دو اقتصادی حکمران : ورلڈ بنک اور اب بر کس بنک، اسلامی ترقیاتی بنک کیوں نہیں؟

اتوار 10 اگست 2014

Muhammad Mumtaz Baig

محمد ممتاز بیگ

سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا اورموثر معاشی ہتھیار بنک ہوتا ہے خواہ یہ علاقائی، ملکی، ریجنل یا عالمی سطح پر ہوپہلے پہل بڑے خوش کن اندازاوربلندوبانگ دعووں کے ساتھ ان کی ابتدا ہوتی ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ یہی بنک اپنے سرمائے کو محفوظ رکھنے اورسپانسرز کے مفادات کے تحفظ کی خاطر شرائط کو سخت کرتے چلے جاتے ہیں اور آخرکار وہی کچھ کرنا شروع کر دیتے ہیں جو دیگرایسے بنک ان سے پہلے کر رہے ہوتے ہیں۔

برکس بنک کے قیام کے بعد اب ایک نہیں بلکہ دوترقیاتی بنک عالمی سطح پر اقتصادی حکمرانی کریں گے۔پنجابی کی مثل مشہور ہے کہ مج ’مجاں دی بھین‘ ( بھینس،بھینس کی بہن ہوتی ہے)
پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد 10 جنوری 1920کوجینوا میں لیگ آف نیشن بنائی گئی تاکہ آئندہ کسی ایسی عالمی جنگ سے بچا جا سکے۔

(جاری ہے)

1930کی دہائی میں عالمی کساد بازاری (Great Depression))اوراس کے بعددوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں اورایٹم بم کے استعمال نے دنیا کی معیشت کو مفلوج کرکے رکھ دیاجوبڑے بڑے مما لک آپس میں گتھم گتھا، لڑمر اور ایک دوسرے پر بم برسا رہے تھے سر جوڑ کر بیٹھ گئے لیگ آف نیشن اپنا بنیادی مقصد امن حاصل نہ کرسکی لہذا اسے26سال بعدتوڑ کر20 اپریل 1946کو اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی۔

جس کے مقاصد میں عالمی امن کا قیام، ہتھیاروں کاخاتمہ اور تباہ حال معیشت کی بحالی ،صحت، تعلیم وغیرہ کا فروغ قرار دئے گئے۔ اقوام متحدہ ہی کے تحت ورلڈبنک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈکا قیام عمل میں لایا گیا۔یکم مارچ 1947کوبین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف (IMF)نے اپنا باقاعدہ مالیاتی آپریشن شروع کردیاجسکی بنیاد1945میں29 ممالک نے رکھی تھی۔

دو سال بعد جب اس نے کام شروع کیا تو اس کے ممبرز ممالک کی تعداد68ہو چکی تھی IMFکا اہم مقصد جنگ عظیم دوم کے بعد ممبر ممالک کے درمیان ادائیگیوں کے توازن کو درست کرنے اور معاشی استحکام کے ساتھ غربت کو کم کرنے کیلئے ترقی پذیر مما لک کو آسان شرائط پر عارضی طور پر رقوم فراہم کرنا تھا۔اس کا ہیڈکوارٹر واشنگٹن(امریکہ)میں رکھنا طے ہوا۔اسکے موجودہ ممبرز کی تعداد188ہے۔

نرم اور آسان شرائط سے شروع ہونے والے اس ورلڈ بنک نے امریکی ایماء پر 1980 کے بعداقتصادی اور معاشی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے انفراسٹرکچر اوردوسرے ترقیاتی منصوبوں کیلئے بڑے قرضے بھی دینا شروع کردئے یہاں تک کہ اس نے ساری دنیامیں ترقیاتی منصوبوں کیلئے مالی وسائل اور قرضوں کی فراہمی پراپنا تسلط اور اجارہ داری کے ساتھ ساتھ اپنی مرضی کی شرالئط بھی نافذ کرنا شروع کر دیں۔

ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو اپنے کم وسائل کی بناء پر قرضے واپس اورسود ادا کرنے میں مشکلات کاسامنا ہوتالہذا انہیں سخت تر ین اورکڑی شرالئط پر مزیدقرض لیکر پچھلے حساب چکانا پڑتے اوریوں یہ غربت کے گرداب میں آجاتے اور اسی چکر میں گھومتے رہتے حالانکہ ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے دنیا کے غریب ممالک کی مالی مشکلات کم کرنے کے دعووں کے ساتھ قائم کئے گئے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چند سرمایہ داراورطاقتور ملکوں کا ایسا معاشی جال بن گئے جن میں پھنس کر غریب ممالک اپنی معیشت، سالانہ بجٹ حتٰی کہ وہ قومی سلامتی کے معاملات میں بھی اپنے آزادانہ فیصلے کرنے کے حق سے بھی محروم ہونے لگے۔

کیونکہ انہیں اکثر اوقات قرضوں کی منظوری سے پہلے ہی بعض شرائط پر عمل کرکے دکھانا ہوتا تھا۔
ان سب مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے گزشتہ پانچ چھ سالوں سے برازیل، روس،انڈیااور چین نے ورلڈبنک اور عالمی مالیاتی اداروں سے اپنی پالیسیوں میں نظرثانی اورشرالئط میں لچک اور نرمی اختیار کرنے کیلئے درخواستیں کیں اور مشورہ دیا کہ وہ اپنے نظام کو وسیع کریں اور امریکہ اور برطانیہ کے بجائے ساری دنیا کے تمام ممالک کواس میں شامل کریں اس مقصدکیلئے ان ملکوں نے جون 2013میں مالی مشکلات کا شکاربین الاقوامی مالیاتی فنڈ(IMF) کو75ارب ڈالر کی مشروط قرض کی پیشکش کی کہ وہ اپنے ووٹنگ سسٹم میں انقلابی تبدیلیاں کرکے اسے موجودہ حالات کے مطابق حقیقت پسندانہ بنیادوں پر استوار کرے مگر ان کی باتوں پر کوئی توجہ و اہمیت اور جواب نہ دیا گیا۔

جس کے نتیجہ میں ان ممالک نے اپنا ایساہی علیحدہ متبادل بنک بنانے پر غورشروع کر دیا۔ایک تاریخ دان ایرک ٹاؤسینٹ((EricTousaintکے مطابق امریکہ اور برطانیہ نے صرف اپنے مفادات کیلئے ورلڈبنک اور آئی ایم ایف بنائی اور یہ ادارے ہمیشہ انہی کی ہدایات پرعمل کرتے رہے۔جس نے دنیا کا معاشی نظام امن محبت بھائی چارہ اور باہمی معاونت کی بجائے جنگی معیشت پر قائم کیا۔


ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اورچوٹی کے ماہر معاشیات ڈاکٹر من موہن سنگھ جوکتاب کی دنیا کا آ دمی اور پیچیدہ اور گنجلک اعدادو شمار کاکاریگر ہے نے16 جون 2009کواس بنک کا ورکنگ پیپر پیش کیا۔ابتدائی طور پر برازیل، روس، انڈیااور چائنا مل کر برک (BRIC) بنک بنانا چاہ رہے تھے بعدازاں ساؤتھ افریقہ کی شرکت کے بعد اس کا نام حروف تہجی کی بنیاد پر برکس(BRICS) ترقیاتی بنک رکھا گیا۔

اس میںBبرازیل،Rرشیا،Iانڈیا ،Cچائنااور Sساؤتھ افریقہ کیلئے استعمال ہوا ہے۔ان تمام ممالک کی تہذیب وثقافت، رہن سہن،مذہب،تاریخ،جغرافیہ اورریاستی مفادات سب علیحدہ علیحدہ ہیں مگران کیلئے عالمی بنک اور آئی ایم ایف بلکہ امریکہ اور یورپ کے معاشی چنگل سے نکلنابہرحال ضروری تھا۔ برکس کا ہیڈآفس چین جبکہ ایک علاقائی دفترجنوبی افریقہ میں ہوگا اسکے بعدبنک کی دوسری برانچ نئی دہلی میں کام شروع کریگی اور اگلے پانچ سال کے اندراندربرازیل اور روس میں بھی اس کی برانچیں کام شروع کر دیں گی۔

اس بنک کا پہلا چیف ایگزیکٹیو پانچ سال کیلئے ہندوستان سے ہوگاجو ماہراقتصادیات اور بینکارہوگا اس کے بعد برازیل اور روس باری باری اس کی سربراہی کریں گے۔ جبکہ بورڈ کا پہلا سربراہ برازیل سے لیا جائے کا۔اگلے مرحلے میں مزید ممالک کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا جن میں میکسیکو،انڈونیشیا،ارجنٹائن جیسے ترقی پذیرممالک نمایاں ہیں جبکہ اس معاشی بلاک میں شامل ہونے کیلئے ایران شام اورنائجیریا پہلے ہی ممبرشپ کی درخواست دے چکے ہیں ان ملکوں کو امریکہ نے خانہ جنگی ، بحرانوں اور مشکلات میں دھکیل رکھا ہے۔

پانچوں ملکوں کی پارلیمانوں کی منظوری کے بعد یہ بنک 2016میں قرضوں کی فراہمی شروع کردے گا۔ان پانچوں ملکوں کے پاس چار کھرب ڈالر سے زیادہ کے زر مبادلہ کے ذخائر ہیں، آبادی تین ارب سے زیادہ ہے جو پوری دنیا کی آبادی کا 40%ہے اور مجموعی قومی پیداوار16.39 کھرب ڈالرہے جو دنیا کی قومی پیداوار کا 25%ہے پانچ ممبر ممالک میں سے تین ایٹمی قوت بھی ہیں۔

ابتدائی طور پر اس بنک کاحجم50ارب امریکی ڈالر ہوگا جو بتدریج 100ارب یعنی ایک کھرب ڈالر تک کیا جائے گا۔کہا جا رہا ہے کہ 21ویں صدی کی معیشت پر انہی پانچ ممالک کا کنٹرول ہوگا۔پانچوں ممالک برابری کی حیثیت میں اس میں سرمایہ لگائیں کے تاکہ کسی ایک ملک کی اجارہ داری قائم نہ ہوسکے اس کے علاوہ اس بنک کا 100 ارب ڈالر کا ایک ایمرجنسی فنڈ بھی ہوگا جس میں چین 41ارب، ہندوستان، روس اور برازیل18,18ارب اورجنوبی افریقہ 5ارب ڈالر کا سرمایہ لگائے گااس فنڈسے رکن ممالک کوہنگامی ضروریات کیلئے قرض فراہم کئے جائیں گے ۔


اس بنک کا بنیادی مقصدمستقبل کے معاشی بحران سے نپٹنا اورآئی ایم ایف کا اثرورسوخ کم کرنا ،ایڈہاک ازم کا خاتمہ، سیاسی استحکام کی کوشش ، ممبر ملکوں کے درمیان تصادم کو روکنا، صحت،تعلیم کا فروغ،،امن اور ترقی کے ساتھ ساتھ باہمی تعاون کے لامحدود امکانات کو تلاش کرنا،پرامن اور مستحکم دنیا کیلئے کام کرنا،انفراسٹرکچر، تعمیراتی ا وردوسرے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے آسان شرالئط پر رقوم کی فر اہمی ،معاشی ڈھانچے کی تشکیل اور تعمیر نو کیلئے قرض دینا ، پیداواری صلاحیت کا فروغ اور اس کا تحفظ کرناشامل ہیں۔

یہ خبر امریکہ، برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے ایک بری جبکہ ترقی پذیر ، پسماندہ ممالک اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ملکوں کیلئے خوشخبری ہے۔کیونکہ برکس ممالک متحد ہو کر اقتصادی میدان میں امریکی اور یورپی بالا دستی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ورلڈ بنک کی اجارہ داری ختم ہونے اور اس کے متبادل ایک بہتر قیادت والاترقیاتی بنک سامنے آنے کے بعد دنیا معاشی طور پر متوازن ہوسکتی ہے جس سے اسے درست معاشی سمت میں لیجانے میں مددملے گی۔


پاکستان ان سب چیزوں سے بہترانداز میں فائدہ اٹھا سکتا ہے اوراس مقصد کیلئے اسے اپنی روائتی پالیسیوں کو چھوڑ کرانقلابی اقتصادی اور معاشی پالیسیوں کو اپنانا ہوگا ۔آئی ایم ایف کی غریب ممالک کے قرضوں پر اجارہ داری توختم ہوجائے گی اور انہیں ورلڈ بنک کی کڑی شرالئط اورہولناک اقتصادی غلامی سے نجا ت بھی مل جائے گی مگر امریکہ اور یورپی ممالک اتنی آسانی سے اپنی گرفت کمزور نہیں ہونے دیں گے اورنہ ہی وہ چاہیں گے کہ ان کی اجارہ داری کم ہو اس مقصد کیلئے وہ لوگ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں علاوہ ازیں نہ ہی پسماندہ ممالک کیلئے فوری طور پر اس بنک کو چھوڑنا ممکن ہوگا۔

برکس بنک کا قیام بہرحال ان پانچوں ممالک کا ایک جرات مندانہ اقدام ہے جس سے دنیا کے اقتصادی میدان میں اب ایک نہیں بلکہ دو ترقیاتی بنک حکمرانی کریں گے۔
ہندوستان اور چین کا اس نئے بنک میں اہم کردار ہوگاجس تیزی سے انہوں نے اقتصادی ترقی کی وہ پوری دنیا کیلئے حیران کن ہے مستقبل میں یہ دونوں نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا کی بڑی اقتصادی قوت ہونگی۔

ہندوستان ہم سے ایک دن بعد1947اور چین 1948میںآ زاد ہوا، برازیل بیس سال پہلے تک ایک غریب ملک تھا،جنوبی افریقہ نے بھی بہت برے دن دیکھے ہیں جبکہ روس کی معیشت نے بھی بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں لیکن ان سب نے متحد ہوکردنیا کی واحد سپر پاور کے مقابلے پر متوازی بنک کھڑا کردیا اور ہم ابھی تک، لانگ مارچوں، انقلاب مارچوں،جلسوں، ریلیوں،دھاندلی، دہشت گردی،بجلی پانی گیس کی لوڈشیڈنگ،ٹاک شوزوغیرہ کے غیر ضروری چکروں میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ’ زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘ آئی ایم ایف نے ہماری معیشت کو تباہی کے کنارے لگا دیا ہے۔

آئے روز کی مہنگائی، بجلی پٹرول گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، سبسڈیز میں کمی سب کچھ اسی کی ہدایات اور انہیں خوش کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔بڑے بڑے اسلامی ممالک کی اپنی رقوم امریکی، یہودی اور غیر ملکی بنکوں میں جمع ہیں۔دنیا کے تمام 62اسلامی ممالک کو اب مل بیٹھ کر سوچ بچار کرنا ہوگی اور بطور خاص سعودی عرب، قطر،کویت،برونائی،متحدہ عرب امارات، ملائشیااورپاکستان کو کہ وہ ورلڈبنک اور برکس بنک کے مقابلے میں اسلامی ترقیاتی بنک بنا دیں۔مسلمان ملکوں کے پاس ذہین افرادی قوت اوروسائل موجود ہیں۔ اگر اسلامی ایٹم بم بن سکتا ہے تو اسلامی ترقیاتی بنک کیوں نہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :