میں نے کہا تھا نہ۔۔۔!

جمعرات 4 ستمبر 2014

Imran Ahmed Rajput

عمران احمد راجپوت

ہم تو پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ اشرافیہ بہت طاقتور ہے اور بات صرف ایک فرد کی نہیں پوری کھیپ کی ہے آج میاں صاحب ایک پل کے لیے مستعفٰی ہونے کا سوچ بھی لیں تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کُلبِلا اٹھتے ہیں اُنکے پیروں سے زمین کھسکنے لگتی ہے آنکھوں کے آگے اندھیرا آنے لگتا ہے سیاسی نقاہت محسوس کرنے لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ منگل کے روز پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں تمام اجارادارانِ پاکستان یک زباں ہوئے بیٹھے تھے۔

منافقت کا حال یہ تھا کہ ایک طرف سبھی حکمراں جماعت کو دھاندلی کی پیداور بتارہے تھے لیکن دوسری طرف استعفیٰ مت دینا نواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں کا نعرہ بھی بلند کررہے تھے ۔ دراصل انھیں میاں صاحب کے استعفیٰ سے کوئی سروکار نہیں ہے میاں صاحب کل کا استعفیٰ دیتے آج دیں اُنکی بھلا سے ،اصل مسئلہ تو اُس ایجنڈے کا ہے جواب کی بار عوام لیکر اٹھے ہیں مطلب حقیقی جمہوریت اور حقیقی آزادی، اشرافیہ کی نظر میں عوام کا یہ مطالبہ میاں صاحب کے استعفے سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا ہے۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب کو استعفیٰ کسی صورت نہ دینے اور سیاسی شہید ہونے کی ترغیب دی جارہی ہے ،حالانکہ انتخابات 2013 ء سے پہلے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے میاں صاحب نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی عوام بیشک مجھے منتخب نہ کرے لیکن جمہوریت کے تسلسل کو رکنے سے بچایا جائے اگر عوام مجھے نہیں چاہتے تو بیشک مجھے اقتدار میں نہ لائے میرے لیے سب سے اہم چیز پاکستانی عوام کی خدمت ملک کی سالمیت اور جمہوریت کی بقا ہے ۔

قارئین اگر ہم میاں صاحب کے اِس بیان کو آج کے موجودہ حالات کے تنازر میں دیکھیں تو اُن کا یہ بیان خود اُن پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔ مشرف سے لوگ لاکھ اختلاف کرتے ہوں لیکن ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں میں آ ج بھی وہ زندہ و جادواں ہیں اس کی بڑی وجہ غریب و متوسط طبقے کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وہ مقام و عزت دینا ہے جو آئین پاکستان کے تحت اس ملک کی عوام کا حق ہے ۔

قارئین ویسے تو پاکستان کی تاریخ میں مشرف سے پہلے بھی فوجی حکومتیں آئی ہیں لیکن عوام کے جو بنیادی حقوق مشرف دور میں عوام کو نصیب ہوئے اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کے دور میں بھی ملک نے بہت ترقی کی تھی اور عوامی حقوق کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا تھا لیکن تب بھی وقت کے بادشاہ گرو نے اُسے آمریت کی بد صورت تصویر بنا کر پیش کیا اور آج کی طرح اپنی بد دیانتی پر مبنی جمہوریت کو اپنے گھر کی حسین لونڈی بنا کر پیش کرتے رہے ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی شعور سے نابلد عوام اِس حسین لونڈی کے حسن میں گرفتار برسوں اِن بادشاہ گرو کی غلامی کرتے رہے۔

تاریخ کے آئینہ میں دیکھیں تو جمہوریت کے حسن میں مبتلا یہ عوام آج تک اپنے آقاؤں کے جلسوں میں کرسیاں لگاتے اور تمبو میں بمبو ٹھوکتے آرہے ہیں غلامی میں جکڑے اپنے باپ داداؤں کے اِس جمود کو توڑنے کے لیے اب تھرڈجنریشن نے سراٹھانے کی کوشش کی ہے ، ایسے میں جب یہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے یہ تھرڈ جنریشن اب کسی کے آگے اپنا ماتھا ٹیکنے کو تیار نہیں یہ اپنی حیثیت اپنا مقام جان چکے ہیں لہذا اشرافیہ کو آج نہیں تو کل گھٹنے ٹیکنے ہی ہونگے جس طرح سے سب چلتا آرہا ہے اب ویسا نہیں چل سکتا یہ بات اب تمام سیاستدانوں کو سمجھ لینی چاہیئے وہ اب اِس جوالا کو بار بار نہیں دبا سکتے یہ وہی جوالا ہے جو 1857 ء میں بھڑکی تھی جب تک ان کے حقوق انھیں نہیں ملیں گے یہ بار بار اٹھیں گے لہذا عقل و فہم کا استعمال کیا جائے حقیقت سے نظریں چرانا خود کو دھوکے میں رکھنا ہے۔

یہ تھرڈ جنریشن اب کسی جمہوریت نامی حسین لونڈی کے سحر میں مبتلا ہونے کو تیار نہیں اِنھیں اب لفظ جمہوریت یا آمریت سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ یہ جان چکے ہیں آئین میں کیا لکھا ہے ان کے حقوق کیا ہیں لہذا اب بس صرف و صرف آئین اور قانون کی بات ہوگی اور کچھ نہیں،یاد رکھیںآ ج نہیں تو کل جیت عوام کی ہی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :