مبارک ہو مبارک ہو نیا پاکستان مبارک ہو

منگل 19 اگست 2014

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

اسلام آباد میں گزشتہ چار پانچ روز میں دو بڑے نام نہاد سیاستدان اپنی اپنی دکان سجائے بیٹھے ہیں۔دونوں کی دکان کے سیلز مین (سیاستدان) اپنی دکان کے گاہک بڑھانے کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک بڑھک لگائے بیٹھے ہیں۔جاوید ہاشمی،شاہ محمود قریشی،شیخ رشید گویا عمران خان کی سیاسی دکان کے اہم سیلز مین ہیں۔دوسری طرف طاہر القادری کی دُکان پر چوہدری برادران بڑے سیلز مین ہیں۔

ایک طرف شیخ رشید تیلی لگاتا ہے تو دوسری طرف چوہدری برادارن ہاتھ میں کیلوں والاڈنڈا لئے کھڑے ہیں۔عوام کی کافی تعداد جن میں مردوخواتین ،بچے اور بوڑھے شامل ہیں ان کی سیاسی دکانوں کی چمک دمک میں اضافہ کرتے ہوئے گویا ان کے ہاتھوں یرغمال بنے بیٹھے ہیں۔
مبشر لقمان جیسے نام نہاد اینکر پرسن او ر صحافی ن لیگ سے ذاتی عناد کا بھرپور مظاہر ہ کر رہے ہیں اور تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی پارٹی بن کر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

مبشر لقمان خود ایسا فرشتہ ہے کہ ٹی وی پروگرامز میں ملک ریاض سے بحریہ ٹاؤن میں فری پلاٹ مانگنے سے باز نہیں آتا۔کئی ٹی وی چینلز حکومت کے خلاف اپنی بلیک میلنگ والی صحافت کرنے سے باز نہیں آ رہے یہ کونسی صحافت ہے؟۔ہم سب ذی شعور کو اس بات کا ماننا پڑے گا عمران خان اور قادری گروپ کے کچھ مطالبات جائز اور کچھ ناجائز ہیں مگر سارے سارے غیر آئینی ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن میں عوام کے مر جانے میں عوامی تحریک اور پولیس میں غفلت کا نتیجہ ہے جسے ہر صاحب عقل مذمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن یہ ایک حادثہ تھا جس میں دنوں پارٹیاں گناہ گار ہیں،ان کی اموات میں نواز شریف اور شہباز شریف کا براہ راست کوئی قصور نہیں۔الیکشن میں اگر دھاندلی ہوئی تو وہ ن لیگ نے نہیں کرائی اور نہ ہی الیکشن ن لیگ نے کرائے ہیں،ہاں تحریک انصاف جو جو حلقے کھلولنا چاہتی ہے کھول کر انہیں ووٹ گنوا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

موجودہ حکومت جو الیکشن کے بعد تشکیل ہوئی،جس میں اسمبلی اور قانون کا وجود ہے اس کو یہ لوگ اپنی مرضی سے ختم کرنا چاہتے ہیں کیا یہ ایک اچھی روایت ہے،کیا یہ ایک اچھی بات ہے کہ کسی ملک کے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو بار بار للکارا جائے اورکہا جائے کہ چلے جاؤ یا انہیں گرفتار کر لیا جائے۔خدا کے بندو اس طرح تو کسی نام نہاد دفتر سے کسی چپڑاسی کو فارغ نہیں کیا جاتا۔


ملک کی سٹاک ایکسچینج تیزی سے گر رہی ہے،ہر روز کروڑوں،اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔اسلام آباد میں ملازمت پیشہ ،کاروباری افراد کا مالیاتی اور طلباء و طالبا ت کاعلمی نقصان ہو رہا ہے۔پورے کے پورے شہر کی ٹریفک اور نظام زندگی کو درہم برہم کرنے والے دونوں نام نہاد سیاستدان چند کلومیٹر کے فاصلے پر عوام کے جتھے بنا کر تقریر آزمائی میں مصروف ہیں۔

یہ کونسی سیاست ہے یہ کونسی حکومت ہے،یہ کونسا انصاف ہے یہ کونسا انقلاب ہے۔احقر تین بار اس نام نہاد انقلاب او ر اس نام نہاد انصاف پر لعنت بھیجتا ہے۔
میرے علاوہ کئی کالم نویس اس بار کا بارہا تذکرہ کر چکے ہیں کہ اس وقت ملک میں ترقی کے کئی پروجیکٹ جاری ہیں اور جن کے پیسوں کا اجراء ہو چکا ہے۔خدانخواستہ حکومت کے جانے سے نہ صرف یہ پروجیکٹ مکمل نہیں ہونگے بلکہ ان پروجیکٹس کے سارے پیسے بھی ٹھیکیدار اور کمپنیاں لیکر رفوچکر ہو جائیں گی۔

یہ وقت نہ تو ری الیکشن کا ہے اور نہ ہی یہ وقت مڈٹرم الیکشن کا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ سارے حکومتی اوراپوزیشن ارکان مل کر ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لے آئیں تاکہ جب بھی تین چار سال بعد الیکشن ہوں تو کوئی بھی جماعت یا فرد الیکشنوں میں دھاندلی الزام عائید نہ کرے اور سارے الیکشن عوامی فنگر پرنٹ (بائیو میٹرکس سسٹم)سے ہوں۔


خان صاحب کبھی فرماتے ہیں کہ ہم سول نافرمانی کریں گے، بجلی،گیس اور ٹیلی فون کے بلز ادا نہیں کریں گے اور ٹیکس نہیں دیں گے۔کبھی عمران اور قادری کی طرف سے یہ دھمکی لگائی جاتی ہے کہ اب بندے ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں ،یہ لوگ تو پارلیمنٹ اور حکومت کو خدانخواستہ سپوتاژ کر دیں گے وغیرہ وغیرہ ۔کبھی عمران خان کے ساتھی مستعفی ہونے کی دھمکی لگاتے ہیں اور کبھی یہ کہتے ہیں ہم خیبر پختوانخواہ میں استعفی نہیں دیں گے۔

اس سارے احتجاجی ڈرامے میں عمران خان اور قادری گروپ ہر روز ہر گھنٹے بعد حکومت اور ان کے وزراء پر طرح طرح کے الزامات کی بارش کر رہے ہیں ،الزامات لگاتے ہوئے یہ دونوں حضرات بالکل نہیں سوچتے کہ جب کسی پر کیچڑ پھینکا جاتا ہے تو پہلے اپنے ہاتھ گندے ہوتے ہیں پھر دوسرے کے کپڑے یا چہرہ گندہ ہوتا ہے۔عمران خان کے قافلے میں موجود باالخصوص لیڈیز کے ساتھ نجانے کیا کیا ہو رہا ہے کیونکہ عمران خان کے ساتھ موجود ”ینگ جنریشن“ کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے اور اخلاقی کرپشن اور بے پردگی عروج پر ہے کیونکہ وہاں نوجوان لڑکے لڑکیاں (مکس اپ) ہیں۔

چلیں ایک بات ہے کہ قادری کی جماعت کے تمام ٹارگٹ اورمطالبات غیر قانونی سہی لیکن ان کی جماعت کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کنٹرول میں ہیں اور علیحدہ علیحدہ رہنے سہنے اور بیٹھنے کا انتظام موجود ہے وہاں بے پردگی اوراخلاقی کرپشن کے چانس بھی کم ہیں۔
حکومت کو دیکھا جائے تو ان کا رویہ احتجاجی جماعتوں اور لوگوں سے بہت ہی دوستانہ ہے۔حکومت نے کسی قسم کی سختی اور انتہا پسندی کا ہر گز مظاہرہ نہیں کیا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جتنا انتظامیہ کا قصور ہے اتنا ہی عوامی تحریک کے کارکنا ن کا۔معذرت کے ساتھ اگر اس روز قادری گروپ کے کارکنا ن صبر وتحمل سے کام لیتے یا انہیں کنٹرول کر لیا جاتا تو ان کا پولیس کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ ہوتا۔اب بھی وقت ہے کہ عمران خان،ان کے ساتھی اور قادری صاحب اپنے ساتھیوں سمیت عقل مندی کا کوئی راستہ نکالیں۔عوام اور حکومت کو مزید بلیک میل کریں۔

مردو خواتین،بچوں اور بوڑھوں کو ڈھال بنا کر سیاست کرنے والے یہ سیاستدان نہیں بلکہ بلیک میلر ہیں۔ٹیکس اور بل نہ دینے سے اور سول نافرمانی کا نہ صرف تحریک انصاف کے کارکان کا نقصان ہو گا بلکہ حکومت اور ریاست کو بھی اربوں کروڑوں روپے کا نقصان ہوگا۔ملکی ترقی میں موصوف اگر حصہ ڈال نہیں سکتے تو کم از کم ملکی ترقی کے راستے میں کوئی رکاوٹ تو نہ ڈالیں۔

تحریک انصاف کے اس عمل سے خود ان کی پارٹی نہ صرف بین ہو سکتی ہے بلکہ ان کا ووٹ بینک بھی ٹھس ہو سکتا ہے۔
بے جا جلسے جلوس کرنا ،عوام اور حکومت کو بلیک میل کرنا ،عوام اور تاجروں کا بزنس ٹھپ کرنا کہاں کی سیاست ہے۔بے گناہ عوام کو مروانے والے کہاں کے انصاف دلانے والے ہو سکتے ہیں،ایک منتخب شدہ حکومت کو گھر بھیجنے کی دھمکی دینے والے اور غیر آئینی رستہ اپنانے والے کون سے ایماندارسیاستدان ہیں۔عوام کا فیصلہ سب کے سامنے ہے،عوام کی کثیر تعداد نے دونوں احتجاجیوں کو ڈرامہ باز قرار دے دیا،دونوں احتجاجی جماعتوں کو آئینہ تو نظر آ گیا ہو گا؟مبارک ہو مبارک ہو سب کو نیا پاکستا ن مبارک ہو۔قائد اعظم نے ملک بنایا، قادری اور عمران نے ملک ”ونجایا“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :