کاش انہیں کو ئی بتا دے !

پیر 4 اگست 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

آپ پہلوی خاندان کی مثال دیکھیں ،رضا شاہ پہلوی ایرانی فوج میں معمولی آفیسر تھا ،اس نے1920کی دہائی میں فوج میں بغاوت کی اور چار سال کے اندر آخری قاچار بادشاہ احمد شاہ قاچار کو معزول کر کے ملک کا صدر بن گیا ۔وہ ایران کو جدید ریاست بنانا چاہتا تھا ،اس نے بڑے پیمانے پر صنعتیں قائم کیں ،ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر کیا ،لوگوں کو روز گار دیا ،عوام کو صحت کی سہولیات مہیا کیں اور اپنے بیٹے سمیت سینکڑوں ہزاروں ایرانی اسٹوڈنٹس کو تعلیم وتربیت کے لیئے امریکہ اور یورپ روانہ کیا ۔

1935میں اس نے ملک کا نام تبدیل کر کے فارس سے ایران رکھ دیا ،1939میں دوسری جنگ عظیم ہو ئی تو ایران بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا ،ایران کا جھکا وٴ جرمنی کی طرف تھا چناچہ روس اور برطانیہ کی فوجوں نے ایران پر چڑھائی کر دی ،رضا شاہ گرفتار ہوا ،اسے جلا وطن کیا گیا اور اس نے اپنی بقیہ زندگی جنوبی افریقہ کے شہر جو ہانسبرگ میں انتہا ئی کسمپرسی کی حالت میں گزاری اور یہیں اس کا انتقا ل ہوا ۔

(جاری ہے)

رضا شاہ کے بعد اس کا بیٹا محمد رضا شاہ تخت نشین ہوا جنوری 1942میں اتحادی افواج اور ایران کے درمیان ایک معاہدے ہر دستخط ہو ئے اور چھ ماہ ماہ کے اندر اندر اتحادی فوجوں نے ایران خالی کر دیا ۔دوسری جنگ عظیم ختم ہو ئی جنگ سے متائثرہ ممالک میں زندگی معمول پر آنا شروع ہو ئی، ایران میں سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں نے سر اٹھانا شروع کیا اور ایران کے مشہور سیاسی لیڈر محمد مصدق اور شاہ کے درمیان کشمکش شروع ہو گئی ،1949میں شاہ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اس نے سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی ۔

1951میں ایرانی پارلیمنٹ نے محمد مصدق کو وزیرا عظم منتخب کر لیا رضا شاہ نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی ۔اگست 1953میں امریکہ اور برطانیہ نے مصدق کے خلاف بغاوت کو ہوا دی تورضا شاہ واپس لو ٹ آیا ،فوج نے شاہ کا ساتھ دیا ،مصدق گرفتار ہو ااور رضا شا ہ ایک مرتبہ پھر ایران کا بادشاہ بن گیا ۔اب شاہ یہ حقیقت جان چکا تھا کہ اگر اسے اقتدار میں رہنا ہے تو اسے مغربی آقاوٴں کوخوش رکھنا پڑے گا چناچہ اس نے ”سفید انقلاب “کا علان کر دیا اور اس انقلاب میں ہر وہ کام کیا جس کا آج سے چالیس پچاس سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔

ڈاڑھی پر پابندی لگا دی گئی ، برقعہ پہننا قانونی جرم ٹھہرا ، شراب ،زنا اور رقص و سرود کو قانونی حیثیت حا صل ہو گئی ، اسکول ،کالج اور یو نیورسٹی میں سکرٹ کو لازمی قراردے دیا گیااور گانے بجانے کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی ۔شاہ کے دور میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت حاصل تھی اور شاہ کے دو قریبی جرنیلوں کے بیٹوں نے آپس میں شادی بھی رچائی تھی اور شاہ خود بھی اس شادی میں شریک ہوا تھا ،سرکاری سطح پر اس شادی کی دعوت ولیمہ بھی ہوئی تھی اور شاہ کی پو ری کابینہ نے اس دعوت سے لطف اٹھایا تھا ،شاہ کے دور میں کالج اور یونیورسٹی کی دکانوں سے شراب عام ملتی تھی اور خواتین کی خرید وفروخت کی حوصلہ افزا ئی کی جاتی تھی ،عالمی میڈیا شاہ کو امریکی گورنر کے نام سے لکھتا پڑھتا تھا اورشاہ کے دور میں ایران امریکی کالونی تھی،اس نے بیالیس ہزار امریکیوں کو مفت ویزے جاری کیئے اور انہیں ایران میں کھلم کھلا گھونے پھرنے کی اجازت دی ۔

شاہ کو اپنے اقتدار پر اس قدر اعتماد تھا کہ اس نے اپنی پہلی دو بیویوں کو صرف اس لیئے طلاق دی تھی تا کہ اس کا کو ئی ولی عہد پیدا نہ ہو سکے ۔اس نے اپنے لیئے ایک ایسا محل بنوایا جس میں دنیا کی تمام نایاب اشیا اکٹھی کی گئیں ،وہ خود کو ایران کا شہنشاہ سمجھنے لگا تھا اور 1971میں اس نے فارسی شہنشاہیت کے ڈھائی ہزار سالوں کی تکمیل کا باقاعدہ جشن منایا اور حد یہ ہوئی کہ اس نے اسلامی ہجری تقویم کو ختم کر کے شمسی تقویم کو نافذ کر دیا ۔

عوام شاہ کے ان غیر اسلامی اقدامات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ،###################جلاوطن راہنما آیت اللہ خمینی نے عوام کی قیادت کی اور ایران میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے ،خمینی نے آگے بڑھ کر اسلامی انقلاب کا نعرہ لگا دیا ،عوام کا غصہ آسمان کی حدوں کو چھو رہا تھا ،عوام نے شا ہ کے محل کا محاصرہ کر لیا ،شاہ چھپتا چھپاتا ایران سے فرار ہوا ،پانامہ کے راستے مصر پہنچا ،انور سادات کا مہمان بنا اور27جولائی 1980میں قاہرہ کے ایک معمولی ہسپتال میں انتقال کر گیا ۔

وفات کے وقت شاہ کی جو دولت بیرونی بینکوں میں جمع تھی وہ دس ہزار ملین پاوٴنڈ سے ذیادہ تھی ۔آج پہلوی خاندان امریکہ کی ریاست میری لینڈ میں گمنامی کی زندگی گزار رہا ہے ۔
دنیا کی معلوم اور نامعلوم تاریخ میں حکمرانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ خود کو ناگزیر سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہو جا تے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ اقتدار قیامت کی صبح تک قائم رہے گا ۔

اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے یہ لو گ ہر سطح تک چلے جاتے ہیں اور اپنی اولا د ،اپنے والدین اور اپنے رشتہ داروں تک کو قتل کروا دیتے ہیں ،اشوک اعظم سے اورنگزیب تک تاریخ ایسے حکمرانوں سے بھری پڑی ہے لیکن وقت کی بے رحم موجیں کسی کو معاف نہیں کرتیں اور سب کچھ بہا کر ساتھ لے جاتی ہیں ۔آپ حا لیہ فلسطین ایشو کو دیکھیں بولیویا جیسا ملک اسرئیل کو دہشت گرد ڈکلیئر کر رہا ہے لیکن ساٹھ اسلامی ممالک کے حکمران چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں انہیں خوف ہے اگر انہوں نے فلسطین کی حمایت میں زبان کھولی تو ان کے مغربی آقا ناراض ہو جائیں گے اور ان کا قتدار خطرے میں پڑ جائے گا ۔

آپ سعودی عرب کو دیکھ لیں ،سعودی شاہی خاندان نے پہلے مصر میں اخوان المسلمین اور اب حماس کے خلاف معاندانہ رویہ اپنایا ہوا ہے ،اسے یہ خوف ہے اگر اس نے ان جماعتوں کی حمایت کر دی تو ان کی بادشاہت خطرے میں پڑ جائے گی ۔بحرین ،کویت ،قطر،مسقط،مصر اور متحدہ عرب امارات کے شیوخ کو بھی اپنا اقتدار عزیز ہے اس لیئے یہ حکمران فلسطین کے حق میں زبان نہیں کھولیں گے ۔

نواز شریف کواقتدار میں رہنے کے لیئے امریکہ اور سعودی خاندان دونوں کو خوش رکھنا ہے اس لیئے ان کی زبان گنگ ہے ۔دراصل ہمارے ان حکمرانوں نے تاریخ سے سبق سیکھا ہوا ہے ،انہیں معلوم ہے انہوں نے اگر اسرائیل کے خلاف زبان کھولی تو ان کا حال بھی شاہ فیصل اور بھٹو جیسا ہو گا جنہوں نے 1973کی عرب اسرائیل جنگ میں کھل کر اسرائیل کی مخالفت کی تھی، ایک اپنے بھتیجے کے ہاتھوں شہید ہوا اور دوسرے کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا گیا ۔

کاش ہمارے ان حکمرانوں کو کو ئی بتائے کہ ان کا یہ اقتدار ہمیشہ نہیں رہے گا ،انہیں کو ئی بتائے اقتدار ناکام محبت کی طرح ہوتا ہے جو شرو ع میں بڑی خوبصورت دکھائی دیتی ہے لیکن اس کا انجام بہت خوفناک ہو تا ہے ،کا ش انہیں کو ئی بتائے جب سکندر جیسا لیڈر دنیا سے چلا گیا تو ان کا یہ اقتداربھی ہمیشہ نہیں رہے گا ،کا ش انہیں کو ئی بتا ئے اقتدار ایک چمک ہے جو پلک جھپکنے کے بعد ختم ہو جائے گی ،انہیں کو ئی بتائے اقتدار ایک خواب اور سراب ہے جو صرف دور سے چمکتی ہو ئی دکھائی دیتی ہے،انہیں کو ئی بتائے اقتدار پکی ہو ئی فصل کی طرح ہے جسے دنوں میں کاٹ لیا جا ئے گا ۔

کا ش کوئی سعودی شاہی خاندان ،نواز شریف او رساٹھ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو پہلوی خاندان کی کہانی سنا دے اور انہیں بتا دے کہ ان کا یہ اقتدارجس کو بچانے کے لیئے انہوں نے تاریخ کے بد ترین مظالم پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے صرف چند روزہ ہے،یہ اقتدار ختم ہو جائے گا لیکن ان کے حصے میں آنے والی ذلت ورسوائی قیامت تک باقی رہے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :