چھوٹا انقلاب پانچ روپے کا بڑا انقلاب دس روپے کا۔۔۔۔!

منگل 19 اگست 2014

Imran Ahmed Rajput

عمران احمد راجپوت

پاکستان عوامی تحریک کے انقلابی مارچ اورپاکستان تحریکِ انصاف کے آزادی مارچ کواسلام آباد میں دھرنہ دئیے پانچ دن گزر چکے ہیں دونوں جماعتوں کے لیڈران کی جانب سے جذباتی اور جوشیلی تقریروں کا سلسلہ جاری ہے ۔دونوں جماعتوں نے اپنا اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کردیا ہے جس میں سرِ فہرست وزیراعظم نواز شریف کا مستعفی ہونے کا مطالبہ ہے جسے حکومتی سطح پر کئی بار مسترد کیا جا چکا ہے اب تک جو حکومتی موقف سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب کے استعفی کے علاوہ باقی تمام امور پر بات چیت ہوسکتی ہے جس میں چھوٹے میاں صاحب وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی پیشکش بھی سامنے آئی ہے۔

جبکہ یہ پیشکش دونوں احتجاج کرنے والی جماعتیں مسترد کرچکی ہیں اور اپنے پہلے موقف پر قائم ہیں ۔

(جاری ہے)

حکومت اور احتجاج میں شامل دونوں جماعتوں کی جانب سے کشیدگی میں اضافہ بڑھتا جارہا ہے ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے کارکنا ن جو مسلسل پانچ دنوں سے اسلام آباد کی سڑکوں پر کھلے آسمان تلے آزادی اور انقلاب کی امید لیے بیٹھے ہیں انھیں پر امن کس طرح اور کب تک رکھا جاسکتا ہے جنھیں دونوں جماعتوں کے قائدین اس کمٹمنٹ کے ساتھ اسلام آباد لائے ہیں کہ حکومت کا ڈھرن تختہ کرکے ہی واپس لوٹنا ہے لہذا اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے قائدین اپنے کارکنان سے کی گئی کمٹمنٹ کو پورا کرتے ہیں یا نہیں اور اس کے لیے کیا حکمت ِعملی اپناتے ہیں،ابھی تو بظاہر دونوں قائدین ایک دوسرے کے پیچھے چلنے اور ایک دوسرے کو آگے کرنے کی پالیسی پر گامزن نظرآتے ہیں، خاں صاحب کے ریڈزون میں داخل ہونے کے بیان پر علامہ صاحب نے وزیراعظم کے استعفے سے متعلق 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی تاکہ دیکھا جاسکے کہ خاں صاحب کس حد تک جاسکتے ہیں اور اس کے ردعمل میں حکومت کیا حکمتِ عملی اپناتی ہے اسی بات کو بھانپتے ہوئے خاں صاحب نے بے پَرکی راگنی الاپتے ہوئے سول نافرمانی کی آڑ میں اپنے کارکنان سے 48 گھنٹے کی اور مہلت لے لی تاکہ دیکھا جاسکے کے علامہ صاحب کیا حکمتِ عملی اپناتے ہیں۔

اب چونکہ علامہ صاحب کی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں صرف چند گھنٹے باقی ہیں (جب تک ہمارا کالم شائع ہوگا علامہ صاحب کی ڈیڈ لائن ختم ہوچکی ہوگی )ہمارا خیال ہے علامہ صاحب کی دیڈ لائن ختم ہونے کے بعد علامہ صاحب بھی ریڈ زون میں داخل ہونے کا اعلان کرنے کے بجائے ابھی فلحال ملک کے دیگر علاقوں میں جماعت وحد ت المسلمین کے زریعے احتجاجی دھرنے دینے کا اعلان کرنیگے اس طرح حکومت کو ٹف ٹائم دے کر پریشر میں لیا جاسکے گا اور دوسری طرف خاں صاحب کی ڈیڈ لائن ختم ہونے پر خاں صاحب کیا اسٹریجی اپناتے ہیں یہ دیکھا جائے گا۔

قارئین ایسی خراب صور تحال میں یہ انقلابی و آزادی پہلے آپ پہلے آپ کی پالیسی پر گامزن رہے توبجائے حکومت کے ان دونوں جماعتوں کا دھڑن تختہ ہوجائے گا عوام پریشان ہونا شروع ہوجائیں گے کراؤڈ کم ہونا شروع ہوجائے گا ، علامہ صاحب کے شرکاء تو شاید کسی حد تک اپنے قائد کے پیچھے رہیں لیکن شاید خان صاحب کے شرکاء میں اتنا برداشت کا مادہ نہ ہو۔

دوسری طرف حکومت کو مزید وقت پے وقت ملنے پر حکومت کو اپنی اسٹریجی بنانے میں مہلت ملتی جائے گی ابھی وہ جس بوکھلاہٹ کا شکار ہے اگر اس بوکھلاہٹ اور پریشر سے باہر نکل گئی تو علامہ صاحب اور خاں دونوں کو شدید نقصان اٹھانے پڑے گا اور دونوں عوامی حمایت سے الگ محروم ہوسکتے ہیں۔ دونوں جماعتوں نے حکومت کو 48,48 گھنٹے کا ٹائم دیکر اپنے لئے مشکلات کھڑی کر لی ہیں حکومت پریشر سے باہر نکلتی نظر آرہی ہے آج وزیراعظم صاحب زرداری صاحب کے مشورے پر پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لے رہے ہیں جس میں ان کی کامیابی یقینی ہے ایسے میں انکے موقف میں اور پختگی آئیگی جس سے عوامی سطح پر ہمدردی حاصل کی جاسکتی ہے کل تک جو کے پی کے کی حکومت تحلیل ہونے پر حکومت پریشان نظر آتی تھی آج اس نے تحریک ِ عدم اعتماد کے ذریعے اُس کا بھی توڑ ڈھونڈ لیا ہے لہذا علامہ صاحب سے زیادہ مسائل خاں صاحب کے لیے کھڑے ہوسکتے ہیں اس لیے عمران خان کو چاہئے کے دھوم دھڑکا ختم کریں لوگ نئے پاکستان کے نام پر آپ کے ساتھ آئے ہیں نہ کہ کوئی میوزیکل شو میں شرکت کرنے ۔

لہذاسنجیدہ بنیادوں پر علامہ صاحب کے ساتھ مشترکہ حکمتِ عملی اپنائیں ، ایک پلیٹ فارم پر آکر مشترکا چارٹر آف دیمانڈ بنائیں اور اس کے تحت اپنی پر امن مشترکہ اسٹریجی پر عمل درآمد ممکن بنائیں ۔یاد رکھیں جتنا ٹائم لیں گے سب میاں صاحب کے حق میں جائے گا۔ اور آزاد پاکستان اور انقلاب یونہی دھرا کا دھرا رہے جائے گا۔قارئین کل صبح ہمارے پاس ایک ٹیکسٹ میسج آیا جو کہ ایک لطیفہ تھا سوچا آپ سے شیئر کروں۔ایک صاحب کہیں جارہے تھے کہ اچانک انھیں رفائے حاجت ہوئی وہ صاحب باہر بنے رفائے حاجت کے کیبن کی طرف بڑھے کیبن کے دروازے پرلکھا تھا چھوٹا انقلاب پانچ روپے میں بڑا انقلاب دس روپے میں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :