مارچوں کا موسم اور مشرف کا بھوت

جمعرات 14 اگست 2014

Shahid Iqbal

شاہد اقبال

تیسری دنیا میں بسنے والی انسان نما مخلوق کے بہت سے مشترکہ دکھوں میں سے ایک دکھ یہ بھی ہے کہ یہاں آمر اقتدار سے دھتکارے جانے کے باوجود طاقت ور رہتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے باوجودسوکھے پتوں کی طرح لرزتے رہتے ہیں۔ مشرف کو اقتدار کے کوچے سے بے آبرو ہو کر نکلے چھ سال ہونے کو آئے ہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کی ساری کوششوں کا محور آج بھی مشرف کو بچانا یا اسے لٹکانا ہے۔

نواز شریف بھاری اکثریت لے کر حکومت میں آئے لیکن صرف ایک سال بعد ہی ان کی حکومت پر کپکپی طاری ہے ۔ انقلابوں اور آزادی مارچوں میں گھری ہوئی پاکستان کی ناتواں جمہوریت ایک دفعہ پھر کسی متوقع گینگ ریپ کا شکار ہونے کے خیال سے لرزہ بر اندام ہے اور تیسری دنیا کی انسان نما مخلوق زندہ باد مردہ باد آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے نعرے لگانے میں حسب معمول مست ہے!
اس امر کو سمجھنے کے لیے افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ طاہر القادری صاحب کے انقلابی اور عمران خان کے آزادی مارچ نے پاکستان میں جس سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا ہے اس کا فائدہ ان انقلابیوں کو ہو نہ ہو سابقہ آمر پرویز مشرف کوضرور ہوگا۔

(جاری ہے)

بہت سے ذہنوں میں اس سوال نے جنم لینا شروع کر دیا ہے کہ کہیں آزادی مارچ مشرف کو آزادی کا پروانہ تھموانے کے لیے تو نہیں رچایا جا رہا؟ کہیں انقلاب کی ساری تان اس انتشار پر تو نہیں ٹوٹے گی جس کا فائدہ اٹھا کر مشرف سارے گناہوں سے دھل دھلا کر پردیس سدھار جائے گا؟ کہیں وہ جن کے ہاتھ میں اصل اقتدار کی لاٹھی ہے اپنے پیٹی بھائی کو بچانے کے لیے انقلابیوں اور نئے پاکستان والوں کو اپنی کئی دہائیوں سے آزمودہ ٹکٹکی پر تو نہیں نچا رہے ؟ سوالوں کا اژدحام ہے اور عام پاکستانی حیران ہیں کہ کس پر ایمان لائے اور کس سے برا ء ت کا اظہار کرے ؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ ۱۴ اگست کو مارچوں کی یلغار کرنے والے انصافیوں اور انقلابیوں کے بیان کیے گئے مقاصد میں بعد ِ مشرقین ہے۔

ایک طرف قادری سارے نظام کو تلپٹ کر کے ایک خیالی انقلابی کونسل کے ذریعے ملک پر راج کرنے کے سپنے خود بھی دیکھ رہے ہیں اور اپنے پیرو کاروں کو بھی دن رات یہ بے سرو پا خواب دکھا رہے ہیں تو دوسری طرف عمران خان انقلابی اصلاحات اور مڈ ٹرم انتخابات کا نعرہ لگا کر اپنے جنونی پیروکاروں کے پہلے سے ابنارمل جنون کومزید بڑھکا رہے ہیں۔ سیاست کاایک عامی طالب ِ علم بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ دونوں کے مطالبات نہایت غیر سنجیدہ ہیں اور ان کا پورا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔

اگریہ دونوں اپنے ا ن مطالبات پر ڈٹ جاتے ہیں اور ڈیڈ لاک کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو پھرفرشتے کون سا انقلاب لے کر آسمانوں سے اتریں گے یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ قادری صاحبکے بارے میں اگرچہ یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی لیکن عمران کے متعلق یہ ماننا ممکن نہیں کہ وہمحض اپنے نام کے نعرے لگوانے کے لیے لاکھوں لوگوں کو اسلام آباد میں اکٹھا کر رہے ہیں۔

جاہ پسندی اور خود نمائی کا شک قادری صاحب پر کسی حد تک کیا جا سکتا ہے عمران یقینا اس سے مبرا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خود نمائی کا شوق بھی نہیں اور مطالبات بھی وہ ہیں کہ جن کو پورا کرنا کسی حکومت کے لیے جیتے جی ممکن نہیں تو پھر مارچوں کاآخری مقصد کیا ہے؟ مارچوں کو مشرف کی رہائی والی تھیوری سے منسلک کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ان مارچوں کا مقصد اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ حکومت کو اتنا کمزور اور بے حال کر دیا جائے کہ یہ مشرف کے معاملے پر گھٹنے ٹیک دے۔


طاہر القادری کے ارد گرد کھڑے چہروں پر نظر ڈالی جائی تو مشرف کے لیے ان کے دل میں اٹھنے والی ہوک کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ مشرف کی سرکار سے فیض اٹھانے والوں میں چوہدری برادران اورشیخ رشید سب سے نمایاں تھے اور اب ستم ظریفی یہ ہے کہ قادری صاحب کے انقلاب کی مشاورتی باگ بھی انہی کے ہاتھ میں ہے۔ مشرف کے کھائے گئے نمک کو حلال کرنے والے صرف قادری صاحب کے انقلاب کی رتھ پر ہی سوار نہیں عمران خان کے نئے پاکستان کی ویگن بھی مشرف سے محبت کرنے والوں سے بھری ہوئی ہے۔

پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین مشرف کے محبوب ترین وزر ا میں سے ایک تھے۔ وہ اور ان جیسے موقع پرستوں کا ایک جتھا اس وقت عمران کواسی طرح گھیرے ہوئے ہے جیسے کبھی یہ مشرف کے گرد قوالی کیا کرتا تھا۔ عمران کو ایک اندھے مارچ کی طرف دھکیلنے میں یقینا اس جتھے نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جذباتی کپتان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کے مشیروں کی نیتوں پر بڑے بڑے سوالیہ نشان مشرف والی تھیو ری کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔

اگلے روز مشرف نے طویل مدت بعد اپنے پارٹی کارکنوں سے خطاب کر کے ان خدشات کو طقویت دی ہے کہ مارچوں کی دھول کسی خاص ایجنڈے کے تحت اڑائی جا رہی ہے۔
پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ مشرف کے خلاف بنائے گئے غداری کے مقدمات پر آمریت کے لیے مستقبل کے دروازے کھلے رکھنے کی خواہش پالنے والے کچھ حلقوں کو سخت تکلیف تھی۔ چونکہ میڈیا اور عدلیہ اس خواہش کی راہ میں رکاوٹ تھے اس لیے پہلے میڈیا کے ایک بڑے حصے کومختلف بھونڈے الزامات کے ذریعے بے توقیر کیا گیا پھر عدلیہ پر الزامات کا کیچڑ اچھال کر اسے بے وقعت کرنے کی کوشش کی گئی۔

میڈیا اور عدلیہ کے بعد اب آخری وار حکومت پر کیا جا رہا ہے ۔ دکھ یہ ہے کہ حق گوئی اور بے باکی کا پرچارک عمران خان جو سیاست کی غلاظتوں میں گھرنے سے پہلے ایک سیدھا ، سچا اور کھرا انسان تھا اس ساری کمپین میں سب سے آگے ہے ۔ لیڈری کے نشے میں شاید عمران خان یہ بھول گئے ہیں کہ جب میڈیا بے توقیر ہو جائے، عدلیہ سے اعتماد اٹھ جائے اور حکومت گالی بن جائے تو پھر انقلاب کے پھریرے اڑاتی سیاسی جماعتیں بھی بے معنی ہو جاتی ہیں اور اعتماد کے قابل صرف فرشتے ہی رہ جاتے ہیں۔

عمران پچھلے کئی سالوں سے نون لیگ کے خلاف نفرت کے جو بیج اپنے ماننے والوں کے دلوں میں بوتے رہے ہیں اب حکومت گرا کر اس کا پھل کاٹنا چاہتے ہیں لیکن نفرت کی یہ فصل کون کاٹے گا اور اس کا پھل کون کھائے گا اس کا فیصلہ شاید عمران کے ہاتھ میں نہ رہے۔کون جانے مشرف کا بھوت کب تک پاکستانیوں سے ناکردہ گناہوں کا خراج وصول کرتا رہے لیکن کم از کم عمران کو اس سیاہی سے اپنی سیاست داغدار نہیں کرنی چاہیے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :