کوئی ہے؟

منگل 2 ستمبر 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

آپ سلطنت برطانیہ کی مثال دیکھیں ،برطانیہ کی سلطنت اپنی وسعت کے اعتبار سے تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت تھی ۔1921میں یہ سلطنت33ملین مربع کلو میٹر پر مشتمل تھی اور اس کے زیر نگیں 45کروڑ 80لاکھ لوگ آباد تھے ۔سلطنت برطانیہ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس میں سورج غروب نہیں ہو تا اور یہ دنیا کے پانچوں بر اعظموں پر محیط تھی ۔برطانیہ کو یہ مقام کیسے ملا اس کی وجہ اس کا جغرافیائی محل وقوع تھا ،یہ چھوٹا سا ملک چاروں طرف سمندر سے گھرا ہوا تھا اور اس کی سرحدیں بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ تھیں ،سرحدیں محفوظ ہونے کی وجہ سے برٹش عوام کے پاس اپنی صنعتی ترقی کے وسیع مواقع موجود تھے اور جغرافیائی طور پر الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے ان میں قومی اتحاد پیدا ہوجانا ایک فطری عمل تھا ،لوگوں کی زبان ایک تھی،مفادات ایک تھے ،مذہب ایک تھا ،لباس ایک تھا اور سب سے بڑھ کر ان کی حب الوطنی قابل رشک تھی ،یہی وہ سب چیزیں تھیں جو قومی اتحاد کے لیئے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں ، برطانیہ نے اسکاٹ لینڈ کو سیاسی معاہدوں اور آئر لینڈ کو فوجی اور انتظامی معاہدوں کے تحت سلطنت بر طانیہ کا حصہ بنا لیا تھا ۔

(جاری ہے)

مفادات کی یکجہتی اور حب الوطنی کے جذبے نے اس قوم کو درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کا حوصلہ دے دیا تھا ،برٹش عوام نے تاریخ کی پانچ بڑی جنگیں لڑیں لیکن اپنے اتحاد اور حب الوطنی کے جذبے کے تحت ان پانچوں جنگوں میں کامیابی حاصل کی ۔برطانیہ کی پہلی جنگ اسپین کے خلاف تھی جس میں برطانیہ نے 1588میں اہل اسپین کو شکست دی ،دوسری جنگ فرانس کے خلاف تھی جو لوئس چہارم کے دور میں شروع ہو ئی اور 1704میں بلین ہم کے مقام پر فرانسیسیوں کی شکست پر ختم ہو ئی ،تیسری خوفناک جنگ بھی فرانس کے خلاف تھی اور اس جنگ میں برطانیہ کے مدمقابل مشہور فرانسیسی جرنیل نپولین تھا ،برطانیہ نے نپولین کو 1815میں واٹر لو کے میدان میں شکست دی ،چوتھی جنگ جرمنی کے خلاف تھی جس کو جنگ عظیم اول بھی کہا جاتا ہے ،اس جنگ میں ولیم دوم جرمنی کا حکمران تھا ،برطانیہ نے 1918میں اسے بھی شکست دے دی ،پانچویں اور آخری جنگ پھر جرمنی کے خلاف تھی جسے جنگ عظیم دوم کہا جا تا ہے، اس جنگ میں برطانیہ کو وقت کی عظیم طاقت ہٹلر کا سامنا تھا، یہ جنگ کئی سال تک جاری رہی اور بالآخر 1944میں برطانیہ نے نارمنڈی کے مقام پر یہ جنگ بھی جیت لی ۔

ان پانچ بڑی جنگوں میں ہر جنگ پہلے سے ذیادہ خوفناک اور شدید تھی لیکن برٹش عوام نے اپنے اتحاد اور جذبہ حب الوطنی کے تحت ہر جنگ کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور وقت کی عظیم طاقتوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ،یہ تاریخ میں قومی یکجہتی اور حب الوطنی کی نادر مثال تھی اور برٹش عوام کی اسی یکجہتی اور حب الوطنی نے برطانیہ کوتاریخ کی ”عظیم سلطنت“ بنایا تھا ۔


آپ جاپان کی مثال دیکھیں ،پرل ہاربر پر حملے کے بعد جاپان کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا تھا ،جون 1945میں امریکہ نے جاپان پر ایٹمی حملوں کا فیصلہ کر لیا تھا ،طے یہ ہوا تھا کہ ہدف تین میل سے ذیادہ قطر کا ہو تا کہ ذیادہ تباہی پھیلے۔ حملے کے لیئے جاپان کے شہر ہیرو شیما کا انتخاب کیا گیا ،کیوں ،کیوں کہ یہ ایک بڑا صنعتی علاقہ تھا،جاپانی فوج کا سارا اسلحہ بارود بھی اسی شہر میں جمع تھا اور ساحل سمندر پر ہونے کی وجہ سے اس شہر کا ریڈار میں نظر آنا بھی آسان تھا ۔

چھ اگست کی صبح ہیرو شیما کے بدقسمت لوگ اپنی موت سے بے خبر اٹھنے کی تیاریوں میں مصروف تھے ،اینکولہ گے بی29-نامی طیارہ قریبی جزیرے سے اڑان بھر چکا تھا ،اس کی حفاظت کے لئے مزید دو طیارے بھی اس کے ساتھ تھے ،طیارہ اکتیس ہزار فٹ کی بلندی پر محو پرواز تھا ،پیر کی صبح آٹھ بجے کے قریب ہیرو شیما کے ریڈار آپریٹر نے خبر دی تین طیاروں پر مشتمل ایک چھوٹا قافلہ شہر کی طرف بڑھ رہا ہے ،اس سے پہلے امریکی طیارے غول کی صورت میں حملہ آور ہوتے تھے اس لئے انتظامیہ نے تین طیاروں پر مشتمل قافلے کو سنجیدگی سے نہ لیا۔

نیوی کیپٹن ولیم پارسنز اور اس کا معاون سیکنڈ لیفٹیننٹ مورس ایٹم بم سے سیفٹی پن نکال چکے تھے ،جیسے ہی آٹھ بج کر پندرہ منٹ ہوئے نو ہزار سات سو پونڈ وزنی یورینیم سے تیار کردہ لٹل بوئے نامی ایٹم بم کا رخ زمین کی طرف کر دیا گیا اور صرف 43سیکنڈ بعد ہیرو شیما کی گلیوں میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ رونما ہوا ،قیامت خیز تباہی مچی اور جاپان جھکنے پر مجبور ہو گیا ۔

دھماکا اتنا شدید تھا کہ اکتیس ہزار فٹ کی بلندی پر موجود اینکولہ گے بھی فضا میں ہچکولے کھانے لگا ،پورے شہر پر دھویں کے بادل چھا گئے ،فضا میں اڑنے والے پرندے تک پگھل گئے ،آگ نے ساڑھے چار میل کا علاقہ اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔کسی کو کچھ دکھا ئی دے رہا تھا اور نہ کچھ سمجھ آ رہا تھا ،محتاط اندازے کے مطابق اس دھماکے کی تپش اور تابکاری کے سبب فوری طور پر ستر ہزار لوگ موت کے منہ میں چلے گئے ۔

یہ انتہا تھے ،جاپان جھکنے پر مجبور ہو گیا ،جاپان کی قوت برداشت نے جواب دے دیا ،شکست کی دستاویزات تیار ہوئیں اور جاپانی وزیر خارجہ نے دستاویزات پر دستخط کر دیئے ۔دستخط کی تقریب خلیج ٹوکیو میں موجود امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس میسوری میں منعقد ہوئی ،یہ تقریب 23منٹ تک جاری رہی اور دنیا بھر کے میڈیا نے اسے بھرپور کوریج دی ، دستاویزات پر امریکہ ،سوویت یونین ،چین ،آسٹریلیا ،کینیڈا ،فرانس ،ہالینڈ اور نیوزی لینڈ نے دستخط کیئے ۔

۔ہیرو شیما کی تبا ہی کے بعد جا پان بالکل بدل چکا تھا ،ساری صنعتیں تباہ ہو چکی تھیں ،ملیں اور فیکٹریاں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں ،لاکھوں لو گ مو ت کی وادی میں جا چکے تھے ،ہزاروں جا پانی زندگی اور مو ت کی کشمکش میں تھے ، کنویں زہر آلو د تھے ،ہوا زہریلی گیسوں کا مرکب بن چکی تھی اور پو رے جا پان میں مو ت کا راج تھا ۔یہ وہ وقت تھا جب جا پانیوں نے اپنے احساس برتری سے نکل کر حقیقت کی آنکھ سے دیکھنا شروع کیا تھا ،انہوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی تھی اور اب وہ ایک نئے جا پان کی بنیا د رکھنا چاہتے تھے ۔


نئے جاپان نے قومی یکجہتی اور حب الوطنی کی کوکھ سے جنم لیا تھا ،جاپانی عوام ایک بریڈاور چپاتی کے چار حصے کرتے تھے، ایک حصہ خود کھاتے اور باقی تین ہمسایوں اور بھوکوں کو کھلاتے تھے ،ساراجاپان نئی صنعتی جنگ کی تیاری میں مشغول ہو گیا،ہر جاپانی نے اپنے گھر میں ”جنگی فیکٹری “قائم کی اورصرف چند سالوں بعد وہی جاپان قومی اتحاد اور جذبہ حب الوطنی کے تحت اپنے سابقہ حریفوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا تھا ۔


کاش کو ئی لیڈر یا کو ئی جماعت میر ے ملک کو جمہوریت ،انقلاب اور تبدیلی کی بجائے قومی یکجہتی اور حب الوطنی کا جذبہ دے دے ۔ان جمہوریت پسندوں ،انقلابی لیڈروں اور تبدیلی کے علمبرداروں میں سے کوئی ہے جو جاپان سے سبق سیکھے،ان اقتدار کے پجاریوں میں سے کو ئی ہے جو اس ملک پر رحم کرے اور اس قوم کو 1947جیسی سوچ ،فکر اور جذبہ عطا کر دے۔کاش ہم جاپان ،برطانیہ اور کوریا سے یہ سبق سیکھ لیتے ،کاش ہم اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے چین سے حب الوطنی اور قومی یکجہتی کا سبق سیکھ لیتے تو آج اسلام آباد کی گلیاں میدان جنگ بنتی اور نہ ہم پوری دنیا میں رسوا ہوتے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :