کشمیر…یاتراوٴں کی سیاست…!!!

بدھ 6 اگست 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

گو کہ آئینِ ہند نے کسی بھی مذہب کے لوگوں کو مخصوص رسومات و فرائض کی ادائیگی کے لئے آزاد قرار دیا ہے تاہم مذہبی معاملات کو سیاست کے لئے استعمال کرنا تباہ کُن ثابت ہو سکتا ہے۔جموں و کشمیر کے جیسی حساس ریاست میں ابھی اسی طرح کا ماحول بنا ہوا ہے کہ جہاں ”یاتراوٴں کی سیاست“زوروں پر ہے۔ایک طرف ہندووٴں کے ایک طبقہ کی جانب سے سالانہ یاتراوٴں کے لئے نِت نئے ”پوِترء استھاپنوں کی کھوج“جاری ہے تو دوسری جانب علیٰحدگی پسندوں کی جانب سے کشمیر کی ”مُسلم شناخت“کے خلاف سازشیں ہونے کے خدشات کا اظہار۔ماحول مکدر ہے اور عام لوگ اس قدر مضطرب کہ ایک معمولی چنگاری کسی ہولناک آگ کی وجہ بن کر بہت کچھ بھسم کر سکتی ہے۔
حالانکہ جموں و کشمیر میں علیٰحدگی پسندوں کی جانب سے ہڑتال کی کال دینا اور پھر اسکے ردِ عمل میں یہاں کی زندگی ایک طرح سے مفلوج ہو کے رہ جانا کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم آنے والی سنیچر کے لئے ایک ”دلچسپ اور معنیٰ خیز“معاملے کو لیکر احتجاجی ہڑتال کی کال دی گئی ہے اور وہ یہ کہ جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں صاف پانی کی ایک اچھوئی جھیل کی جانب ایک بڑی یاترا کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

(جاری ہے)

کولگام اور جموں صوبہ کے ریاسی ضلع کے درمیان کے پہاڑی سلسلہ میں واقع کوثر ناگ نامی مختصر اس جھیل کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ صاف پانی کا ایک ایسا ذخیرہ ہے کہ جو انسانی آبادی سے بہت دور ہونے کی وجہ سے ابھی تک اچھوا ہے اور دنیا بھر میں مشہور جموں و کشمیر کے شفاف و دلکش ماحول کا ایک اہم جزو ہے حالانکہ متنازہ یاترا سے جُڑ جانے سے قبل چند دن پہلے تک اس مقام کا شائد عام لوگوں نے کبھی نام بھی نہ سُنا ہوگا۔چناچہ بتایا جاتا ہے کہ جموں صوبہ کے ریاسی ضلع کی جانب سے چند ایک ہندو لوگ سال میں ایک بار کوثر ناگ کی جانب نکلتے رہے ہیں تاہم یہ کوئی مشہور مذہبی تہوار کبھی نہیں رہا ہے کہ جسکی کوئی باضابطہ تشہیر ہو یا جس میں سینکڑوں یا ہزاروں لوگ شامل ہوکر ماحولیات کے لئے کسی قسم کا خطرہ پیدا کرتے۔اب کے تاہم اچانک ہی ”کوثر ناگ یاترا“کا کچھ اس دھوم سے ڈھول بجنے لگا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگ ریاست کے نقشے پر اچانک ہی اُبھرنے والے اِس نئے ”پوِترء استھاپن“کے بارے میں سُن کر حیران ہیں۔”کوثر ناگ یاترا“کے لئے انتظامات کی تکمیل کے لئے گذشتہ دنوں سرکاری احکامات جاری ہوتے دیکھ کر تو ریاست،با الخصوص وادی میں،حیرانگی و تشویش کی ایک لہر سی دوڑی اور لوگ یہ جاننے کے لئے متفکر نظر آئے کہ آخر جموں و کشمیر کے نقشے پر ”یاترا نیٹورک“اچانک ہی کیسے وسیع ہونے لگا ہے اور کیوں۔
جنوبی کشمیر ،با الخصوص کولگام و شوپیاں اضلاع میں،لوگوں نے کسی نئی یاترا کے منصوبوں کے بارے میں سُنتے ہی اسکے خلاف آواز اُٹھائی اور دھمکی دی کہ اس طرح کے کسی بھی منصوبے کے خلاف اھتجاج کیا جائے گا۔کوثر ناگ بچاوٴ محاذ نام کی ایک انجمن کا قیام عمل میں لا کر ان لوگوں نے گذشتہ دنوں سرینگر میں احتجاجی جلوس نکالے بھی اور خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ماحول کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دینگے۔سرینگر کی پریس کالونی میں،جہاں مقامی اخبارات کے علاوہ دیگر بیشتر میڈیا گھرانوں کے دفاتر واقع ہیں،احتجاج کرنے کے دوران ان لوگوں نے کہا کہ اگرچہ وہ کسی خاص مذہب کے خلاف نہیں ہیں تاہم مذہبی رسومات کی آڑ میں وہ سیاست بھی نہیں ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ایک احتجاجی نے کہا”گوکہ ہم کسی مذہب کے خلاف تو نہیں ہیں لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ مذہب کی آڑ میں ہم سیاست ہوتے دیکھیں اور ہمارے ماحولیات کو بھی تباہ کر دیا جائے“۔پھرمتنازعہ یاترا کے انعقاد اور اسکے خلاف سیول سوسائٹی کا یہ احتجاج ایک ایسا وقت پر ہو رہا ہے کہ جب فی الوقت جنوبی کشمیر میں ہی پہلگام اور وسطی کشمیر میں سونہ مرگ کے راستے امرناتھ یاترا جاری ہے۔اس یاترا کے دوران حال ہی ایک بڑا فساد ہوتے ہوتے رہ گیا ہے کہ جس میں درجنوں مسلمان زخمی ہوگئے ہیں اور اُنکی لاکھوں روپے مالیت کی جائیداد تباہ ہو گئی ہے۔یاد رہے کہ امرناتھ یاترا کے لئے سونہ مرگ سے آگے ”بال تل“میں قائم بیس کیمپ میں گذشتہ دنوں اُسوقت زبردست ہنگامہ ہوا کہ جب یہاں ایک غیر ریاستی لنگر والے نے ایک مقامی مسلمان مزدور کو چاقو مارا اور شدید زخمی کر دیا۔بات بڑھ جانے پر یہاں دن بھر کے لئے خونین فساد جاری رہا جسکے دوران غیر ریاستی افراد نے ،مبینہ طور،سکیورٹی فورسز کے ساتھ ملکر مقامی مزدوروں اور تاجروں کے قریب چار سو خیموں میں آگ لگا دی جبکہ کشمیر سے باہر یہ افواہ پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی کہ امرناتھ یاترا کے دوران ہوئے فساد میں درجنوں یاتری ہلاک ہو گئے ہیں۔
حالانکہ علیٰحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کئی سال سے یہ الزام لگاتے آرہے ہیں کہ جموں و کشمیر ریاست کے مُسلم تشخص کو تبدیل کرنے کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں تاہم اُنکی تشویش کو محض ایک پروپیگنڈہ بتا کر اس سے صرفِ نظر کیا جاتا رہا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ چیزیں یوں صاف ہونے لگی ہیں کہ حکمران جماعت نیشنل کانفرنس سید گیلانی کی تشویش کی شریک دکھائی دینے لگی ہے۔چناچہ نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر اور پارٹی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے بھائی مصطفیٰ کمال نے گذشتہ دنوں ایک بیان میں نہ صرف تشویش کا اظہار کیا بلکہ یہاں تک بھی کہا کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد سے جموں و کشمیر کی شناخت بدل دئے جانے کی سازشیں تیز ہونے لگی ہیں۔ڈاکٹر مصطفی کمال نے کہا ہے”یہ سب ایک سازش ہے جسکے تحت کچھ فرقہ پرست ذہنیت والے کشمیری ہندو بی جے پی کی مدد سے کشمیر میں لوگوں کے لئے مسائل کھڑا کرنا چاہتے ہیں“۔اتنا ہی نہیں بلکہ کمال کا یہاں تک کہنا ہے”آپ اس طرح کی پیشرفت کو بی جے پی کو ملے عروج سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے ہیں،بی جے پی در اصل جموں و کشمیر کو ہندو رنگ دینے کے درپے ہے اور اس سمت میں سازشیں ہو رہی ہیں“۔اُنہوں نے کہا کہ کروہ عزائم کے لئے قابلِ مذمت انداز میں مذہب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔سید علی شاہ گیلانی اور اب مصطفیٰ کمال کس بنیاد پر وثوق کے ساتھ کہ پاتے ہیں کہ بی جے پی کشمیر کو ہندو رنگ دینے کی سازشیں رچا رہی ہے ،یہ بات وہی جانتے ہونگے لیکن جہاں تک حالات و اقعات کا تعلق ہے دال میں کچھ کالا ضرور ہے اور پھر اتنا تو ہر لحاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ کشمیر میں ”یاتراوٴں پر سیاست“ہو رہی ہے۔
ویشنو دیوی کے جموں کے مضافات میں کٹرہ کے مقام پر واقع مندر پر ہندووٴں کی حاضری دینا پُرانا سلسلہ ہے اور وادیٴ کشمیر میں امرناتھ کی یاترا کا قصہ بھی نیا نہیں ہے لیکن امرناتھ یاترا کو جس غیر معمولی شہرت اور غیر ضروری طوالت سے ایک ”عالمی ایونٹ“جیسا ظاہر کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں وہ کئی طرح کے شکوک و شبہات کو جنم دینے کے لئے کافی ہو سکتا ہے وادی میں مندروں کا جال سا بچھانا اور آئے دنوں نئے ”پوِترء مقامات “کی Discoveryجو ہے سو الگ۔جنوبی کشمیر میں واقع دنیا بھر کے سیاحوں کیلئیباعثِ کشش سیاحتی مرکز پہلگام سے کافی آگے ہمالیہ کی گود میں واقعہ امرناتھ گپھا تک ہندووٴں کی یاترا کا معاملہ گذشتہ کئی سال سے تنازعات سے گھرا رہا ہے۔محض مذہبی نوعیت کی یہ یاترا” جانے انجانے “سیاست کی نذر ہوتی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ سالانہ سرگرمی اسکی مذہبی نوعیت سے زیادہ دیگر طرح کی خبروں کو جنم دے رہی ہے۔حالانکہ جموں و کشمیر کی علیٰحدگی پسند قیادت اس یاترا کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی مسلح جنگجووٴں نے ہی کبھی کھلے عام اس یاترا کو نشانہ بنانے کے ارادے ظاہر کئے ہیں تاہم علیٰحدگی پسندوں کا الزام ہے کہ حکومتِ ہند جان بوجھ کر اس مذہبی سرگرمی کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے لگی ہے۔فقط حکومتِ ہند ہی نہیں بلکہ ہنددوٴں کی شدت پسند مذہبی تنظیمیں بھی کئی سال سے اس یاترا میں ”غیر معمولی“دلچسپی لیتی رہی ہیں۔سن 1988تک جہاں محض چند سو سادھو سنت ہی امرناتھ گپھا کی مشکل یاترا پر آتے رہے وہیں ریاست مین علیٰحدگی پسند سرگرمی شروع ہونے کے بعد چند سو سادھووٴں کا قافلہ لاکھوں کے مجمعے میں تبدیل ہوتا گیا۔چناچہ گذشتہ چند سال سے چھ لاکھ یااس سے بھی زیادہ یاتری مذکورہ گپھا میں بھگوان شیو کے ”لنگم“کے درشن کرنے کے لئے وادی وارد ہوتے ہیں۔جیسا کہ ایک سینئر علیٰحدگی پسند لیڈر کا کہنا ہے”ہم یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ہندو برادری اس یاترا پر نہ آئے بلکہ ہم ایسا کہنے کی سوچ بھی نہیں سکتے ہیں لیکن ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم اس خالص مذہبی سرگرمی کو کسی بھی طرح کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں“۔وہ کہتے ہیں امرناتھ یاترا جو کبھی محض چند یوم کی سالانہ سرگرمی تھی اب ایک ایسا معاملہ بن گیا ہے کہ وادیٴ کشمیر کا وسیع علاقہ تقریباََ سال بھر کے لئے اس سرگرمی کے لئے یرغمال ہوئے رہتا ہے۔وہ کہتے ہیں”یہ یاترا اب کئی کئی ماہ پر محیط رہتی ہے جبکہ ریاستی سرکار سال بھر اسکے انتظامات کے ساتھ جُڑی رہتی ہے“۔اُنکا مزید کہنا ہے ”آپ جموں سے سرینگر کی جانب آتے ہوئے دیکھ لیجئے کتنے چھوٹے بڑے مندر بنائے گئے ہیں جو کبھی کہیں موجود ہی نہیں تھی،حد یہ ہے کہ جہاں جہاں سکیورٹی فورسز کی چوکیاں قائم ہیں وہاں برلب سڑک مندر کھڑا کئے گئے ہیں تاکہ ایک ایسا تاثر دیا جائے کہ جیسے کشمیر مدتوں سے ہندو اکثریتی علاقہ ہو“۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سال2008میں وادیٴ کشمیر اُس وقت اُبل پڑی تھی کہ جب وقت کی حکومت کی جانب سے امرناتھ شرائن بورڈ کو 800سو کنال جنگل اراضی فروخت کئے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔مذکورہ زمین پر ،مبینہ طور،بورڈ کو ایک پختہ شہر کھڑا کرنے کا منصوبہ تھا تاہم کشمیر میں خونین تحریک چلنے کے بعد یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو پایا تھا۔بعدازاں سپریم کورٹ کی جانب سے امرناتھ گپھا تک نوکدار پہاڑوں پر سے گذرنے والی پگڈنڈی کو پختہ سڑک میں بدل دئے جانے کی ہدایت کے خلاف بھی وادی میں زبردست احتجاج ہوا تھا اور لوگوں نے سیاسی منصوبوں کی تکمیل کے لئے یہاں کے ،بصورتِ دیگر شفاف،ماحول کو تباہ کر دئے جانے کی سازشیں رچانے کا الزام لگایا تھا جنکی ماہرین نے بھی تصدیق کی تھی۔
مقامی لوگوں اور علیٰحدگی پسندوں کا ماننا ہے کہ مذہب کی آڑ میں در اصل بعض طاقتیں کشمیر کو” ہندو دیش“بنانے کے لئے ایسا تاثر دینے کو سازشیں رچا رہے ہیں کہ جیسے یہ ریاست مُسلم اکثریت والی نہ ہو۔کوثر ناگ یاترا کے خلاف احتجاج کرنے والے سیول سوسائٹی ارکان،جن میں ایڈوکیٹ پرویز امروز،خرم پرویز،بابر جان قادی،متعدد دیگر وکیل،ڈاکٹر و انجینئر شامل تھے،نے گذشتہ دنوں سرینگر کی پریس کالونی میں بتایا”وادیٴ کشمیر میں چونکہ متعدد گلیشر،آبشار،دریاء اور چشمے موجود ہیں اگر کوثر ناگ ہی کی طرح ہر ایسی جگہ کی جانب یاترا شروع ہوئی اور یہاں میلے لگنا شروع ہوئے تو پھر خدا ہی حافظ ہے۔احتجاجیوں کا کہنا تھا”ایسے میں ہمارے ماحولیات پر انتہائی بپرا اثر ہوگا اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کوسیں گی“۔ان لوگوں کا کہنا تھا کوثر ناگ ہو یا اس طرح کا کوئی دیگر مقام انکے کسی بھی طرح مذہبی مقام ہونے کی کہیں کوئی شہادت نہیں ملتی ہے اور نہ ہی کسی مذہب کی کتابوں میں ہی اس طرح کا کوئی تذکرہ موجود ہے تو پھر کیونکر جھوٹی کہانیاں کھڑا کر کے کشمیر کے ماحول کو تباہ کرنے اور کشمیریوں کے لئے پریشانیاں کھڑا کرنے کے ساماں کئے جا رہے ہیں۔ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر مذہب کی آڑ میں کشمیر کے ماحولیات کے ساتھ کھلواڑ کئے جانے کی ہر کوشش کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔ماحولیات بچاوٴ کے نعروں والی تختیاں اُٹھائے ان لوگوں کے علاوہ جنوبی کشمیر میں لوگوں نے گذشتہ دنوں عام ہڑتال کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ سب کچھ چُپ چاپ ہوتے دیکھنے پر آمادہ نہیں ہے جبکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر بھی یہ معاملہ زیرِ بحث ہے۔چناچہ ایک فیس بُک اکاونٹ کا یہ Statusاس حوالے سے قابلِ تذکرہ ٹھہرتا ہے کہ جس میں لکھا گیا ہے”عجب نہیں ہے کہ کل کو لالچول میں واقع گھنٹہ گھر کو بھی کوئی مقدس مقام قرار دیتے ہوئے اسکے لئے سالانہ یاترا شروع کرنے کا اعلان کیا جائے،یہ وقت جاگنے کا ہے اور کچھ کرنے کا ہے“۔اُدھر جمعرات کو ،جب یہ تبصرہ ضبطِ تحریر میں لایا جا رہا تھا،سید علی شاہ گیلانی نے کوثر ناگ کو یاترا کا نیا مقام بنائے جانے کے منصوبہ کے خلاف جمعہ کو احتجاجی مظاہروں اور سنیچر کو کشمیر بند کی کال دیدی ہے۔
انتہائی اہم ہے کہ پہلے دفعہ370کو ختم کر دئے جانے کے منصوبوں اور پھر کشمیر کی Demographyمیں تبدیلی کے خدشات کا ایک ایسے وقت پر اظہار ہو رہا ہے کہ جب ایک طرف فلسطین میں اسرائیل کی بر بریت انتہا کو پہنچ چکی ہے اور بعض لوگ کشمیریوں کو فلسطین ہوجانے سے بچنے کی تدابیر پر سوچنے کے لئے کہ رہے ہیں تو دوسری جانب القائدہ اور ایسیس (ISIS)جیسی جماعتوں کے لئے،مٹھی بھر ہی سہی،کشمیری نوجوان اظہارِ محبت کرتے دیکھے جارہے ہیں۔یاد رہے کہ عید الفطر کے روز سرینگر کے مختلف مقامات پر مٹھی بھر نوجوانوں نے ISISاور القائدہ کے پرچم لہرا کر سکیورٹی ایجنسیوں کی نیندیں خراب کر دی ہیں۔اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر ایک مبصر نے کہا”لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے فرقہ پرستی کے اُبھار اور مذہبی جنون کو ہتھیار کے بطور استعمال کرکے اسے اپنے لئے ثمر آور پایا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے لئے بھی انہی ہتھیاروں کو آزمانا چاہتی ہو لیکن اسے یاد رکھنا ہوگا کہ کشمیر اور مظفر نگر میں بہت فاصلہ ہی“۔کیا بی جے پی اور دیگر متعلقین اس فرق کو سمجھتے ہوئے جذباتیت کی سیاست ترک کرینگے یا پھر یاتراوٴں کی سیاست کے جاری رہتے ہوئے جموں و کشمیر کے عوام اپنے کل کے تحفظ کے لئیشدت پسندوں کو صحیح ٹھہرانے پر خود کو مجبور پائیں گے…آنے والا کل ہی بتا پائے گا!!!(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :