی سازش کا حصہ بننے کی ، ان حالات میں اے این پی کے سینیٹر زاہد علی خان کی تجویز اور مطالبہ بڑاصائب معلوم ہوا ہے۔پاک فوج اپنا نام استعمال کرنے والوں کو شٹ اَپ کال دے۔جمہوری دور میں پارلیمنٹ کے منتخب کردہ وزیراعظم سے استعفی پارلیمنٹ کی توہین ہوگی ان حالات میں جب ہماری فوج سرحدوں کے ساتھ ساتھ اندرونی خلفشار ختم کرانے میں مصروف ہے۔

فوج کو اپنے اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کے لئے نام لینا کسی انداز میں بھی درست نہیں ہے۔
آخر میں انقلاب اور آزادی مارچ والوں سے درخواست کرنی ہے ایک ہزار ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ملکی معیشت روز بروز تباہی کی طرف جا رہی ہے ،ملکی سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ان حالات میں امن اور باہمی محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ خدارا پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے تمام مسائل سڑکوں کی بجائے پارلیمنٹ میں حل کرنے کی روایت کو آگے بڑھائیں ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :