نریندرا مودی کی طعنہ زنی…!!!

جمعرات 21 اگست 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

اپنے اقتدار کے اولین ایام میں ہی دو بار جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کے پیچھے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی کیا سوچ کارفرما ہے ،مختلف لوگ اس پر مختلف زاویوں سے تبصرہ کر رہے ہیں تاہم حالیہ دورے کے دوران پاکستان کو آنکھیں دکھا نا شروع کیا ہے۔بلند و بالا لیہہ(لداخ)کے اپنے دورے کے دوران وزیرِ اعظم نے پہلی بار پاکستان پر درپردہ جنگ جاری رکھنے اور شدت پسندوں کی حمایت کرنے کے الزام کے ساتھ اسے روایتی جنگ کرنے کی سکت سے عاری ہونے کا طعنہ دیا ہے۔

پاکستان نے وزیرِ اعظم کے جواب میں اُنکے بیان کو بد قسمتی سے تعبیر کیا ہے اور یوں دونوں ممالک کے تعلقات روایتی بد مزگی کی طرف لوٹنے لگے ہیں اور وزیرِ اعظم نواز شریف کی مودی کی تاج پوشی میں شرکت کے جیسی ”غیر متوقع“پیشرفت کی حصولیابی بے معنیٰ سی ہونے لگی ہے۔

(جاری ہے)


ٹھیک اُسی طرح کہ جس طرح 4جولائی کو جموں اور کشمیر کا دورہ کرکے وزیرِ اعظم نے سابق مرکزی سرکار کے تعمیر کردہ دو ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا تھا ،12اگست کو وہ ریاست کے پہاڑی خطہ لداخ کے دورے پر آئے جہاں اُنہوں نے منموہن سنگھ کی قیادت والی سابق سرکار کے ہی تعمیر کردہ ایک اور بجلی گھر کا افتتاح کیا اور پھر فوجی جوانوں اور مقامی لوگوں سے خطاب کیا۔

جیسا کہ جموں و کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے واشگاف کہا سابق سرکار نے موجودہ سرکار کو جموں و کشمیر کے کئی ترقیاتی منصوبے افتتاح کے لئے تحفے میں دئے ہیں۔عمر عبداللہ نے نریندر مودی کے پہلے دورے کے موقعہ پر بھی ایسا کہکر ایک طرح سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ تعمیر کرنے کے باوجود بھی سابق سرکار نے نہ جانے کیوں ان منصوبوں کی تکمیل کی اطلاع پانے کے با وجود بھی انکا افتتاح نہیں کیا اور اب موجودہ سرکار انکا افتتاح کر کے گویا انکا کریڈٹ لے رہی ہے۔

عمر عبداللہ نے نریندر مودی کے زیرِ تبصرہ دورے سے متعلق اپنا یہ تبصرہ دہرایا اور کہا کہ مذکورہ بجلی گھر سابق سرکار کے دور میں ہی تیار اور افتتاح کا منتظر تھا۔نہایت ہی طمطراق سے وزیرِ اعظم بن چکے نریندر مودی کو ایک ہی مہینے میں دو بارمحض ایسے منصوبوں کا ،کہ جو در اصل اُنکا کارنامہ ہے ہی نہیں،افتتاح کرنے کے لئے آنا بھی چاہیئے تھا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہو سکتی ہے لیکن وہ بہر حال جموں و کشمیر کا اپنا دوسرا یکروزہ دورہ کر گئے ہیں۔

4جولائی کو بھی وہ ایسے پہلے وزیرِ اعظم بن گئے تھے کہ جنہوں نے اقتدار میں آنے کے ماہ بھر بعد ہی جموں و کشمیر کا دورہ کیا تھا۔حالیہ دورہ کے دوران اُنہوں نے کہا کہ وہ جموں و کشمیر میں ”زعفرانی انقلاب“لانا چاہتے ہیں حالانکہ دوسری ہی سانس میں وضاحت کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ وہ در اصل وادیٴ کشمیر کی پیداوار بیش قیمت زعفران کی بات کر رہے ہیں۔

تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ”زعفرانی انقلاب“کی اصطلاح سے در اصل وزیرِ اعظم کی اُس خواہش کا اظہار ہوا ہے کہ جس کے لئے بی جے پہلی بار کمر بستہ ہو گئی ہے کہ کسی طرح وادیٴ کشمیر میں بی جے پی کا زعفرانی رنگ نمایاں ہو جائے۔اس حوالے سے جموں و کشمیر اسمبلی کے جلد ہی منعقد ہونے جا رہے انتخابات سے متعلق بی جے پی کے مشن44اور اسی سلسلے میں ارن جیٹلی کی جانب سے وادی سے ”پانچ کنول“چاہنے کی خواہش ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔


گو کہ اپنے پہلے دورہ کے دوران نریندر مودی نے کوئی بڑی بات کہنے سے گریز کیا تھا تاہم اب کے اُنہوں نے پاکستان کے لئے اپنے تیور تیکھے کئے اور پڑوسی ملک کو نہ صرف سخت پیغام پہنچانا چاہا بلکہ اسے جنگ کی صلاحیت سے عاری قرار دیتے ہوئے یہ کہنا چاہا کہ ہندوستان پاکستان کو مسل کر رکھ سکتا ہے۔ مودی نے پاکستان پر در پردہ جنگ کا الزام عائد کیا اور کہا کہ بھارت بندوقوں کی گھن گرج نہیں، ترقی چاہتا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے منگل کو لداخ میں عوامی خطاب کے دوران پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہہندوستان کے کنٹرول والے علاقوں میں مقامی جنگجووٴں کی پشت پناہی کر کے’ ’پراکسی وار“ یعنی درپردہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔پاکستان کو ایک طرح کا طعنہ دیتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان دراصلہندوستان کے ساتھ باقاعدہ روایتی جنگ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے اسی لیے مسلح جنگجووٴں اور دراندازوں کی حمایت کر رہا ہے۔

لیہ اور لداخ میں فوج اور فضائیہ کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا ”پڑوسی ملک ہمارے ساتھ روایتی جنگ لڑنے کی صلاحیت کھو چکا ہے لہٰذا درپردہ جنگ میں مصروف ہے“۔اس موقعہ پر وزیرِ اعظم نے کہا کہ وہ فوج اور دیگر فورسز کو مظبوط و مستحکم بنانے کے لئے وعدہ بند ہیں۔جوانوں کی ہمت بڑھاتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ پورا ملک اُنکے ساتھ ہے۔


1999 میں ہوئی کرگل جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسیہندوستانی وزیراعظم نے کی سرزمین پر عوام اور فوج سے خطاب کیا ہے۔اُنہوں نے” دہشت گردی“ کو ملک کے لیے چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ تعمیر و ترقی کے اتنے وسائل دستیاب کروائیں گے کہ تشدد، نفرت اور ٹکراوٴ کی فضا ترقی اور خوشحالی کی فضا میں بدل جائے گی۔نریندر مودی نے کرگل کے لوگوں کی حب الوطنی کی تعریف کی اور کہا کہ یہاں کے لوگ ملک کی قومی سلامتی کی ضمانت ہیں۔

18 ارب سے زائد کی لاگت والے پن بجلی پروجیکٹوں اور ترسیلی لائن کا افتتاح کرنے کے بعد اپنے خطاب میں نریندر مودی نے ”محتاط“خطاب کیا جسکا بیشتر حصہ تعمیرو ترقی اور اس سے متعلق پہلووٴں کے لئے مختص تھا۔وزیرِ اعظم نے بجلی، سیاحت، روزگار اور دوسرے تعمیراتی معاملوں پر بات کی۔اُنہوں نے جموں کشمیر میں زعفران کی کاشت کا انقلاب لانے کی بات کی اور یہاں کی حکومت کے پاس خوراک کی سپلائی سے متعلق 60 کروڑ روپے مالیت کا واجب الادا ٹیکس معاف کرنے کا اعلان کیا۔

وزیرِ اعظمنے جموں کشمیر کو ریلوے اور بجلی کی ترسیل کے ذریعے پورے ملک کے ساتھ مربوط کرنے کے منصوبوں کا ذکر کیا اور کہا کہ کشمیر میں موجودی توانائی کے وسائل کو ہندوستان کی طاقت میں بدلنے کے لیے ان کی حکومت سرگرم رہے گی۔گو مودی لداخ سے ہی واپس دہلی لوٹے، لیکن ان کی آمد کے سلسلے میں کشمیر میں بھی سخت سیکورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔وزیرِ اعظم کی آمد سے ایک رات قبل نا معلوم جنگجووٴں نے سرینگر کے مضافاتی قصبہ پانپور میں بی ایس ایف کی ایک کانوائے پر گھات لگا کر حملہ کر کے کم از کم نو جوانوں کو شدید زخمی کر دیا تھا جبکہ اس سے قبل اتوار کی شب لائن آف کنٹرول(ایل او سی) کے آر ایس پورہ سیکٹر میں فوج نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی افواج نیہندوستانی چوکیوں کو نشانہ بناکر دو جوانوں کو زخمی کر دیا ہے۔


وزیرِ اعظم نے اپنی تقریر کے دوران،پاکستان کے للکارنے کے علاوہ، اُس ”تبدیلی“کو نہیں چھوڑا کہ جو اقتدار میں آنے کے بعد اُنکی شخصیت میں آئی ہے کہ وہ محتاط انداز میں بولے تا۔چناچہ لداخ میں حالیہ برسوں کے دوران چین کی مداخلت تشویشناک ھد تک بڑھ گئی ہے اور اس سلسلے میں لداخ کی سرزمین پر آکر وزیرِ اعظم سے دو بول متوقع تھے لیکن اُنہوں نے دستورِ زباں بندی قائم رکھا۔

تاہم پاکستان کے حوالے سے تیور تیکھے کر کے اُنہوں نے چالاکی سے اُن لوگوں کی زباں بندی کی کہ جو اُن پر لداخ میں چین کے خلاف کچھ نہ بولنے کے لئے تنقید کر سکتے تھے۔چناچہ وزیرِ اعظم کی جانب سے پاکستان کے لئے سخت پیغام کو بعض لوگ وزیرِ اعظم کی تعریف کر سکتے ہیں لیکن اس سے کئی سوال بھی پیدا ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ وزیرِ اعظم نے پاکستان کو مسل دئے جانے کا پیغام دیا ،سوال یہ بھی ہے کہ مودی-نواز دوستانہ کے بیچ میں مودی کی طرش روی کا کیا اثر ہو سکتا ہے یا یہ بھی کہ اس ”دھمکی“کا پاکستان پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے ،وزیرِ اعظم نریندر مودی کے لئے ایک مسئلہ یہ پیدا ہونے لگا ہے کہ اُنکی سخت شبیہ بہت حد تک متاثر ہونے لگی ہے۔چناچہ اقتدار میں آنے سے قبل نریندر مودی کئی قواعد کی پرواہ کئے بغیر جو بے پر کی اُڑاتے رہے ہیں اقتدار کی لگام لگنے کے بعد اُنہیں محسوس ہوا ہے کہ وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز رہتے ہوئے آنکھیں دکھانا یا چھاتی کا سائز ماپنا اُتنا بھی آسان نہیں ہوتا ہے۔

ایسے میں اُنکے لئے پاکستان کو دھمکی دینا ایک ایسا نسخہ ہو سکتا ہے کہ جسے وہ سیاست کی باریکیوں اور پارلیمانی طریقہ ہائے کار سے نا بلد عوام کو ”لبھا“سکتے تھے جو اُنہوں نے کیا۔بصورتِ دیگر یہ بات تقریباََ طے ہے کہ نیوکلیر طاقت ہوتے ہوئے پاکستان داخلی طور کتنی ہی پریشانیوں کا شکار کیوں نہ ہو اسے جنگ کی صلاحیتوں سے مکمل طور عاری قرار دینا دانائی نہیں ہے البتہ یہ ایک واضح بات ہے کہ ہندوستان و پاکستان میں مسئلہ کشمیر کو لیکر دونوں ممالک کے سیاستدانوں کے لئے لوگوں کو لبھانے کا یہ آسان نسخہ ہے کہ وہ وقت بے وقت ایک دوسرے کے لئے دھمکیاں دیتے رہیں حالانکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ یہ سیاستدان آپس میں محوِ مذاکرات بھی ہوتے ہیں لیکن عوام کا موڈ بنائے رکھنے کے لئے پروسیوں کو ملیا میٹ کردینے کے جیسی تقاریر بھی کرتے ہیں۔

حالانکہ عوامی تقاریر اور باضابطہ مذاکرات میں بہت فرق ہے اور ہندو پاک کی سیاست میں یہ بات کسی تحقیق کی طلبگار نہیں ہے کہ تقاریر و سفارتکاری میں قطبین کا فرق رہتا ہے ۔ہندوپاک کو سیاسی طور جو کرنا ہو وہ سفارتکاری کے ذرئعہ انجام پا سکتا ہے اور دونوں ممالک کے حکمران عوام کا مزاج دیکھتے ہوئے اُنکے سامنے اُنکے کانوں کو اچھے لگنے والے سُر چھیڑ سکتے ہیں لیکن بعض اوقات عوامی فورموں پر ”یونہی“کہی جانے والی باتیں درپردہ ہورہی سنجیدہ کوششوں کو بھی بپری طرح متاثر کر سکتی ہیں۔


حالانکہ گجرات فسادات کی وجہ سے نریندر مودی کی جو تصویر بنی تھی وہ اقوامِ عالم کے لئے با العموم اور مسلمانوں کے لئے با الخصوص ڈراونی اور نا قابلِ قبول تھی ،ظاہر ہے کہ پاکستان میں بھی مسٹر مودی کو نا پسندیدگی کے ساتھ ہی دیکھا جا رہا تھا۔تاہم اپنی تقریبِ تاج پوشی میں پاکستانی ہم منصب نواز شریف کو بلانے اور پھر مدعو مہمان کی اس تقریب میں فی الواقع شرکت نے ایک طرح سے کراماتی اثرات پیدا کئے تھے۔

مودی کی اس پہل کی جہاں ملک کے مین اسٹریم میڈیا نے تعریفیں کیں وہیں پاکستان میں بھی اسکا خاصا اثر ہوا اور پھر آن کی آن میں ایسا لگنے لگا کہ مودی اور نواز شریف کے درمیان غیر متوقعہ باتیں ممکن ہو سکتی ہیں۔دونوں لیڈروں کے درمیان ماوٴں کے پیار پر باتیں ہونا اور پھر ایکدوسرے کی ماوٴں کے لئے ذاتی تحفہ جات کے تبادلہ کے جیسی غیر متوقع پیشرفتوں نے اچانک بننے والے دوستانہ ماحول کو اور بھی تقویت پہنچائی تھی۔

پھر لداخ آکر الزام تراشی کرنے سے قبل تک جس ضبط سے نریندر مودی نے کام لیا تھا اور دوسری جانب جس طرح نواز شریف ہندوستان کے ساتھ یارانہ بڑھانے کی ”تمنائیں“ طاہر کرنے لگے تھے اُس سے بھی عوام میں یہ تاثر جانے لگا تھا کہ دونوں ممالک کے مابین بندوقوں کے دہانوں کو چھوڑ کر انسانوں کی زبان میں بھی بات ہوسکتی ہے اور مسائل کا حل ہو سکتا ہے۔

تاہم وزیرِ اعظم کی حالیہ تقریر اور پھر اسکے پاکستانی جواب نے گھڑی کی سوئیوں کو اُلتا گھمانا شروع کر دیا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کے الزام کو”بے بنیاد“ قرار دیااور ساتھ ہی کہا کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت اور کسی بھی طرح کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح سے تیار ہے۔وزیرِ اعظم نریندر مودی کی تقریر کے اگلے دن پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے اسلام آباد میں نامہ نگاروں کو بتایاکہ پاکستان خود ہی دہشت گردی کا شکار ہے۔

اُنہوں نے کہا’ ’پوری دنیا یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں جبکہ 5000 سکیورٹی اہلکار بھیمارے گئے ہیں“۔اُنہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عسکری ادارے ملک کی سرحد کی حفاظت اور کسی بھی بیرونی جارحیت کو ختم کرنے کے لیے پوری طرح مستعد اور تیار ہیں۔اُنہوں نے یہ بھی کہا’ ’بد قسمتی کی بات ہے کہ یہ الزامات اس وقت آئے جب پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا اظہار کیا ہے“۔


ظاہر ہے کہ دونوں ممالک کے مابین کسی بھی طرح کی لفاظی جنگ چھڑ گئی تو اس سے امن کے لئے تیار ہونے والے ماحول کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور جیسا کہ دیکھا گیا ہے دونوں ممالک میں الفاظ کی جنگ چھڑ جانا اور پھر اسکو ہوا دینا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔چناچہ دونوں ہی طرف ایسی طاقتیں اپنا وجود منوا چکی ہیں کہ جو جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے حکمرانوں کی ٹانگ کھینچ کر انہیں مذاکرات کی میز سے واپس کھینچ کر انہیں سرحدوں پر فوجی جماوٴ کراسکتی ہیں۔ہو سکتا ہے کہ نریندر مودی کی لییہ میں کی ہوئی تقریر محض Public Consumptionکے لئے ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ طرش روی سے عوام Chargeہو جائیں تو پھر حکمرانوں کے لئے صلح جوئی کی باتیں کرنا بھی آسان نہیں رہتا ہے…!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :