غیظ و غضب کے دن

جمعرات 14 اگست 2014

Abdul Rauf

عبدالرؤف

عربوں میں عرصہ دراز سے جاری آمریت کے خلاف اُٹھنے والی تحریکوں پر ظلم و ستم ہوا تو ان دنوں کو غیظ و غضب کے دن گِردانا جاتا ہے۔انگلش میں (Day of Rage.)کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں پھر عربوں میں بیدا کی لہر(Arab spring)جو تیونس، الجزئر مصر، بحرین، لیبیا وغیرہ میں جاری رہی۔ عرب آمریت جو عرصہ دراز سے کرپشن، لوٹ مار، ظلم و ستم پر مبنی تھی وہ ان تحریکوں کے نتیجے میں منہ کے بل آ رہی۔

خوصاً تیونس اور مصر میں دو بڑی آمریتوں کا خاتمہ ہوا ۔ شروع میں تو یہ تحریک عوام اور اپوزیشن نے شروع کیں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاج خونی ہوتا چلا گیا اور ساتھ ساتھ مفاد پرست مغرب نے عربوں کے اندرونی احتجاج میں بھرپور مداخلت کی۔ اسی مداخلت کا موقع خود عرب میڈیا نے فراہم کیا۔ اس میں سب سے بڑا ہاتھ سوشل میڈیا کا تھا۔

(جاری ہے)

شام کے دار حکومت دمشق سے 90کلو میٹر کی دوری پر درعا نام کا ایک شہر ہے جہاں پر مارچ 2011ء میں چند بچوں نے دیواروں پر بشارالاسد خاندان کی 1970ء سے قیام آمریت کے خلاف چند نعرے لکھ دئیے۔

آرمی نے ان بچوں کو گرفتار کر لیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس پر عوام نے احتجاج شروع کر دیا اپوزیشن نے بھی موقع سے فائدہ اُٹھا کر احتجاج کا ساتھ دیا۔ جمعہ18مارچ2011ء کو یہ احتجاج خونی رنگ اختیار کر گیا جو اگلے چند دن میں فرقہ واریت میں تبدیل ہوگیا۔ آج شام میں140000لوگ مارے جا چکے ہیں، ملک کا تمام انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا۔ اسرائیل کی تسلی ہوئی اس کا ایک اور دشمن اپنے ہی گھر میں لڑ کر ختم ہوگیا۔

بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی۔ شام کی فوج میں بغاو ت ہو گئی۔ سنی گروہ علیحدہ ہوگئے۔ تمام دنیا میں سنی جہاد کا مخالف امریکا اور برطانیہ شام میں سنیوں کا ہمدردی کا اظہار کرنے لگا۔ امریکا برطانیہ فرانس، ترکی، قطر، سعودی عرب بغاوت میں اسلحہ اور پیسہ دے رہے ہیں اور دونوں طرف روز ، ایران اور لبنان کی شیعہ فورس حزب اللہ شام اس کے ساتھ کھڑی ہے۔


مصر میں 1981ء سے قائم حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف اتحریر سکوائر قاہرہ سے اُٹھنے والی تحریک آج کہیں نظر نہیں آتی۔ مصری انقلاب ٹویٹر اور فیس بک پر جاری ہو۔ اسرائیل کے ہمدرد حسنی مبارک کو 11فروری2011ء کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ فیلڈ مارشل محمد الیکشن سے پہلے تک اقتدار سنبھالا۔ لوگ التحریر اسکوائر پر پھر جمع ہوگئے۔ جون 2012ء کے الیکشن میں اخوان المسلمین کے 84سال کی جدوجہد کے بعد پہلی دفعہ اقتدار میں آئی۔

مگر یہ اسلامی خیالات کی حامل حکومت نہ مغرب کو قبول تھی اور نہ ہی سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو چنانچہ خون خرابہ کے بعد آج جنرل السیسی کی قیادت میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا اور اسرائیل غزہ جنگ میں اسرائیل کو خاموش معاونت فراہم کر رہی ہے۔ مصری انقلاب بالآخر فرعونوں کی غلام گردشوں میں ہی گرفتار رہ گیا۔
لیبیا میں لمبے عرصے سے موجود معمر قذافی کی آمریت بھی جدید جمہوریت بہا کرے گئی۔

1980ء سے قیام پر حکومت بظاہر تو مغرب مخالف بھی تھی مگر سکہ بند بادشاہی نظام سے باہر نہ نکل سکی۔ عوام اور فوج آمنے سامنے آئے۔ امریکا ، فرانس اور برطانیہ نے NATOکے پلیٹ فارم سے حکومت مخالف باغیوں کو مدد فراہم کی 20اکتوبر2011ء کو سرت جو کرنل قذافی کا آبائی علاقہ تھا وہاں سے فرار ہونے کی کوشش میں عوام کے ہتھے چڑھ گئے۔ یہ کسی بھی حکمران عوام کے ہاتھوں بدترین قتل تھا جو ساری دنیا نے دیکھا۔

بعد میں قذافی مخالف حکومت قائم ہوئی مگر لیبیا میں سول وار نہ رُک سکی آج لیبیا میں اسلامی ملیشیا جنگ میں مصروف ہے اور لیبیا تباہ ہو رہا ہے۔ لیبیا میں اب تک 30سے40ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یاد رہے کرنل قذافی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رقوم فراہم کرتے رہے۔ 1990ء میں لاکر بی کے حادثے میں مرنے والوں 2003ء میں بہت بڑی رقم جرمانے کے طور پر ادا کی اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرکے مغرب کو دیا۔

مگر قصہ درد ناک موت اور لیبیا کی سول وار کی صورت میں نکلا۔ حکومت مخالف احتجاج اور حکومتوں کی تبدیلی کی کوششیں اور کامیابی مصر، تیونس، الجزائر، یمن، لیبیا بحرین میں جاری رہیں۔ ان تمام ممالک میں آمریت قائم تھی۔ جمہوری احتجاج سے کام شروع ہوا، پھر سول وار کی فضا پیدا ہوئی۔ فوج اور عوام آمنے سامنے ہوئے۔ مغرب نے اسلحے اور پیسہ کی صورت میں مدد فراہم کی۔

یاد رہے یہ تمام آمریتیں مخالف ہرگز نہیں تھیں بلکہ ان کو القاعدہ اور اسلامی جہادی قوتوں کے خلاف معاونت فراہم کرتی رہیں۔
اب آتے ہیں پاکستان کے موجودہ حالات کی طرف اور انقلاب اور آزادی مارچ کی طرف۔ پاکستان میں مسلسل خاندانی اور شخصی حکومت قائم نہیں ہے البتہ دو پارٹیاں لمبے عرصے سے بار بار اقتدار میں آئیں۔ خاندان جمہوری نظام رائج ہے۔

یہ بات بھی درست ہے کہ 1970ء کے الیکشن سے لے کراب تک ہونے والے تمام الیکشن صاف شفاف نہیں رہے۔ ہماری جمہوریت چور راستوں کی بدولت قائم ہوئی ہے، یہ راستے ہر پارٹی کے اندر موجود ہیں۔ مسلم لیگ نے الیکشن کے بعد حکومت بنائی تو نواز شریف صاحب نے محترمہ کی مفاہمت کی پالیسی کو جاری رکھا۔ یہ وقت کی ضرورت بھی تھی۔ مسلم لیگ ن نے یوتھ کے متعلق جتنے بھی منصوبے شروع کیے ان کی ایک بڑی سیاسی وجہ عمران خان تھے، نوجوان طلبہ تیزی سے عمران خان کی طرف مائل ہو رہے تھے۔

لاہور اور پنجاب میں اپنا قلعہ مضبوط کرنے کے لیے شہباز شریف صاحب نے اَن تھک محنت کی، لیکن الیکشن میں کیے گئے وعدوں کے برعکس مسلم لیک کی حکومت دو بڑے مسائل بجلی اور مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ خان صاحب نے نظر آنے والے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے انتخابی دھاندلیوں پر لانگ مارچ کا ارادہ کیا۔ جو ثابت کرنا مشکل کام ہوگا۔

پھر اچانک اتنا زور و شور لگایا جا رہا ہے کہ عمران خان صاحب نے نیشنل سیکورٹی کانفرنس میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی حکومت کی کوئی بھی مفاہمتی دعوت قبول کی یہاں تک حکومت کی مددگار سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ملاقات سے انکاری ہوگئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسا طرزعمل تب اختیار کرتیں ہیں جب انھیں اندرونی اور بیرونی تھپکی حاصل ہوتی ہے، اسلام آباد کا گھیراؤ کرکے نئے الیکشن کا مطالبہ کیا جائے گا۔


یاد رہے بھارت میں بھی ایک انتہا پسند حکومت وجود میں آچکی ہے۔ نریندر مودی کو کسی بھی قسم کا موقع فراہم کرنا حماقت ہوگی۔ اگر انقلاب اور آزادی مارچ میں کسی بھی قسم کا سانحہ پیش آتا (اللہ کرے ایسا نہ ہو) چاہے وہ کسی تیسری قوت نے کیا ہوا الزام نواز شریف پر آئے گا۔ اس بڑے عوامی اجتماع میں تشدد کا عنصر آنے کا خطرہ لاحق رہے گا۔ زرداری حکومت کے خلاف ڈاکٹر صاحب اپنا انقلاب موخر کر کر کے باہر چلے گئے تھے، عدالت نے بھی ان کے انقلاب پر شک کا اظہار کیا تھا اگر آپ کو یاد ہو کہ عدالت کے اندر اٹارنی جنرل صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کیسی ہمدردیاں دکھائی تھیں پھر ڈاکٹر صاحب جو پہلے عدالت کی تعریفیں کر رہے تھے بعد میں چیف جسٹس صاحب کی مشرف کے ساتھ حلف نامے کی تصویریں میڈیا پر دکھاتے رہے۔

یہ بات تو عیاں ہے کہ ڈاکٹر صاحب پارلیمنٹ کی طاقت نہیں رکھتے وہ بھی سڑکوں پر یہی حکومت کا تختہ الٹنا ایسے چاہتے ہیں۔ اس انقلاب کی خاطر وہ اپنے سیاسی کارکنوں کو جذباتی پیغام دے چکے ہیں اگر کسی انقلابی نے واپسی کا انقلاب سے پہلے واپسی کا ارادہ کیا تو انقلاب کی خاطر اس کی قربانی کی جائے گی، یہ بھی ٹھیک ہے کہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو لاشوں کی سخت ضرورت ہمیشہ ہی لاحق رہتی ہے جو بعد میں انہی لاشوں پر شہید کی یاد میں امن شمیں روشن کرتے ہیں۔

موجودہ جمہوریت تقسیم شدہ اکائیوں کا نام ہے۔ یہ تین اکائیاں، ن لیگ، تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی صورت میں موجود ہیں۔ یہ تینوں کو اپنی اپنی فکر لاحق ہے۔ یہ درست ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اقتدار کو اپنی خاندانی وراثت خیال کرتیں ہیں۔ نواز شریف صاحب کی بدقسمتی ہے کہ وہ حکومت میں آکر نہ وہ کبھی اپوزیشن کو راضی کرسکے ہیں نہ ہی آرمی سے اپنے معاملات ٹھیک کر پائے۔

سیاسی وعدے بھی ہمیشہ ایسے کیے جو کبھی وفا نہ ہوئے۔ دوسری طرف خان صاحب 4سیٹوں سے اب پورے الیکشن اور پھر نواز شریف کی حکومت کو ہی الٹنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے اپنے انٹرویوز میں وہ یہ اشارہ دیتے ہیں کہ اگر جوڈیشل کمیٹی کا مطالبہ تسلیم کر لیا جائے گا تو احتجاج ترک کرسکتے ہیں۔ لیکن اب حکومت گرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کچھ حقائق کا خیال بھی کر لیا جائے خان صاحب کے سینٹ میں ہاتھ خالی ہیں حکومت گرانے کے باوجود اور اگلے الیکشن جیت کر بھی قانون میں تبدیلی کی پوزیشن نہیں ہوگی۔

مسلم لیگ ن ہو یا پیپلز پارٹی مرکز میں ان کے اقتدار کا فیصلہ پنجاب کرتا ہے۔ مسلم لیگ پنجاب میں اپنی عوامی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے سڑکوں، پلوں اور بجلی کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ جو کسی نہ کسی حد ن لیگ کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کریں گئے۔ ویسے خان صاحب کی جمہوریت ابھی آج کل زرداری صاحب پہ تنقید کا ارادہ نہیں رکھتی۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی ذات پر زیادہ بحث کی ضرورت اسی لیے نہیں کہ وہ اپنے جوش خطابت میں سول وار کا اشارہ دے چکے ہیں ۔

ان کے کارکن کیل اور ڈنڈوں سے لیس نظر آتے ہیں۔
پاکستان کی اندرونی اور بیرونی صورت حال کا جائزہ لیں توہمارے مشرقی اور مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہیں۔ آپریشن شمالی وزیرستان افغانستان، بھارت اور NATOکے مفاد میں نہیں ہے ۔ ایک تو مفرور گروہ افغانستان میں NATOاور افغان افواج کو تنگ کریں گئے اور دوسرا پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پایا جاسکے گا۔

یہ آپریشن سول حکومت اور فوج مل کر کر رہے ہیں۔ خان صاحب شمالی وزیرستان والوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار تھے مگر سیاسی مذاکرات کے لیے آمادہ نظر نہیں آتے،یا پھر کرکٹ کی تکینک کو آزما کر بیٹسمین کو دباؤ میں لانا چاہ رہے ہیں۔ خیر اب تک جتنے بھی مسلم ممالک مسلح بغاوتوں کا سامنا کر رہے ہیں،اِن میں کچھ باتیں مُشترک ہیں۔یہ سب ڈکیٹیرشپ کے خلاف عوامی احتجاج سے شروع سے ہوئے،دیکھتے ہی دیکھتے دونوں طرف سے پرتشدد کاروایئاں شروع ہو گیئں۔عوام اور فوج کے سامنے آتے ہی امریکہ ،مغرب اور دیگر عرب ممالک نے جمہوریت کی بحالی کے نام پہ اسلحے اور پیسے کی شکل امداد فراہم کی،یہ تمام ممالک خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :