آخر انقلاب ہی کیوں ضروری ہے

منگل 19 اگست 2014

Shahzad Ch

شہزاد چوہدری

ریا ست کی تشکیل کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں اور یہی مقاصد ریاست اور شہری کے حقوق و فرائض کا تعین کرتے ہیں ۔ریاست اور افراد ایک آئین کے تحت زندگی گزارنے کے پابند ہوتے ہیں ۔ دیگر فرائض کے علاوہ ریاست کا اولین فرض امن و امان کا قیام ، عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے اور اس کی خوشحالی کی ضمانت دینا ہے ۔ اگر کوئی ریاست یہ ذمہ داری پوری نہیں کر سکتی تو اسے عوام سے ٹیکس وصول کرنے اور اس پر حکومت کرنے کا کوئی اخلاقی حق اور اختیار نہیں ۔

وطنِ عزیز اس وقت ہمہ جہت زوال کا شکار ہے ۔ معاشی،معاشرتی، مذہبی اور سیاسی الغرض ہر سمت اندھیرے ہی اندھیرے ہیں ۔مگر ان سب اندھیروں کی بنیادی وجہ ملک کا موجودہ فرسودہ نظام ہے جس نے صرف چند خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کیا اور عام عوام میں غلامی اور مفلسی بانٹی ۔

(جاری ہے)


ہم آزاد تو پر امن اور خوشحال زندگی گذارنے کے لئے ہوئے تھے ۔وہ امن اور خوشحالی کہاں ہے ؟ اپنے حقوق کی بات کرنے والے لوگوں کو پولیس قتل کر رہی ہے ۔

موت کا رقص جاری ہے ۔ بے وجہ ، بے سبب خاندان اپنے پیاروں سے محروم ہو گئے ۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں تو جنگ جاری ہے مگر لاہور ۔۔۔۔۔۔؟یہاں لاشیں کیوں گر رہی ہیں ؟ دہشت اور وحشت کا راج کیوں ہے ؟ ریاست اور حکومت کا وجود کہاں ہے؟شائدحکومت اور سیاسی جماعتیں امن و امان اور عوامی خوشحالی کے فرض کو بھول کر کرسی کی بندر بانٹ اور اندر بانٹ میں مصروف ہیں ۔

وہ اپنی حکومت کو ہر صورت برقرار رکھنا چاہتے ہیں چاہے اس کے لئے انہیں لوگوں کی لاشوں پر ہی سے کیوں نہ گذرنا پڑے۔ہر قیمت پر حکومت کا خواب عذاب بن چکا ہے۔
کتنا بدل گیا ہے تیرے شہرِ زر کا رنگ
کہ بچپن اداس اور دکھی ہیں جوانیاں
حکومت کی رِٹ نامی چڑیا کب کی اڑ چکی البتہ حکومت کی رَٹ شائد موجود ہے۔شہری پابند ، دہشت گرد اور وحشت گرد مکمل آزاد اور سیاسی اہلکار یکسر آزاد۔

یہ ملک مرضی پورہ کا روپ دھار چکا ہے ایک دوکاندار سے لیکر مل مالک تک، ایک کلرک سے لیکر آفیسر تک،ایک کونسلر سے لیکر وزیر اعظم تک سب اپنی اپنی مرضی کر رہے ہیں جو جتنا طاقتور ہے اس کی اتنی ہی بھینسیں ہیں ۔خود ٹیکس دینا نہیں چاہتے اور عوام کا خون نچوڑنے پہ تلے ہوئے ہیں ۔انتظام و انصرام کے ادارے اپنی حیثیت کھو بیٹھے ہیں ۔ کو ئی بھی ادارہ اپنا فرض ادا نہیں کر رہا ۔

ہر سمت جنگل کا قانون ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر شہر میں جنگل پھیل گیا ہے قانون کی حکمرانی خواب سے سراب تک آ پہنچی ہے۔اور اس کی بنیادی وجہ موجودہ کرپٹ سیاسی نظام ہے جس کی وجہ سے نا اہل لوگ زمامِ حکومت سنبھال لیتے ہیں ۔ اور لوٹ مار کا وہ بازار گرم کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ یہاں ایک کلرک کے لیے تو ایف اے پاس ہونا شرط ہے مگر ارکانِ اسمبلی کے لیے کو تعلیمی معیار ہی نہیں ۔

یعنی ان پڑہ اور جاہل قانون سازی کریں گے اور ساری انتظامیہ کو کنٹرول کریں گے۔یہ قوم کے ساتھ ایک شدید و جدید مذاق ہے ۔ یہ نام نہاد رہبر اسی جابرانہ نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔کہتے ہیں سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونا چاہئے !!!!بھئی کون سا سسٹم ؟؟؟ جس میں کوئی عام آدمی ایک ایف آئی آر تک درج نہیں کروا سکتا ۔چالیس چالیس سال تک لوگوں کو انصاف نہ ملے ۔

جس میں مجرم کو کسی کا ڈر نہ ہو ۔ جس میں عوام کے محافظ عوام کو ہی گولیاں ماریں ! جس میں جاگیر دار معصوم بچوں کے بازو تک کاٹ دیں ۔جس میں خادم اعلیٰ کے دیے ہوئے چیک باونس ہو جائیں !! جس میں عورت کی عزت کا تحفظ نہ ہو !جس میں لوگوں کو تعلیمی طور پر پس ماندہ رکھا جائے ۔جس میں غریب لوگوں کے بچے ہمیشہ کلرک اور امیروں کے بچے ہمیشہ افسر بنیں !جس میں صحت کی کو ئی سہولتیں نہ ہوں !جس میں عوام دہکتی ہوئی انگارہ بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کریں اور تم سو سو گاڑیوں کے قافلوں میں سفر کرو وہ بھی عوام کے پیسوں پر ۔

جس میں جمہوریت بادشاہت کا روپ دھار لے ۔۔۔۔۔۔اس نظام میں بس ایک ہی چیز ہے ان رہبر نما رہزنوں کو لوٹ مار کے وسیع مواقع۔۔۔۔ان لٹیروں کا اس نظام کو برقرار رکھنے پر اتنا بڑا اجماع ہے جتنا امت کا کسی اور بات پر نہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ ملک کہ ان تمام مسائل کا حل کیا ہے ؟ کیا کوئی چھوٹی موٹی تبدیلی ان تمام مسائل کو حل کر سکتی ہے ؟ میرے خیال میں یہ اب ممکن نہیں رہا ۔

اب بہت دیر ہو چکی ہے ۔ ملک کی حالت اس مریض جیسی ہے جس کو اک میجر سرجری کی ضرورت ہو۔ ا ب ایسے مریض کو پینا ڈول سے زندہ نہیں رکھا جا سکتا ۔ لہذاملک میں امن و امان کے قیام،ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل،معاشی ناہمواریوں کے خاتمے ،اور عوام کے مسائل حل کرکے انکے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے لئے ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت انقلاب لازم ہو چکا ۔اس کے لئے ڈاکٹر طاہرالقادری کا دس نکاتی ایجنڈا مشعل راہ ہے ۔

اس کو مزید ہمہ جہت بنا عوامی ترقی کی منازل کی طرف تیزی سے بڑھا جا سکتا ہے ۔اور اگر امامان سیاست نے اس کا ادراک نہ کیا اور موجودہ حالات بدستور رہے تو ہم ایک ایسی بند گلی میں داخل ہو جائیں گے جس کی دوسرے جانب کوئی رستہ ہی نہیں !
آج جب ملک عزیز کا ۶۷ واں یوم آزادی منایا جا چکا تو تبدیلی اور انقلاب چاہنے والے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی قیادت میں اسلام آباد میں جا گزیں ہیں لاکھوں کی تعداد میں موجود ان افراد کی بات کو سنا جائے ۔

ہمیں اس مسئلے کا جلد از جلد اور مستقل حل نکالنا ہو گا۔سب کو مل کر سوچنا ہو گا۔
اب ہمارے پاس شائد وقت بہت کم ہے دیر کی صورت میں اندھیر کے سوا کچھ نہیں ۔اور اگر خلوصِ نیت سے اہلِ سیاست اور قوم کمر بستہ ہو جائے تو ہم امن و امان اور خوشحالی کی منزل کو یقینا پا لیں گے ورنہ
اب کہ بھی ناکام رہے تو لوگ کہیں گے
دیوانوں کو منزل کی پہچان نہیں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :