سوچنے کی بات ہے

جمعہ 29 اگست 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

کسی شیر اور مرغے کی دوستی ہو گئی۔شیر نے مرغے سے کہا کہ جب بھی کوئی مسئلہ ہو تو تم اذان دینا میں پہنچ جاؤں گا ایک دن ایک گیدڑ مرغے پر ہاتھ صاف کرنے کی نیت سے اس کے قریب آگیا مرغے نے درخت پر چڑھ کر اذان دینا شروع کر دی گیدڑل مرغے سے بولا بھائی اگر اذان دے لی ہے تو آؤ نماز بھی پڑھ لیں مرغے نے شیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ امام صاحب آرہے ہیں ابھی باجماعت نماز پڑھتے ہیں گیدڑ نے شیر کو دیکھ کر دوڑ لگادی اور بولا کہ یہ امام ہمارے فرقے کا نہیں۔


فرقوں کے ان اماموں نے ایما نوں کو خراب کردیا ہوا ہے۔کیا سیاست،کیا مذہب اماموں کی تعداداس حد تک بڑھ گئی کہ اب ان کی شکل میں فتنہ و فسادات ہونے لگے ہیں کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ اسی ماہ ہم نے دھوم دھام سے اپنا جشن آزادی منایا ہے جو نصف صدی سے بھی زیادہ کا سفر طے کر چکا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ بدنامی،ذلت اور رسوائی اور جگ ہنسائی کا سفر بھی جاری ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔

(جاری ہے)

معاملہ سیاست کا ہو یا مذہب کا ہماری تو تو،میں میں ختم ہی نہیں ہو رہی ۔ اس سرزمیں پر کون سا ایسا گناہ سر زد ہوا، کونسے ایسے مظالم ہیں اور کون سے ایسے فیصلے ہیں کہ جن پر آسمان ناراض ہے ۔ ماضی و حال کے معاملات پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے یہ بات طے کہ کہیں نہ کہیں کوئی ایسی غلطی سرزد ہوئی ہے اور ہو رہی ہے جس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔

کتنی عجب بات ہے کہ پارلیمنٹ ہماری،عدالتیں ہماری، سرکاری ادارے اپنے اور ہم میں ہی سے لوگ وہاں بیٹھے ہیں، قومی سیاست دان اور سیاسی جماعتیں بھی اپنی ہی ہیں اور تو اور پاکستان میں پیدا ہونے والے بھی پاکستانی ہی ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود سب ایک دوسرے کو اسلام اور وطن کا نہ صرف غدار سمجھتے ہیں ل بلکہ سیکورٹی رسک بھی دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں،اور کافر قرار دیتے ہیں اور دوسرے ملک یا جماعت کا ایجنٹ بنانے کا ٹھیکہ تو ہر ایک کے پاس ہے کیسی بدقسمتی ہے اس قوم کی کونسا ایسا سیاسی اور مذہبی لیڈر ہے جس کی سوشل میڈیا پر بد ترین رسوائی نہیں ہو رہی ہے۔

خود ہمارے اپنے بڑے بڑے ٹی وی چینل ایسے ایسے پروگرام دکھا رہے ہیں جن میں کارٹونوں کے ذریعے ان لیڈروں کا تماشہ لگایا جاتا ہے انکے کرداروں کو ننگا کیا جاتا ہے۔ کیایہ قدرت کا کوئی انتقام ہے؟ کوئی آسمانی فیصلہ ہے؟ذلت اور عزت دونوں اللہ تعالیٰ کے اختیار ہیں ہے۔جس کو چاہئے وہ عزت دے اور جس کو چاہیے وہ ذلت و رسوائی دے۔ابھی تک تو پوری قوم سب کی ذلت و رسوائی کے مناظر ہی دیکھ رہی ہے، بدنامی کے داغوں پر مشتمل یہ فلم ابھی تک پوری دنیا دیکھ رہی ہے جو پاکستان کے اندر تیار ہوتی ہے۔

گوجرانوالہ میں ہونے والے اس دلخراش واقعہ جس میں دو معصوم لڑکیوں سمیت ایک عورت کو زندہ جلا دیا گیا تھا اور ایک بچہ جو ابھی اس دنیا میں ہی نہیں آیا تھا کو بھی نہ بخشا گیا اس واقعہ کی پوری دنیا میں پورے رنج وغم کے ساتھ بھرپور مذمت کی گئی لیکن مذہبی جماعتوں اور ان کی ہم خیال سیاسی جماعتوں نے حسب معمول خاموشی اختیار کی،عدالتیں اور منصف بھی سوئے رہے اور سویا موٹا تو بس قائداعظم کی شکل دیکھنے کے بعد ہی ایکشن لیتا ہے ۔

پاکستان میں مذہب کے نام پر مرنے والے تو مر گئے؛ لیکن قدرت کا انتقام اب شر وع ہوا ہے۔اپنے ہی لوگوں اور اداروں کے ہاتھوں سیاسی اور مذہبی لیڈروں کی ذلت اور رسوائی قدرت کا انتقام ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مذہب کے اندر سیاست نے سب سے پہلے مذہب کے تصور اور اس کی روح کو متاثر کیا بعد ازاں سیاست نے اداروں کے اندر مداخلت کی اور اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ قومی اداروں کی کیا حالت ہے اور ان کے سربراہوں کی کیا عزت ہے پارلیمنٹ اور اس کے اندر بیٹھنے والوں کے کپڑے ان کی قوم خود ہی اتار رہی ہے اور سب پوری طرح ننگے ہو رہے ہیں،عدالتوں اور ججوں بارے کیا کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے وہ سب سن اور پڑھ رہے ہیں؛تمام نیوز چینلز پر صبح و شام تک الزام تراشیوں اور بد زنیوں کے سوال کچھ سننے کو نہیں ملتا۔

لگتا یوں ہے کہ ا س ملک سے دیانت،شرافت،انسانیت،امن،انصاف،رحمدلی، اور رزق سب کچھ ختم ہوتا جا رہا ہے۔گھر کے اندر اور باہر نہ کسی کی جان،نہ عزت اور نہ مال محفوظ رہا۔ بس ایک خود ساختہ غیرت باقی ہے جو صرف ظلم کرنے ہی کے لئے جاگتی ہے یا پھر کافروں کے گھروں کی قیمتی اشیاء کو لوٹنے اور استعمال کرنے کے لئے۔سیاسی اور مذہبی بے راہ روی کا شکار پوری قوم کو ایک ایسے مسیحا کی ضرورت ہے جو ان کو سیاسی و مذیبی گرہ گٹوں سے نجات دلائے ان ظالموں نے ماسوائے ظلم و ستم کو عام کرنے اور لوٹ مار کرنے کے کچھ نہیں کیا اور یہی سبق لوگوں کو بھی دیا۔

ظالم حکمران کیوں اور کب مسلط ہوتے ہیں؟ ۔اس پر فکر اور غور کی ضرورت ہے۔اپنے گھر کے اندر کے دشمنوں کو س ب نے آنکھوں کا تارا بنایا ہوا ہے، ظالموں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے،ایک عام غریب آدمی کی حالت زار کیا ہے اس کے اندازہ اس کے گھر کے اندر جاکر ہی ہوسکتا ہے۔ جوان لڑکی شادی نہ ہونے کے باعث بوڑہی ہو رہی ہیں،؛ چولہے ٹھنڈے ہیں،برتن خالی ہیں،جن کے بچے پڑھ لکھ چکے ہیں وہ بیروزگار ہیں اور نہ سفارش نہ دولت تو بھلا نوکری کیسی اور کیوں۔

سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے اپنے کارکنوں کی لسٹیں حکمرانوں کو دے؛ کر نوکریاں حاصل کر لیتے ہیں ۔یہ غیر انصافی ایسا بڑا ظلم اور اقراء پروری ہے کہ اس کے بعد کسی بیرونی دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
آج پوری قوم اور میڈیا وہی کچھ کاٹ رہا ہے جو ماضی میں انہی لیڈروں اور ان کے بڑوں نے بویا تھا،ریاستی ادارے بھی مکافات عمل کا شکار ہیں انہوں نے وہ کام اور ظلم کئے جس کا ریاست سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

دنیا کے کسی بھی ایسے ملک میں ایک ا یسی مثال نہیں کہ ا س کے سر کاری دستاویزات میں کسی کو پہلے گالی دی جائے یا برا بھلا کہا جائے ماسوائے پاکستان کے۔کیا پاکستان میں ایک بھی ایسا عالم باعمل نہیں جو قرآ ن کو سمجھتا ہو؟جس میں دوسروں کا نہ صرف احترام کرنے بلکہ برا بھلا کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔اگر صرف انصاف کو ہی دیکھا جائے اور جائزہ لیا جائے تو ہمیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس قدر ظلم پاکستان میں ہو رہا ہے،مذہب کے نام پر بھی اور غربت و افلاس کے نام پر بھی،ذات پات کے حوالے سے بھی۔

انصاف اگر گھر کے اندر والدین بھی نہ کر سکیں تو وہ گھر برباد ہو جاتا ہے اور اگر کسی سوسائٹی اور ملک کے اندر سے ختم ہو جائے تو پھرکسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔آج بڑے بڑے غیر اسلامی ممالک اپنے عدل اور انصاف ہی کی بدولت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ریاست کی تعمیر و ترقی میں اس کا بنیادی کردار ہے۔آج پاکستان جس حالت کو پہنچا ہے اس کی ایک بنیادی اور اہم وجہ ناانصافی ہے سالہاسال سے جاری ریاستی نا انصافیوں کے بعد اب قدرت اپنا انصاف دکھانے کو ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :