مجذوب کا روپ!

ہفتہ 16 اگست 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

”کیا ہوا؟ کیوں کانپ رہے ہو؟ ارے تم تو ڈرے ہوئے معلوم ہو رہے ، کوئی بھوت دیکھ لیا کیا؟“
”خوف ناک بہت خوف ناک ! ہہ تھ تھر ، مجھے سردی لگ رہی ہے“
”ارے ! گرمی سردی لگ رہی ہے، کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا ہے ؟“
”خواب نہیں ،ہاں خواب ہی سمجھ لو مگر سوتے ہوئے نہیں، جاگتے ہوئے، اف کتنا خوف ناک تھا ، اس کی آنکھیں کتنی لال تھیں ، جیسے خون اترا ہوا ہو، گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہا تھا، کبھی ہا ہا ہا ہا کرکے قہقہے لگاتا ، کبھی آواز اور شکل کو ڈراؤنا بناتا ، دانت پیستا“
”کس کو دیکھ لیا؟کہاں دیکھ لیا ، اس کی تصویر ہی کھینچے جاؤگے یا کچھ بتاؤ گے بھی؟“
”بتاتا ہوں بتاتا ہوں،پہلے مجھے ٹھنڈا پانی پلاؤ!“
”ٹھنڈا پانی! ارے ابھی تو تمھیں سردی لگ رہی تھی کمبل اڑایا ہے تمھیں“
”پلیز صبر کرو ، سوال مت کرو، مجھے پانی پلاؤ پہلے پھر بتا تا ہوں“
######
”ہاں اب بتاؤ! کیا ہوا“
”ابھی تمھاری طرف آرہا تھا تو ایک مجذوب نما شخص میلے کچیلے کپڑے پہنے ، گلے میں موٹے موٹے دانوں والے تسبیح نما ہار پہنے ،بیس انگلیوں میں انگوٹھیاں پہنے ،ہاتھ لہراتا ،مکے ہوا میں لہراتا، نعرے لگاتا جا رہا تھا:
”بتایا تو ہے ہم کو کیا چاہیے، موٹا سا ایک ڈنڈا چاہیے“
”ہا ہا ہا اچھا! بہت دل چسپ! تم ڈر کیوں گئے؟ تمھیں چاہیے تھا اس سے پوچھتے بابا! ڈنڈا کس لیے چاہیے ؟ کیا کروگے موٹا ڈنڈا لے کر“
” پہلے پہل مجھے بھی مجذوب کا یہ جملہ دل چسپ لگا تھا،بعد میں مجذوب نے جب روپ بدلا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ،میں نے پوچھا تو کہنے لگا بابا جاؤ اپنا کام کرو! میں سیاست دانوں کی ترجمانی کر رہا ہوں، مجھے بڑے حیرت ہوئی ، کہنے لگا مجھ پہ حیران ہو رہے ہو ، اپنے سیاست دانوں پہ نہیں حیران ہوتے ؟ ان کو آزادی کے دن بھی چین نہیں، در اصل وہ بے چارے بھی کیا کریں ان کو بھی موٹا سا ڈنڈا چاہیے، میں اگر آرمی چیف ہوتانا! تو ان سب کو سمندر میں پھینکوادیتا ہا ہا ہا ہا، کتنا مزا آتا نا!جب سمندر کی مچھلیوں کی خوراک بنتے تو پھر پوچھتا ہاں بچوؤ! اب بتا ؤ آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوا؟ ۔

(جاری ہے)

۔۔ہا ہا ہا ، ایک ایک کرکے باری باری سب کو مچھلیوں کے حوالے کرتا ، مچھلیاں کسی سیا ست دان کو ناشتے میں کھاتیں ، کسی کو دوپہر کے کھانے میں کسی کو شام کی چائے کے طور پر، کسی کو رات کا کھانا سمجھ کے مزے لیتیں ہا ہا ہا ہا! کسی کو کولڈ ڈرنک سمجھتیں، کسی کو ہاٹ کافی ، کسی کوکولڈ کافی، کسی کو بسکٹ سمجھتیں ، کسی کو پیسٹری ، کسی کو کوفتے ،کسی کو پسندے ، کسی کی بریانی بناتیں ، کسی کا زردہ، کوئی ان کی کھیر بنتا، کوئی سلاد،ہا ہا ہا ہا، کوئی آم کی طرح رسیلا اور خوش ذائقہ ہوتا ، کوئی سیب کی طرح طاقت کا خزانہ ہوتا، کوئی وٹا من سی ہوتا، کوئی ڈی تو کوئی ای ہا ہا ہا !“
”پھر تم نے کیا کہا؟“
میں نے کیا کہنا تھا ، مجھے تو یوں لگا جیسے مجھے ہی سمندر میں پھینک دے گا ، بات اتنے سنجیدہ لہجے میں کرتا پھرایک لمبا سا قہقہہ لگا تا ، اف کتنے خوف ناک قہقہے تھے اس کے ، میں کھسک آیا ، یہ تو مجھے لگاجو بھی تھا بات صحیح کر رہا تھا، واقعی ہمارے سیاست دانوں کو موٹا سا ڈنڈا چاہیے، بھلا 14اگست کو جو دھماچوکڑی مچانے جا رہے ہیں، اس کی بھی کوئی تک ہے؟“
”ہوں! کہتے تو تم دونوں صحیح ہو“
”کون دونوں؟“
”تم اور مجذوب“
”تم بھی عجیب ہو ، بھلامیرا مجذوب سے کیا تعلق؟“
” اتنے ناراض کیوں ہو رہے ہو، مجذوب ہی تھا نا بھوت تو نہیں، اور کہہ بھی بالکل ٹھیک رہا تھا، ویسے تو تم بھی کسی مجذوب سے کم نہیں بس ہو ذرا صاف ستھرے مجذوب ، اپ ٹو ڈیٹ قسم کے مجذوب ہو، تمھاری بات بھی صحیح ہے، خدا کرے ان سیاست دانوں کو عقل آجائے لیکن لگتا نہیں عقل آئے گی، ہر ایک دوسرے کے مقابلے میں سوا سیر رہنا چاہتا ہے“
”تمھاری بھی کوئی کل سیدھی نہیں، مجھے مکھن بھی لگا رہے ہو اور مجذوب بھی بنا رہے ہو“
”ارے تو کیا ہوا، مکھن ہی لگا رہا ہوں نا منجن تو نہیں لگا رہا نا،اور ہاں مجذوب بنا نہیں رہا ،بتا رہا ہوں، بنے کو بھلا کیا بنانا؟ “

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :