ن لیگ نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا

اتوار 10 اگست 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

1999 کے اواخر میں جمہوریت پرہونیوالے شب خون کے بعد شریف فیملی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اپنی جگہ الگ داستان ہے، 1988 سے 1999 کے گیارہ سالہ دور میں جو سیاسی روایات پروان چڑھیں وہ بھی دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں، ان چارادوار میں جس طرح سے ریاستی تشدد ،ظلم وجبر کے قصے فسانے سامنے آئے وہ انسانیت کیلئے شرمناک تھے۔ بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں پنجاب میں پی پی کے جیالوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اپنی جگہ الگ داستان اورپھر بینظیربھٹو کے دور حکومت میں ن لیگ کی ”تحریک نجات “ کے دوران کارکنوں سے جو سلوک روا رکھا گیا وہ بذات خود شرمناک فعل تھا۔

خاص طورپر ن لیگ کے حوالے سے یہ الزامات بڑی شد ومد سے لگایاجاتاہے کہ اس جماعت نے جس انداز میں سیاسی وفاداریاں خریدنے بیچنے کے علاوہ انتقام کی جو داستان رقم کی ہے ،آنیوالا دور شاید اس کی کوئی مثال پیش نہ کرسکے۔

(جاری ہے)

یہ گیارہ سالہ دور جس انداز میں انتقامی سیاست کو رواج دے گیا اس کی مثال نہ تو ماضی میں ملتی ہے اورشاید آنیوالے سالوں میں بھی نہ مل سکے۔

خیر 1999 میں مشرفانہ ٹیک اوور کے بعد شریف فیملی کے ساتھ جدہ یاترا کو روانہ کردی گئی، پھر جب مشرف کااقتدار زوال پذیرتھا تو کسی نہ کسی طرح سے شریف فیملی (ایک معاہدہ کے تحت) وطن واپس آگئی پہلے 2008 کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان پھر ”میثاق جمہوریت “ کی ڈور کام آگئی اور حلیفوں کی ناراضگی مول لیکر ن لیگ انتخابات کیلئے میدان میں کود پڑی ۔

کہاجارہا تھا کہ شریف برادران میں تبدیلی واقع ضرور ہوئی ہے، ان کے رویئے بھی پہلے جیسے نہیں رہے لیکن جوں جوں پوٹلی کھلتی گئی راز بھی افشا ہونے لگے کہ دس سالہ جلاوطنی بھی انہیں تبدیل نہیں کرسکی۔ وہی آمرانہ رویہ ،وہی انتقامی انداز ، اس کا ادراک تو خیر 2008 سے 2013کے دوران نہیں ہوسکا البتہ 2013 کے انتخابات میں دلائی گئی کامیابی کے نتیجہ میں اصلیت کھل کرسامنے آنے لگی ہے۔


سابقہ دور کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی ایک صوبے کی حاکمیت پر خاموش ہوکر بیٹھنے والی نہیں تھی ، اپوزیشن کی بڑی جماعت کی حیثیت سے اسے جو کردار اداکرنا چاہئے تھا وہ ادا نہیں کیاجاسکا بقول سابق صدر آصف علی زرداری (یہ انٹرویو انہوں نے اپنے دور صدارت کے اختتام پر دیاتھا) وہ 2013سے 2018کے دوران ”میثاق جمہوریت “ کو نبھاتے ہوئے ”آرام “ کرینگے اس کے بعد وہ ”سیاست شروع کریں گے“ یعنی میثاق جمہوریت کے تحت دونوں جماعتیں ایک ایک اقتدار کی پابند تھیں، وہ معاہدہ پورا ہوتے ہی پیپلزپارٹی اپنے اصل رنگ میں سامنے آئے گی۔

کہاجاتا ہے کہ سٹریٹ پاور ،مارا ماری، مارچ ،دھرنوں کے معاملے میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کاکوئی مقابلہ نہیں ، لیکن اس جماعت نے محض ”کاغذی معاہدہ “ کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی عادات سے ہٹ کر سیاسی روش اختیار کررکھی ہے۔
سابقہ دور کا اگرجائزہ لیاجائے خاص طورپر اگر مارچ2009 کے آزادعدلیہ لانگ مارچ کا جائزہ لیاجائے تو وفاقی حکومت کارویہ بھی اس وقت دفاعی تھا ، حکومت نے اوائل میں مارچ کو روکنے کی کوشش کی مگر بالآخر علی الصبح وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کو ججز بحالی کا حکم جاری کرنا پڑا اس سے قبل صدر آصف علی زرداری نے آئین کے مطابق حکومت نہ چلائے جانے کا الزام لگاتے ہوئے پنجاب میں دو ماہ کیلئے گورنر راج نافذ کرنے کا حکم جاری کردیا پھر ن لیگ کے ساتھ ایک ستم یہ بھی ہوا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیدیا۔

جس سے آئینی بحران بھی پیداہوچکا تھا ۔بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ ن لیگ نے عدلیہ بحالی سے زیادہ محض اپنی صوبائی حکومت بحال کرانے کیلئے یہ لانگ مارچ کیاتھا۔ اس لانگ مارچ کے اختتام سے پہلے ہی ن لیگ نے اپنا مقصد پالیا اور سپریم کورٹ کے ججز ہی نہیں بلکہ اپنی حکومت بھی بحال کرالی۔
یہ خیر ماضی کے وہ اوراق ہیں جنہیں نہ توفراموش کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں تاریخ کے صفحات سے مٹاناآسان ہوگا۔

لیکن آج جبکہ ن لیگ کے اقتدار کا سورج سوا نیزے پر ہے،شریف برادران کی اصلیت بھی کھل کرسامنے آچکی ہے ان کاانداز واضح طورپر دلالت کرتا ہے کہ پہلے جس طرح سے شدت ،تشدد پسندانہ اقتدار اٹھائے جاتے رہے وہی سلسلہ پھر سے شروع کردیاگیا ہے۔
یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ صوبائی حکومت کی نااہلی اورا س کی منشا کے مطابق ہی سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہوا، یہ واقعہ کسی اور ملک میں ہوا ہوتا تو شاید اسی وقت ہی صوبہ کاحاکم مستعفی ہوجاتا لیکن سولہ بے گناہوں کے قتل کے بارے میں وزیراعلیٰ نے ایک وزیر کو ”بلّی “ چڑھاکر اور واقعہ کے بارے میں لاعلمی کانقاب چڑھا کر خود کو بچاتو لیا ہے مگر وائے افسوس کہ ان کارویہ نہیں بدلا۔


اب جبکہ عوامی تحریک نے 10 اگست کو یوم شہدا منانے کا اعلان کیاہے تو ن لیگ کے اندر 1988 سے1999کے انتقامی دور کے اثرات ظاہرہونا شروع ہوگئے ہیں ،گوکہ راناثنا اللہ نہیں رہے مگر ان کی جگہ آنیوالے رانا مشہود نے بھی انتہاکررکھی ہے بحیثیت وزیر قانون شاید وہ اپنے فرائض انجام نہ دے پارہے ہوں لیکن وہ نون لیگ کی ترجمانی کا فریضہ بہرحال بخوبی اداکررہے ہیں۔

بہرحال عوامی تحریک کے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوچکی ہے اور جو کارکن ہتھے نہ چڑھ سکے اس کے بھائی والد کو گرفتارکرلیاجاتا ہے، چادر چاردیواری کا تقدس جس طرح سے ماضی میں پامال کیاجاتا رہا وہی صورتحال آج پھر درپیش ہے۔ اس سے قبل صوبہ بھر کے پٹرول پمپوں پر محض اس لئے پٹرول کی قلت کردی گئی کہ طاہر القادری کے اعلان کے مطابق ایک لاکھ موٹرسائیکل سواروں کا قافلہ ماڈل ٹاؤن نہ پہنچ سکے۔


ابھی یوم شہدا میں کئی دن باقی ہیں لیکن جس انداز میں پنجاب اورپنجاب کے باسیوں کوپابند سلاسل کیاجارہا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ ن لیگ اور شریف برداران نے جلاوطنی اور ماضی سے سبق حاصل نہیں کیا ۔ اسے انہی مشیروں کی خدمات حاصل ہیں جو پہلے شریف برادران کو جیل اورپھر جدہ لے گئے ۔مگر جلاوطنی کے دور میں وہ مشیر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے۔
حالانکہ طاہر القادری واضح طورپر اعلان کرچکے ہیں کہ ان کایوم شہدا پرامن ہوگا اور اگر کچھ ہوا تو وہی ذمہ دار ہونگے لیکن اس کے باوجود سولہ انسانوں کاخون شاید کارپردان حکومت کی آنکھوں میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے اوروہ خوفزدہ ہیں کہ کہیں وہ انسانی خون ”بھٹو کے تختہ دار “ کی داستان پھرنہ دہرادے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :