آگے سمندر اور پیچھے کھائی

اتوار 17 اگست 2014

Sabookh Syed

سبوخ سید

اصلاحاتی کمیٹی اور کمیشن کے قیام کے بعدعمران فاتح تھے۔
انہوں نے بدترین سیاسی غلطی کرتے ہوئے لانگ مارچ کا جوا کھیلا اور اپنی جماعت کو داؤ پر لگا دیا ۔ان کے بنیادی مطالبات منظور ہو چکے تھے جس کے بعد انہوں نے غیر آئینی مطالبات شروع کر دیے ۔
وزیر اعظم کا استعفیٰ اور مڈ ٹرم الیکشن
اور یہ مطالبات ڈاکٹر طاہر القادری کے بھی ہیں ۔

اس سے تو بعض لوگ یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوں گے کہ دھاندلی کا الزام محض شور شرابہ تھا ،اصل مقصد وزیر اعظم کو منصب سے ہٹانا ہے ۔لیکن اس کام کے لیے انہیں پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد لانی ہو گی اور تحریک عدم اعتماد کے لیے ان کے پاس قومی اسمبلی میں عددی اکثریت نہیں ۔
دوسری بات پارلیمان میں موجود پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں عمران خان کے اس مطالبے کے خلاف ہیں۔

(جاری ہے)

وہ کہتی ہیں کہ پارلیمان کی اصلاحاتی کمیٹی (جس میں تحریک انصاف کے ارکان بھی شامل ہیں ) اور سپریم کورٹ کے کمیشن کے قیام کے بعد لانگ مارچ اور احتجاج کی ضرورت نہیں ۔
عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف کے وزیر اعظم ہو تے ہوئے کوئی کمیشن قبول نہیں ۔سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اگر نواز شریف کمیشن پر اثر انداز ہو سکتے ہیں تو پھر بقول عمران خان وہ تو الیکشن کمیشن ،پنجاب حکومت اور سپریم کورٹ پر اس وقت بھی اثر انداز ہو گئے تھے جب وہ وزیر اعظم نہیں تھے ۔

تو اب کیا کریں ؟؟؟
میرے خیال میں عمران خان کے پاس ممکنہ راستے یہ ہو سکتے ہیں ۔
1۔کمیشن کے سامنے دھاندلی کے تمام ثبوت پیش کریں اور موجودہ حکومت کا چلتا کریں ۔
2اپنے صوبے میں جاکر وفاقی حکومت کے خلاف قرارداد منظور کر ائیں۔
3۔عمران خان (بقول ان کے ،اس دھاندلی زدہ پارلیمان میں اپنے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے احتجاجا استعفیٰ لیں اور دوبارہ انتخابات میں حصہ لیں تاکہ انہیں علم ہو کہ عوام ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ۔


عمران خان صاحب کی تحریک اگر سو فیصد ان کی اپنی ہے اور ان کے پیچھے خفیہ قوتوں کا ہاتھ نہیں تو وہ اس وقت ہارے ہوئے جواری کی طرح ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں جہاں آگے سمندر اور پیچھے کھائی ہے ۔ان کی گفت گو اور لہجے میں تاثر دینے والا مصنوعی اعتماد حالات خراب کرنے کی ایک دھمکی ہے اور عمران خان ایسی صورتحال میں اپنی سیاست کو بچانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔

اس وقت پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے کولیگ عمران خان اور ان کے قیادت اور کارکنوں کے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ یہ بحران ٹل سکے ۔ یہ نہ ہو کہ بعد میں پچھتاوا ہو ۔
عمران خان دنیا میں پاکستان کی پہچان ہیں ،قومی ہیرو ہیں، ان کی پاکستان کے لیے شوکت خانم اسپتال اور نمل کالج اور یونی ورسٹی کے حوالے سے شاندار خدمات ہیں ۔وہ پاکستان کے لیے مستقبل میں بھی بہت کچھ کرنے کا جذبہ ،صلاحیت اور توانا عزم رکھتے ہیں ۔ وہ نوجوانوں کی امید ہیں ۔ وہ پاکستان کی امید ہیں ۔ انہیں بھی چاہیے کہ ان کا لب و لہجہ ان کے وقار اور معیار کے ساتھ میچ کھاتا ہو۔ ان کا انداز گفت گو اتنا مہذب اور شائستہ ہونا چاہیے کہ ہم ان پر پہلے زیادہ فخر کر سکیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :