پارلیمنٹ کا اجلاس اور سیاستدا نوں کی نفرت انگیز تقاریر

جمعرات 4 ستمبر 2014

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

سونامی اور انقلابی کی جانب سے ملک میں پھیلائی جانے والی انار کی ،بدامنی اور لاقانونیّت کے سد باب کے لئے بلایا جانے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں مولانا فضل الرحمن ،محمود خان اچکزئی،چوہدری اعتزاز حسن ،جاوید ہاشمی اور دیگر نے پاک فوج کے خلاف جس طرح کی شرانگیز اور نفرت پر مبنی تقاریر کیں ہیں اس کو دیکھ کراور سن کر لگتا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کم ہونے کی بجائے اور سنگین ہو گا مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے ریاست بچانے کے لئے کوئی تجویز دی نہ عوامی مفادات کے تحفظ کی خاطر کوئی مشورہ دیا اور نہ ہی مسائل اور مشکلات میں گھری ہوئی پاکستانی قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لئے کوئی جامع پروگرام پیش کیا اور نہ ہی حکومت کے کسی اقدام کی تعریف کی جو نواز شریف حکومت نے پچھلے چودہ ماہ میں ملک و قوم کی بہتری اور خوشحالی کے لئے کئے ہیں البتہ ان علاقائی اور مذہبی نمائندوں نے اپنی سیاست کو بچانے اور افواج پاکستان کو عوام سے ٹکرانے کی بھر پور سعی کی ہے ان کی تقاریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ جمہوریت کے نام پر جمہوریت کا قتل عام چاہتے ہیں تبھی تو یہ لوگ ایسی شر انگیز اور نفرت سے بھرے خطاب کرتے ہیں کیا قوم کو معلوم نہیں کہ مولانا فضل الرحمن ،محمود خان اچکزئی اور ان جیسے دوسرے سیاستدانوں کا فلسفہ جمہوریت اور نظریہ سیاست کیا ہے ان لوگوں کے نزدیک ذاتی مفادات کا حصول ،عوامی دولت کی لوٹ مار،ہر دور میں نمائندگی اورہر حکومت میں حصہ داری ہی جمہوریت ہے خواہ وہ دور اقتدار جنرل ضیاء الحق کے اسلامی ماشل لاء کا ہو یا روشن خیال پرویز مشرف کا وہ دور شہید بینظیر بھٹو صاحبہ کی جاگیردارانہ جمہوریت کا ہو یا جناب آصف علی زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی کی لو ٹ کھسوٹ کا یا پھر میاں نواز شریف کی حکومت کا یہ سیاستدان ہر دور میں بر سر اقتدار پارٹی کی چاپلوسی کرکے اقتدار میں شریک رہے یہ لوگ کس جمہوریت اور کون سی جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں اس جمہوری نظام کا جس میں غریبوں کا استحصال ہو عوام کے حقوق پامال ہوں عوام کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم ہو قومی خزانے کی بندر بانٹ ہو قومی اداروں سے قابل اور محنتی لوگوں کو نکال کر ایسے لوگ بٹھا دیے جو نا اہل اور اجڈ ہوں نج کاری کے نام پر اداروں کو اپنے اللوں تللوں کے حوالے کر دیا جائے اور عوام کو وعدوں اور دعووں سے ٹرخایا جائے جس جمہوری دور میں ان کو کوئی عہدہ مل گیا وہ ان کے نزدیک جمہوری عہد ٹھہرا جس عہد میں یہ حصول وزارت یا مشاور ت میں ناکام رہے اس دور کو انہوں نے ظلم و جبر کا دور قرار دے دیا اور جس دور استبداد میں ان کو ان کی اوقات کے مطابق مفادات حاصل ہو گئے وہی ڈکٹیٹر ان کے ہاں قوم کا مسیحا بن گیا محمود خان اچکزئی صاحب کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ ان کے رابطے اور ناطے کن سے ہیں افغان انٹیلی جنس جو افواج پاکستان پر حملوں میں ملوث ہے جس نے پنجاب،خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بھائیوں کو بھائیوں لڑانے کے لئے اپنا مضبوط نیٹ ورک پھیلایا ہوا ہے اس نیٹ ورک کے سربراہ افغان انٹیلی جنس کے ڈپٹی چیف سے قربت داری اور دوستی کہاں کی حب الوطنی کے زمرے میں آتی ہے بلوچستان میں قائد اعظمکی ریذیڈنسی کو دہشت گردوں نے جلا دیا لیکن اچگزئی صاحب نے اس دہشت گردانہ کاروائی کی مذمت تک نہ کی ان کی جمہوریت پسندی اور حب الوطنی کا یہ عالم ہے کہ جب یہ لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں تو پاکستان کی محبت کا دم بھرتے ہیں یونہی اقتدار سے الگ ہوتے ہیں ان کی حبّ الوطنی کے میعار بدل جاتے ہیں اور ملک و قوم کو گالیاں نکالنے لگتے ہیں ۔

(جاری ہے)


حسین سے بھی دوستی یزید کو بھی سلام
بتا کس سے محبت کا صلہ مانگے ہے
یہ سیاستدان کیا جانیں کہ جمہوری اقدار کیا ہیں جمہوری فلسفہ کیا ہے اور جمہوری اصول کیا ہیں ان کے نزدیک توذاتی مفادات کا حصول اور تحفظ ہی جمہوریٰت ہے مگر قوم ایسی جمہورییت کو جمہوریت نہیں مانتی جس میں غریبوں کے مسائل سے چشم پوشی اختیار کی جائے ان کی مشکلات کم ہونے کی بجائے زیادہ ہو جائیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوامی امنگوں اور خواہشات کے برعکس دھوکہ دہی ،مکرو فریب اور حرص و ہوس کو اپنی سیاست کا محور بنا لیں اگر ان سیاستدانوں،وڈیروں،سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ہاں ایسے رویوں اور کردار کا نام جمہوریت ہے تو ایسی جمہوریت کا اللہ ہی حافظ ہے ہم تو پارلیمنٹ کے فلور پر چیخ چیخ کر جمہوریت کو مضبوط کرنے کے دعوے کرنے والوں اور عسکری اداروں کے خلاف توہین آمیز رویہ اپنانے والوں سے یہی کہیں گے کہ،،
اصول بیچ کر مسند خریدنے والو
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تمہیں تھا نہ ہو سکے گا کبھی
کہ اپنی حر ص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :