دھرنے اور پارلیمنٹ

جمعرات 4 ستمبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

موجودہ صورتحال میں تو یوں لگتا ہے کہ پارلیمنٹ اور دھرنے والے مقابل کھڑے ہیں لیکن بعض دل جلوں کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ نہیں بلکہ حکومت اور دھرنے والوں کا مقابلہ ہے ‘پوچھاگیا کہ پھر محمود اچکزئی‘ مولانا‘ پی پی والے یہ سب کیوں حمایت کررہے ہیں ‘کیا انہیں جمہوریت سے ہمدردی ہی؟ جواب ملا ہمدردی کاہے کی ‘ یہ تو دراصل مفادات کا کھیل ہے جس جس کے مفاد کی کنڈی جہاں جہاں فٹ ہوتی جاتی ہے وہ خود وہیں ایڈجسٹ ہوتا جارہاہے۔

بات تو سچ ہے مگر یاران وطن پھر بھی مطمئن نہیں ہورہے یا پھرانہیں گذشتہ روز ہونیوالے اجلاس میں ممبران اسمبلی کی تقاریر ہضم ہی نہیں ہورہی ہیں ‘ اعتزاز احسن کی بھی سنئے وہ کہتے ہیں عمران خان اور طاہر القادری کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے حکومت کو پارلیمنٹ یاد دلادی، کنٹینر لگانا اور ایف آئی آر درج نہ کرنے کا بھی کوئی قانون نہیں،کسی ابہام کے بغیر ہم جمہوریت کے ساتھ ہیں۔

(جاری ہے)

اعتزازا حسن موڈ کے بندے ہیں یعنی جب موڈ کھلا کھلاہوتو لطیفے سناکر ہی بہت بڑی بات کہہ جاتے ہیں اور جب مزاج برہم ہوتو پھر بڑے بڑے آمروں کو سنادیتے ہیں خیر انہوں نے جب اسمبلی میں خطاب کیا تو لگتا یہی ہے کہ ان کاموڈ کچھ نہیں بلکہ بہت ہی خوشگوار تھا تبھی تو انہوں نے ماں بیٹے کی کہانی میں وزیراعظم کو بہت کچھ سنادیا ۔ اب سوشل میڈیا والوں کے ہاتھ تو بہت کچھ آگیا اور لگے دو دو نہیں پانچ پانچ ہاتھ کرنے۔


اب شنید یہی ہے کہ دھرنے والوں کو جمعرات تک کی مہلت دی جارہی ہے تاکہ وہ ”دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی کرسکیں “ لیکن حضرات فی الحال امکان بہت کم ہے کیونکہ پانی اوردودھ کچھ اس طرح مکس ہوگیا ہے کہ دونوں کا الگ الگ کرنا محال دکھائی دے رہا ہے۔ بعض نکتہ چینوں کاخیال ہے کہ حکومت دھرنے والوں پر لاٹھی‘ڈنڈے کا استعمال کرنا چاہ رہی ہے ‘ لیکن بقول راویان وزیرداخلہ مجبوری ظاہر کرچکے ہیں کہ پولیس ان کا کہا نہیں مانتی ‘ یہ پارلیمانی پارٹیوں کے رہنما حضرات کے اجلاس کاقصہ ہے اور سنانے والے مزے لے لے کر سناتے ہیں کہ جب وزیرداخلہ مجبوری ظاہرکررہے تھے کہ پولیس تو کہامانتی نہیں ایف سی سے کام چلارہے ہیں ۔

گویا یہ بات ثابت ہوگئی کہ اپنے کئے کی سزا جب پولیس اہلکاروں کو دی جائیگی تو کون کہامانے گا۔
صاحبو! فی الوقت جھوٹ سچ کا نتھار ا مشکل ہورہا ہے کہ چار پانچ چینل ایک ‘چار پانچ دوسری طرف اور پھر باقی بچ جانیوالے اپنی اپنی راگنی گانے میں مصروف ہیں‘ ایسے میں اچھا خاصا عقلمندانسان بھی پاگل سا ہوجاتا ہے کہ کس کی بات مانیں‘ سرکاری ٹی وی تویوں بھی ٹھنڈا ٹھارہوتا ہے بلکہ اسے تو اب صرف سنڈی مارچینل ہی سمجھاجارہا ہے ۔

ہوسکتاہے کہ اس کے ہیڈکوارٹر پر ہونیوالے حملے کے کچھ اثرات سامنے آئیں مگر لگتا یہی ہے کہ یہ ہمیشہ کی طرح ٹھنڈا ٹھار ہی رہیگا ۔ بہرحال ”مال لگاؤ ‘نام کماؤ“ کے مصداق یہاں بھی مقابلہ بازی جاری ہے ‘ دوچار بڑے چینلو ں نے بھی اپنا نرخنامہ ٹانک رکھا ہے ‘ چینلوں سے یاد آیاکہ گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم نے حسب سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار کے خطاب کے دوران چٹ لکھ کر بطور خاص ایک چینل کانام لینے کو کہا ‘ توجیح یہ سامنے آئی ہے کہ اس چینل کو دیکھنے کے بعد یوں لگتا ہے کہ پی ٹی وی نے اپنا مونوگرام تبدیل کرلیا ہے۔


صاحبو! فی الوقت ساری پارلیمان دھرنے والوں کے خلاف متحدہوچکی ہے اور اسے جمہوریت کی کامیابی تصور کیاجارہا ہے ‘ ہوسکتا ہے کہ جمہوریت کی کامیابی ہولیکن جمہور تو ناکا م ہوگئے بلکہ یہ سلسلہ تو 67سالوں سے جاری ہے ‘کبھی آمروں نے اور کبھی جمہوریت پسندوں نے جمہور یعنی عوام کی آواز تک نہیں سنی۔ سنتا بھی کون کہ دونوں کے الگ الگ مشن ضرو ر ہیں لیکن ایک مشن بہرحال مشترک ہے کہ جمہور کی آواز نہیں سننا۔

چھوڑئیے چھوڑئیے کہ یہ تو دل کے وہ پھپھولے ہیں جو نہ تو پھٹتے ہیں اورنہ ہی جان چھوڑتے ہیں ۔قوم ہے کہ ان ناسوروں کو گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے نہ صرف جھیل رہی ہے بلکہ ان کی آئے روز ستم ظریفی پر اف تک کرنے کی روا دا ر نہیں
شنید ہے کہ دھرنوں کی بدولت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمہ اسی انداز میں درج ہوگیا ہے جس کی خواہش طاہر القادری اور ان کی جماعت کو تھی۔

انہوں نے گذشتہ روز جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے آئین کی ابتدائی چالیس شقوں کا ذکر کیا‘ ان شقوں کاتعلق براہ راست عوامی مفادات سے ہے ‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طاہر القادری نے ایسے ایسے نقطے قوم کے سامنے لاکھڑے کئے ہیں جن کا آج تک قوم کو پتہ نہیں تھا۔ ایک بھولا بھالا ساریڑھی بان نہایت سادگی سے سوا ل کررہاتھا کہ ”اچھا آئین میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ عوام کو یہ یہ سہولت ہوگی“ پھر کافی دیر ٹیلیویژن سکرین پردیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی ۔

وہ بولا ”اس کا مطلب ہے کہ آئین صرف بڑے لوگوں کا محافظ نہیں ہے بلکہ ہماری بھی ترجمانی کررہا ہے ‘ ‘ وہ پھر سوچ میں ڈوب گیا اور سر اٹھاکر قریب کھڑے ٹرک ڈرائیو ر سے پوچھنے لگا ”اگر ایسی بات ہے تو پھر آئین کے مطابق ہمیں ہمارے حقوق کیوں نہیں ملتے“ ٹرک ڈرائیور نہایت تلخ لہجے میں بولا ”آئین کی سنتا کون ہے ‘ یہاں تو آئین میں سے مرضی کے نکات نکال کر پیش کردئیے جاتے ہیں اور بس ۔

یہ ہے جمہوریت “ یقین کریں کہ اس نے جس انداز میں جمہوریت کا لفظ استعمال کیا تو بہت سے لوگ خواہ مخواہ ہی شرمندہ ہوگئے
بات مزاح سے سنجیدگی کی طرف بڑھ رہی ہے تو چلو ایک لطیفہ نمابات بھی سن لیں ‘صوبائی حکومت نے غلیل پر پابندی لگادی ہے پتہ نہیں یہ پابندی صرف لاہور ‘راولپنڈی تک ہے یا پھر اس کا دائرہ کار دوسرے اضلاع تک بھی بڑھے گا ‘ بات جو بھی ہو‘کم ازکم پولیس کے ہاتھ ”دھن دولت “ اکٹھی کرنے کا ایک اورموقع آجائیگا کیونکہ دفعہ 144 کے نفاذ کے دوران جس قدر فائدہ یہ محکمہ اٹھاتا ہے اس کی مثال تک نہیں ملتی ۔

چھوڑئیے چھوڑئیے کہ بیچارے پولیس اہلکاران پہلے ہی پریشا ن ہیں ان کی پریشانیوں میں اضافہ نہیں کرتے ‘ بہرحال غلیل عموماً چھوٹے بچوں کا ہتھیار ہے جس کے ذریعے کبھی تو وہ کوے کو نشانہ بناتے ہیں ا ورکبھی چڑیا کا ‘ یہ تو برا ہو عوامی تحریک والوں کا کہ انہوں نے غلیل میں پتھر کی جگہ کنچے استعمال کرنا شروع کردئیے۔ کنچوں سے کھیلنا بھی بچوں کی عادت ہے ہم نے کہیں اورکبھی بھی کسی بڑے کو کنچوں سے کھیلتا نہیں دیکھا لیکن اب یہ دونوں اشیا ء تحریک والوں کے پاس آنے کے بعد متنازع ہوگئی ہیں۔

‘سنا ہے کہ اسلام آباد میں جاری بارشوں نے بھی حکومتی پلان کو بری طرح سے متاثرکردیا ہے‘ لیکن سوا ل یہ پیداہوتاہے کہ اب بارشوں پر پابندی کیسے لگے لگی ؟
شنید ہے کہ جرگے والے بھی متحرک ہیں اورہوسکتاہے کہ جب یہ تحریر چھپے تو اس وقت تک کوئی نہ کوئی فیصلہ ہوچکاہو‘ تاہم بقول کپتان وہ دونوں بھائیوں کااستعفیٰ لئے بغیر نہیں جائیں گے۔ بات اگر جرگے والے بھی نہ منواسکے توپھر․․․․․․؟سوال سیدھا ساہے لیکن اس کاجواب بہت اذیت ناک․․․․․

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :