اپنائیت

جمعہ 8 اگست 2014

Dr Nasrullah Shah

ڈاکٹر نصر اللہ شاہ

بہت عام سی بات ہے کہ کوئی کہے کہ مجھے اپنا سمجھو، گھر کو اپنا سمجھو، فلاح چیز کو اپنا سمجھو- اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اس بات میں بہت بڑی ضمانت پوشیدہ ہے- یہ کہنے کے بعد انسان کو تسلی مل جاتی ہے کہ وہ مجھے، اس گھر کو یا اس چیز کو نقصان نھیں پہنچائے گا- اسی طرح اگر ہم کسی ادارے، آفس یا کاروبار کے ساتھ منسلک ہیں اور اس کو اپنا مانیں تو نہ صرف ہم اس میں کامیاب ہونگے بلکہ وہ ادارے بھی ہماری وجہ سے ترقی کرینگے- ہم اپنے گھر کو اس میں رہنے والوں کواپنا سمجھتے ہیں- انکا ہر لحاظ سے خیال رکھتے ہیں- انکی اچھائی سوچتے ہیں- کیوں کہ ان سے اپنائیت ہوتی ہیں- اور جہاں پہ اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہے وہاں پر باہمی ہم آہنگی، رواداری اور اخلاص غیر ارادی طور پرپیدا ہوجاتے ہیں-
دنیا کی ترقی یافتہ اور مہذب اقوام کی ترقی کا راز انکی اپنے ملک کے اداروں، قوانین اور تمام تر اشیا سے اپنائیت ہے- انکو اپنے آپ سے اپنے گھر سے اور اپنی خواہشات سے زیادہ اپنے ملک سے محبت ہوتی ہے- اپنے لوگوں سے محبت ہوتی ہے- ان کو اپنا سمجھتے ہیں-
اوپر بیان کیے گئے تمام باتوں کا مقصد یہ ہے کہ آج ہم جس تنزلی، خانہ جنگی اور افراتفری کا شکار ہیں اسکی اصل وجہ اپنائیت کا فقدان ہے- ہم وہ قوم ہیں جو خود کے لئے ملک کا نام، ملک کے لوگ اور ملک کی بنیادیں تک بھیج دیتے ہیں- اور کیوں نہیں کرینگے ایسا ہم خود کے ساتھ جو مخلص نہیں- ہم نے کبھی اس ملک کو اپنا جو نہیں سمجھا اگرچہ ملک تو وجود کی مانند ہوتا ہے- ہم اس میں رہتے ہیں ہم اس کا کھاتے ہیں ہم بغیر روک ٹھوک کے اس میں پھرتے ہیں- پر ہم نے کبھی دل سے اسکو اپنایا نہیں اگر ایسا ہوتا تو آج اس کی یہ حالت نہ ہوتی- ہم جب مارکیٹ جاتے ہیں تو اس سوچ کے ساتھ کبھی نہیں گئے کہ آج ساری دیسی اشیاء خریدوں گا، یا آج میں کولڈ ڈرنک کا کین، ٹشو پیپر یا سگریٹ کا فلٹر سڑک پر نہیں پھینکوں گا، آج میں ٹریفک کا اشارہ نہیں توڑونگا یہ سب اس لئے کہ قوم پرستی کے احساس کا فقدان ہیں- ہم امریکہ، یورپ، کنیڈا، روس، جاپان، کوریا اور چائنہ وغیرہ کی اشیا خریدنے پر فخر کرتے ہیں- انٹر نیشنل برانڈز خریدنے میں بڑا پن محسوس کرتے ہیں- اگر ہم ہی اپنے ملک کی اشیا خریدنے میں عار سمجھتے ہیں تو دوسرے تو انکو خریدنے سے رہیں-
ہم اپنی قوم پرستی کو ثا بت کرنے کے لئے چند واقعات کا ذکرکرتے ہیں جیسے 1965کی جنگ، 2005 کا زلزلہ، 2010 کا سیلاب، 2009 میں سوات آپریشن میں لوگوں کی نقل مکانی کے وقت اور حال ہی میں شمالی وزیرستان کے لوگوں کی نقل مکانی میں امداد وغیرہ وغیرہ-ہاں! ان باتوں پرہمیں فخر ہیں کہ ہم مصیبت کی گھڑی میں ایک جسم ایک جان ہو جاتے ہیں- ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے ہیں- پر یہ سب کافی نہیں ایک اچھا قوم بننے کے لئے- ہنگامی حالات میں تو پرائے بھی ساتھ دیتے ہیں- ایسے حالات میں تو ان لوگوں نے بھی دل کھول کر امداد کی پیشکش کی تھی جن کو ہم دشمن سمجھتے ہیں بلکہ جو دشمن ہیں- یہ تو انسانیت کی بات تھی نا کہ صرف پاکستانیت کی- اگرہم واقعی ایک مثالی قوم بننا چاہتے ہیں اور واقعی قوم پرست ہیں تو ہمیں اس سے بڑھ کر کرنا ہو گا- ہمیں صرف حادثات اور واقعات والی ہمدردی نہیں دکھانی ہوگی بلکہ ہر وقت اور ہر لمحہ قوم پرستی اور حب الوطنی کا یہی جذبہ برقرار رکھنا ہو گا-
پاکستان لاکھ قدرتی وسائل سے مالا مال سہی، ہم لاکھ کہے کہ ہماری 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، ہمارے پاس ایٹمی طاقت ہے، ہمارے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام ہے، کوئلہ کا بہت بڑا ذخیرہ ہے، سیاحت کے مقامات ہیں وغیرہ وغیرہ- جب تک ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے ان کا صرف ہم شوشا ہی کر سکتے ہیں- اگر ہم یہ سب کچھ آج بھی صحیح معنوں میں بھروئے کار لائے تو یہ ہماری آنے والی نسلوں پر ہمارا احسان ہو گا- اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا-
اس ملک کی ترقی کا راز اس بات میں مضمر ہیں کہ ہم اس ملک کو اور اس میں رہنے والے لوگوں کو اپنا سمجھیں ایک گھر کی طرح ایک کنبے کی طرح- ہمیں پنجابی، پختون، سندھی، بلوچی، مہاجر کا کنسپٹ بھولنا پڑے گا- ہمیں یہ تعصب کے بھاڑ اکھاڑنے پڑینگے- ہمیں تقسیم کرنے والوں کو دیکھانا ہو گا کہ ہم ایک جسم ایک جان ہیں- ہمیں آنے والی نسل کو پاکستانیت کا کنسپٹ دینا پڑے گا تا کہ ان کو اپنی دھرتی ماں کا احساس ہو اور وہ اس پر فخر کرے- ہمیں ان کو قائداعظم کا پاکستان دینا ہوگا ایک ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان-
یہ ملک بہت وفادار ہے اس کو ہم نے کیا کچھ نہیں کیا- اس کو اس کیباسیوں نے کہاں کہاں نہیں بیچا- کونسا بدنامی کا ٹیکہ اس کے ماتھے پر نہیں سجایا- پھر بھی اک حقیقی ماں کی طرح یہ ہمیں سینے سے لگائے چور چور جسم کے ساتھ کھڑا ہے- خدا را! اس ملک پر رحم کریں اس کو اپنا سمجھیں اس پر ترس کھائیں اپنی خودی کوپہچانئیے- پاکستان بہت پیارا ہے اس کو اللہ نے سب کچھ سے نوازا ہے- پاکستان میں کوئی خرابی نہیں- خرابی ہم میں ہیں، اس کے حکمرانوں کے سوچ میں ہیں- ہمیں اسکی ممتا کی لاج رکھنی ہو گی- ہمیں اس ملک سے اپنائیت کا احساس پیدا کرنا ہو گا-
اپنائیت کا یہ احساس پیدا ہوگا تعلیم کے ذریعہ، میڈیا کے ذریعہ، قومی بہبود اور آگاہی کے اداروں کے ذریعہ اور سب سے بڑھ کر اپنی سوچ کے ذریعہ- ہمیں سارے تعلیمی اداروں میں یکساں نظام تعلیم اور نصاب رکھنا ہوگا جس میں آسمان تلے اورایئر کنڈیشنڈ کمروں میں پڑھنے والوں میں کوئی تفریق نہ ہو- دونوں مستقبل میں ایک ہی بیج کی پیداوارہو نصاب میں پاکستانیت اور جذبہ حب الوطنی سے متعلق مضامین شا مل کرنا ہونگے- اس معاملے میں ہمارے پرائمری نظام میں قابل اور روشن خیال اساتذہ کو رکھنا ہوگا- ان کو ایسی ٹرینگ دینی ہو گی جو طلبہ کوسہی طرح سے ذہنی طور پر تیار کرے- ان کو ایک اچھا اور سچا پاکستانی بنائیں- ہماری آنے والی نسل پاکستان کے نام پر، اس کے پراڈکٹس پراور اس کے نظام پر فخر کرے- انشاء اللہ یہی وہ قوم ہو گی جس کی وجہ سے پاکستان دنیا میں ایک رول ماڈل ہو گا- پاکستانی پاسپورٹ رکھنا ایک اعزاز ہو گا- ہم لوگوں کے پاس نہیں لوگ ہمارے پاس آینگے-
تعلیم کے بعد آگاہی کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا ہیں- عوام میں جذبہ حب الوطنی کا شعور پیدا کرنے میں میڈیا کا بہت اہم کردار ہیں- جتنے بھی سرکاری اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز ہیں اوراسکے علاوہ جتنے بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دوسرے زرائع ہیں سب کو پابند کیا جائے کہ وہ ضرور ایسے پروگرامز شامل کرے- جو جذبہ حب الوطنی پیدا کرے لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہیں کہ پہلے وہ پاکستان کو اپنا سمجھے پاکستان کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرے لوگوں کو یہ احساس دلائے کہ پاکستان میں صرف دھماکے نہیں ہوتے- یہاں صرف کرپشن لوٹ مار نہیں ہوتی- یہاں امن بھی ہیں- یہاں ایمان داری بھی ہیں- اور یہاں قابلیت بھی ہیں- پاکستان کا نام خراب کرنے کے لئے تو پہلے سے اتنے دشمن کام کر رہے ہیں تو ہم خود کیوں انکا آلہ کار بنے اور اسکا امیج اس طرح پیش کرے-
ہماری بہت سے دوسرے فلاحی ادارے بھی یہ شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ہم سب نے انفرادی اور اجتماعی طور پراس ملک کو اپنانا ہو گا- پاکستان ہماری ماں ہیں- ہمیں اس کو ماں جتنا مقام دینا ہو گا- ہم سب نے خود سے ابتدا کرنا ہو گا- تب جا کے ہم صحیح اور سچے پاکستانی بنیں گے- اک قوم بنیں گے- ا یک فخر والی، ترقی یافتہ، سوشلائزڈ اور ایک مثالی قوم-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :