جمہوریت کے خلاف کون ہے؟

ہفتہ 16 اگست 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت دنیا میں جس نظام کے چرچے اور جسے بہتر نظام کہا جا رہا ہے وہ جمہوریت ہی ہے اس سے بہتر نظام دنیا ابھی تک متعارف نہیں کرا سکی اور یہ بھی سچ ہے کہ جمہوری ، بادشاہتوں، آمریتوں کے حامل ملکوں کے افراد کے رویوں میں زمین آسمان کا فرق ہے جمہوری ملکوں میں تحمل رواداری، برداشت ،انسانی حقوق کی پاسداری ،مساوات جیسے سنہری اصول رائج ہیں اور وہ ترقی کر رہے ہیں جبکہ بادشاہتوں اور آمرانہ طرز حکومت کے حامل ملکوں میں ان کا فقدان ہے بلکہ انسانی حقوق اور احترام آدامیت کی بات کرنے والوں کو قابل گردن زنی تصور کیا جاتا ہے اسی لیے یہ ملک ترقی کے میدان میں بھی پیچھے ہیں اور یہاں شورشیں بھی برپا ہیں۔

لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ جمہوری ملکوں کو یہاں تک پہنچنے کے لئے کتنا طویل اور کٹھن سفر اختیار کرنا پڑا اور ان میں کون سی قدر مشترک تھی اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان ممالک میں انسانی شعور کی بلندی وہاں کے تعلیمی نظام کی بدولت بدرجہ اتم موجود تھی جس نے انہیں قوم بننے کے درجے پر فائز کر دیا جبکہ ہم جیسے ملکوں میں جمہوریت کا واویلا تو کیا جاتا ہے مگر جمہوریت دکھائی نہیں دیتی ہمارے ہاں ان رویوں کو ہی ابھی تک پروان نہیں چڑھایا جا سکا جنہیں جمہوری کہا جاتا ہے یہاں ایک چھوٹا موٹا سیاستدان، سرکاری افسر ہی فرعون کو مات دینے سے پیچھے نہیں اس کے پاس کوئی چھوٹی موٹی کرسی ہونی چاہیے وہ انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتا ،اور یہ رویہ عمومی طور پر معاشرے کے ہر طبقے اور شعبوں میں موجود ہے یہاں سوال کرنے والے والے کے راستے میں مشکلیں پیدا کی جاتی ہیں حالانکہ اپنے کام کے حوالے سے سوال کرنا ہر ایک کا بنیادی اور آئینی حق ہے،ہماری سرکاری و سیاسی و مذہبی اشرافیہ خود آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے جبکہ مہذب جمہوری ملکوں میں اس بات کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔

(جاری ہے)

پاکستان میں اگر جمہوریت فروغ نہیں پا سکی تو اس کی بنیادی وجہ بھی جمہوری حکمرانوں اور سیاستدانوں کے غیر جمہوری روئے اور کردار رہا ہے آمرانہ سوچ کے حامل جمہوری سیاستدانوں نے ہمیشہ ” جمہور“ کو نظر انداز بھی کیا اور انہیں رعایا سمجھا جاتا ہے جن کے کوئی حقوق نہیں ہوتے اب یہی دیکھ لیجیے کچھ دن جاتے ہیں کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمہوریت کی حفاظت اور اس کی بالادستی کے لئے متفقہ قراداد منظور کی ،قومی اسمبلی نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی بقاء، ترقی، سلامتی صرف اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے جبکہ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے واضح کیا ہے کہ طاقت سے مینڈیٹ کی طرف دیکھنے والوں کی آنکھیں پھوڑ دینگے آئین کو جو بھی چھیڑے گا اس کے خلاف بغاوت جائز ہے آئین و پا رلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوریت کا جو حامی ہو گا میں اس لشکر کا سپاہی ہوں،جمہوری راستہ اور جمہور کے تعاون سے ہی پاکستان زندہ باد ہو سکتا ہے۔

لیکن عوام کو یہ سوال پوچھنے کا حق تو دینا چاہیے کہ جس جمہوریت کی آپ بات کرتے ہیں اس میں” جمہور“ کہاں ہیں جب لوگوں کے جائز مسائل حل نہیں ہوں گے حمکران طبقہ اور ان سے جڑے ہوئے لوگ امیر سے امیر تر ہوتے جائیں گے جبکہ ان کا کوئی کاروبار بھی نہ ہو اور باقی ”جمہور“ روٹی روزی سے بھی تنگ ہوں ، ان کے ساتھ ظلم و زیادتی پر انصاف کے دروازے بند کر دئے جائیں تو پھر ان کے پاس احتجاج کے علاوہ اور کون سا راستہ رہ جاتا ہے اور جب عوام کا جم غفیر اپنا جائز حق مانگنے اور عوام کو سیاسی مفاداتی جمہوری غلامی سے نجات دلانے کے لئے احتجاج کرنا چاہے تو انہیںآ ہنی دیورایں لگا کر ان کا حقہ پانی بند کر دیا جائے اسے کون جمہوریت کہتا ہے ایسی جمہورت کے محافظوں کے ہوتے ہوئے جمہوریت کیسے پروان چڑھ سکتی ہے؟
پاکستان جیسے ملکوں میں جمہوریت ایک ”سہانا“ خواب تو ہو سکتا ہے اس کے فیوض و برکات عام آدمی تک اس وقت نہیں پہنچ سکتے جب تک سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری روئے پروان نہیں چڑھتے، اور دوسرا جمہوری پروسس ہے جس کے زریعے ایسا ہو سکتا ہے ،،لیکن پاکستان میں جمہوریت اس کی ساخت کے مطابق رائج ہی نہیں اور نہ ہی یہاں جمہوری روئے ابھی پیدا ہوئے ہیں ،اس کے لئے ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو انسانی زہن کو سوچنے ،کھولنے کے ساتھ آزادانہ سوال اٹھانے کی طرف لے کر جائے ،، جب تک ایسا نہیں ہوتا یہاں حقیقی جمہوریت نہیں آسکتی۔


جبکہ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں آئی جس نے ملک کی تعمیر وترقی میں وہ کردار ادا کیا ہو جو ہندوستان میں آزادی سے قبل اور بعد میں کانگریس نے نبھایا، نہ ایسی کوئی عوامی قیادت پاکستان کے نصیب میں آئی جو گاندھی اور نہرو کی طرح رائے عامہ کو تابع بنا کر رکھتی۔یہاں رائے عامہ کا ہمیشہ مذاق اڑیا گیا،کیا جمہور کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے علاقے کے منتخب نمائندے کے خلاف الیکشن کیمشن میں جا کر درخواست دے سکے کہ اس نمائندے نے اپنے وعدے سے انحراف کیا ہے اس لئے اسے نااہل قرار دیا جائے ؟جواب نفی میں ہو گا اس لئے کہ ”یہاں جمہور صرف ووٹ کا نام ہے۔

جو ڈبے میں ڈالنے کے کام تو آسکتا ہے مگر اس کی اپنی حالت تبدیل نہیں ہو سکتی آج تک کی تاریخ ہی دیکھ لیں جمہوریت نے پاکستانی عوام کو کیا دیا؟ پنجاب میں گزشتہ دس دنوں سے عوام کے ساتھ جو کچھ جمہوری حکومت نے کیا کیا کسی مہذب جمہوری ملک میں اس کا تصور کیا جاسکتا ہے؟اس پر ڈھٹائی دیکھیے حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سب عوام کی بہتری بھلائی اور حفاظت کے لئے کیا گیا ،،کیا سر پیٹنے کے لئے یہ دلیل کافی نہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :