غزة پر ٹوٹتی قیامت اور مسلمانوں کی حالت

منگل 12 اگست 2014

Ahmad Hamza

احمد حمزہ

آج جب اسرا ئیل فلسطین پر آتش ودھن برسا رھا ھے تو روے زمین پرکوء بھی ایسا اسلامی ملک نھیں جو آگے بڑھ کے پنجہ یہودسے مسلمانوں کو نجات دلا سکے۔ایسا ھونا بھی ممکن نھیں کیونکہ پوری امت کے حکمران شرق سے لیکرغرب تک ،یا تو اپنے اقتدارکی بقا ء کی جنگ میں مصروف ھیں یا اپنے اپنے مسلک کو بچانے میں۔شام سے لیکر عراق تک اور مصر سے لیکرلیبیا تک خون مسلمان اتنا ارزاں ھے کہ تاریخ انسان میں اسکی مثال نھیں ملتی۔

امت کے حکمرانوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ھے۔ عالمی صہیونی ماسٹر مائنڈ حالات کوکس طرح مرضی کا رخ دے رہے ہیں۔ اس کی ابتدا تیونس سے ہوتی ہے، عرب اسپرنگ کے نام سے تیونس سب سے پہلے عوامی غضب کا نشانہ بنا ۔ پھر لیبیا میں قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے نیٹو کی چھتری تلے نام نہادمجاہدین کو مجتمع ہونے دیا گیا۔

(جاری ہے)

یہ ا یسا نیک جہادتھا جس کے لے اسلحہ اور دیگرعسکری وسائل نیٹو کی جانب سے فراہم ہورہے تھے بلکہ نیٹو کی فضائیہ براہ راست حکومتی فوجوں کو نشانہ بناتی رہی ۔

اب وہی قوتیں ان نام نہاد مجاہدین کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ ادھرعراق میں بھی وہی کھیل کھیلا جارھا ھے جو لیبیا میں کھیلا گیا۔ اس کے بعد مصر کی باری تھی جہاں پر اخوان کی حکومت قائم ہونے دی گئی اس کے ساتھ ہی اخوانیوں کی اسلامی اصلاحات کو انتہا پسندی سے تشبیہ دے کر ایک سال بعد ہی مصری فوج کو اپنے ہی عوام پر ٹینک چڑھادینے کا حکم دیا گیا جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔

اور کس طرح خون مسلمان سے مصر کی گلیاں رنگیں ھویں۔ شام میں شیعہ سنی سول جنگ کرانا مقصود تھا جو اب زوروں پر ہے اور کسطرح مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ھیں ۔اسطرح تو دشمن بھی نھیں کرتے جیسے مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ھوے ھیں۔ اسرائیل اور امریکہ کیلئے یہ حالات نعمت کے درجے سے کم نھیں ۔جہاں تک مسلم ممالک کی حکومتوں کا تعلق ہے تو ان کی کوئی وقعت نہیں رہی ہے عرب لیگ ہو یا او آئی سی انہوں نے مسلمانوں سے زیادہ مغربی مفادات کیلئے کام کئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب ان تنظیموں میں ہمت ہی نھیں کہ آواز تک اٹھا سکیں ۔

اس وقت جبکہ اسرائیل تمام دنیا کی ناک تلے غزہ کے مسلمانوں پر آگ اور لوہے کی بارش کررہا ہے کسی بھی ایک اسلامی ملک نے کھل کر مزاحمت نہیں کی۔ اگر پوری دنیا کے نقشے پر نطر ڈالیں تو کوی بھی ایسا اسلامی ملک نھیں جہا ں پر خون مسلم سے ہولی نہ کھیلی جا رہی ہو۔ افغانستان ہو یا پاکستان جہاں پر طا لبان اپنی مرضی کا اسلام کا جھنڈا لگانا چاھتے ھیں ۔

شام ہو یا عراق جہاں پر داعش اپنے کو اسلام کا بانی سمجھتی ھے۔سعودی عرب اسلامی دنیا میں اپنے مسلک کی اور ایران اپنے مسلک آبیاری میں لگے ہوے ہیں دنیا کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ دنیا میں ہر طرف مسلمانوں کو ہی عبرت کا نشانہ بنا کر رکھ دیا گیا۔رمضان جیسے ماہ مقدس مہینے میں بھی مسلمانوں کی جان خلاصی نہیں ہو سکی۔ آج فلسطین میں غزہ کی اس پٹی میں ملعونِ زمانہ اسرائیلی یہودیوں نے ایک بار پھر تباہی مچا رکھی ہے۔

اور عالمی امن کی ٹھیکیدار اقوامِ متحدہ کو سانپ سونگھ گیا ہے اور سونگھ بھی جانا چاہے کیو نکہ ہم نے ہی دشمن سے مدد کی آس لگا لی ھے۔آج جب ہم دنیا کا کوی نیوز چینل آن کریں تو ہرطرف مسلمانوں کی ماؤں کی؛بچوں کی آہ و بکا ہی سنای دیتی ہیں اور یہ چیخیں نہیں سنای دیتی تو صرف حکمرانوں کو جو اپنے اقتدار کے نشے میں خواب خرگوش کے مزے لے رھے ھیں۔


یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا
ایک طرف غزہ کے فلسطینی اور دوسری طرف جدید ترین اسلحہ سے لیس اسرائیلی بری و فضائی فوج۔ عالمی قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ھے ہسپتالوں تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکہ سمیت یورپی ممالک کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔

اسرائیل نے اپنے جن تین اسرائیلی نوجوانوں کی ہلاکت کو جواز بنا کر غزہ پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا ان تینوں اسرائیلیوں کے اغوا میں اسرائیلی انٹیلی جنس موساد اور داخلی سکیورٹی کا عمل دخل تھا کیونکہ اسرائیلی حکومت پہلے ہی سے رمضان کے مہینہ میں غزہ میں کارروائی کا فیصلہ کر چکی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے غزہ پر 2800 فضائی حملے کئے ہیں جو عالمی برادری کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔

اسرائیلی طیاروں اور ڈرونز نے درجنوں مساجد‘ سکولوں‘ مدارس اور سرکاری انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیلیوں کے سر پر خون سوار ہے۔ اس وقت غزہ میں پانی‘ بجلی‘ گیس اور سیوریج کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ 90 فیصد فلسطینی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔اسرائیلی بربریت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے ایک سکول پر تباہ کن حملہ کرکے بچوں سمیت 15 فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا۔

موجودہ لڑائی میں اسرائیل نے دس دن تک غزہ پر مسلسل فضائی بحری اور بری فوج کی بمباری کے بعد زمینی کارروائی شروع کی تھی
اسرائیلی فوج نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی ہے اور عالمی امن قائم کرنے والے ادارے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر رہےجیسے ہی ایک یہودی فوجی غوا ہوتا ہے بیس منٹ کے اندر بان کی مون اسکی رھایُ کا مطالبہ کر دیتا ھے۔

اقوام متحدہ کا مقصدہی یہودیت اور عسا یٰت کی خدمت کرنا تو وہ اپنا کام اچھے طریقے سے سرانجام دے رہی ھے۔آج اگر کسی اسلامی ملک میں کوی عیسا یء اقلیت بغاوت پیدا کر دے تو یہی اقوام متحدہ فوراَ اسکی آزادی کی قراردادیں منظور کر لی گی۔اور اس اسلامی ملک کے حصے بخرے کر کے رکھ دے گی۔ہمارا مسلٰہ یہ ھے کہ ہم نے شر سے خیر کی امید رکھی ہوی ھے۔امریکی ایوان نمائندگان نے اسرائیل کے لئے ہنگامی بنیاد پر امداد کی منظوری دے دی ہے،امریکی ایوان نمائندگان میں اسرائیل کے لیے امداد کی فراہمی کے حق میں 395جبکہ مخالفت میں صرف 8ووٹ آئے،جس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ھے کہ کس طرح امریکا اسرائیل کی مدد کر رہا ھے۔

امدادی رقم اسرائیل کے آئرن ڈوم انٹرسیپٹرمیزائلوں کیلئے استعمال کی جائے گی،جن میں سے بیشتر گزشتہ تین ہفتوں کے دوران غزہ سے آنے والے راکٹوں کو گرانے کیلئے استعمال ہوچکے ہیں ،اسرائیل کو یہ امدادی رقم ہنگامی بنیادوں پر فراہم کی جائے گی۔ اسرائیل کی آبادی لاہور سے بھی کم 79 لاکھ اور رقبہ صرف 20ہزار 770مربع کلومیٹرز ہے، اس کے باوجود اس نے 1948میں اپنے قیام کے بعد سے 57اسلامی ممالک کو اذیت میں مبتلا کررکھا ہے۔

اور کسی بھی اسلامی ملک میں ہمت نھیں کہ وہ اس کے سامنے کھڑے ہوکر اس کا ہاتھ روک سکے۔اور وہ خصوصاً نہتے فلسطینیوں پر اپنی مکمل مرضی اور حقارت سے جارحیت اور درندگی کو جاری رکھے ہوئے۔ اسرائیل کی مسلح افواج 17لاکھ 97ہزار 960مرد اور 17لاکھ 13ہزار 230خاتون اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ اسرائیل اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 5.69فیصد فوجی اخراجات کی مد میں خرچ کرتا ہے جو دنیا میں چوتھا بڑا تناسب ہے۔

اسرائیل کی مجموعی قومی پیداوار کا حجم 273ارب 20کروڑ ڈالرز اور فی کس آمدنی 36ہزار 200ڈالرز ہے، افراط زر 1.7فیصد ہے۔ مجموعی آمدنی 109ارب 70کروڑ ڈالرز اور اخراجات 113ارب 90کروڑ ڈالرز ہیں ۔ 80ارب 74کروڑ ڈالرزکے زرمبادلہ ذخائر ہیں۔ اسرائیل میں یہودیوں کی آبادی 75.1فیصد، مسلمان 17.4فیصد اور عیسائی دو فیصد آباد ہیں۔ مصر، غزہ کی پٹی، اردن، لبنان، شام اور مغربی کنارے کے ساتھ اس کی سرحدیں ایک ہزار 68کلومیٹرز طویل ہیں۔

تعلیم پر خرچ 5.6فیصد اور خواندگی کی شرح 97فیصد ہے۔ اسرائیلی فوج نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی ہے اور عالمی امن قائم کرنے والے ادارے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔ خون مسلم بہہ رہا ہے اور اس وقت تک بہتا رہے گا جب تک مسلم اْمہ نیل کے ساحل سے کاشغر تک ایک نہیں ہو جاتی۔لیکن ایسا ہونا قیامت تک ممکن نھیں کیونکہ یہ وہ پرندہ ہے جو بلی کو دیکھ کے آنکھیں بند کر لیتا ھے۔

میں بطورِ پاکستانی جب ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی غرض سے اپنے اردگرد نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے کوئی بھی چہرہ ایسا نظر نہیں آتا کہ جو ہمیں اس خوف کے عالم میں دلاسہ دے سکے مشکلات سے نجات دلانا تو کوسوں دُورکی بات ھے۔اور پھر بات ذہن میں بات آتی ھے کہ جیسے عوام ھو گی ویسے ھی حکمران ان ہونگے۔اور یہ ہمارے اپنے اعمال ہی ایسے ہیں کہ جو حکمرانوں کی صورت ہم پر مسلط ہو چکے ہیں۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :