ہم کتنے بدل گئے ہیں!!

پیر 4 اگست 2014

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

وہ بھی ایک وقت تھا کہ گھر کاایک فرد کماتاتھا اورسب کھاتے تھے ۔ہرطرف پیار ومحبت کی ہوائیں چلتی تھیں ،گاؤں میں بھی نہ کوئی امیراورنہ کوئی غریب ہوتا جوہوتے سارے برابر ہوتے۔ نہ کوئی امیربننے کی کوشش کرتا اورنہ ہی کسی کوغریبی کاطعنہ دیاجاتا۔ اس وقت توایساماحول تھا کہ شیراوربکری ایک پتھر پرکھڑے ہوکرزندگی سے لطف اندوز ہوتے، نہ شیر کوبکری پرحملے کاکوئی خیال آتااورنہ ہی بکری دل میں شیر سے ذرہ بھی کوئی خوف محسوس کرتی ۔

گاؤں کی نہ صرف بچیاں بلکہ جوان لڑکیاں بھی روزانہ چشموں پرجانے کے ساتھ عید کے موقع پرگھروں کی لپائی کیلئے مٹی لانے کیلئے دوردورتک جاتیں ۔نوجوان لڑکے اس وقت بھی تھے لیکن کسی کوان بچیوں اورلڑکیوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنا تودور کی بات ان کی طرف آنکھ اٹھانے کی بھی ہمت نہ ہوتی تھی۔

(جاری ہے)

گرمیوں کے موسم میں اکثر لوگ راتوں کوبھی گھروں کے دروازے کھلے چھور کرگھر کے صحن وآنگن میں چارپائی بچھا کرگہری اورمیٹھی نیند سوتے۔

نہ چوروں کاکوئی ڈراورنہ ہی ڈاکوؤں کاکوئی خوف۔ یقین جانےئے کسی کوکسی چیز کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی تھی۔ عید کے موقع پر توہرطرف محبت پیار اوراخوت کے پھول بکھرے ہوتے تھے ۔بڑوں کاادب اورچھوٹوں پرشفقت کی عظیم داستان رقم ہوتی تھی ۔بچے کیانوجوان بھی اپنے سے ایک دن بڑے شخص کے سامنے اف تک نہیں کہتے تھے ۔جس کسی محفل میں عمر میں ایک دن بڑابھی کوئی شخص آتا تومحفل میں بیٹھے سارے لوگ ادب واحترام میں کھڑے ہوتے۔

اس وقت موبائل ،انٹرنیٹ سمیت آج کے یہ دیگر جدید سہولیات تونہیں تھے لیکن اس وقت جوآرام وسکون اورزندگی کاجولطف تھا وہ آج کے ان بیش بہا سہولیات بھرے دور میں بھی نہیں۔ اس وقت اورآج کے وقت میں زمین وآسمان کافرق ہے ۔دن بھی وہی۔ رات بھی وہی ۔صبح کاسورج اسی طرح طلوع ہوتاہے اورشام کاسورج بھی اس رفتار سے غروب ہوتاہے ۔وہی زمین۔ وہی آسمان ۔

نہ شہر بدلے اورنہ ہی گاؤں کی جگہ بدلی لیکن ہم بہت بدل گئے ہیں، اتنے بدل گئے ہیں کہ محض چند سالوں میں خوف وہراس ،مایوسی اوربے سکونی کی کاٹنے دار تاروں اورچادر نے مکمل طورپرہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔سوچتاتھا کہ شہر کے حالات اورلوگ توآئے روز بدلتے رہتے ہیں گاؤں کے لوگ اورحالات تو آج بھی ویسے ہی ہونگے جیسے پہلے تھے لیکن میرایہ اندازہ بھی غلط ثابت ہوا۔

جس طرح شہروں سے امن وسکون اٹھ چکا اسی طرح گاؤں کے اندر بھی اب خالص پیارومحبت اوراخوت کے پھول اورموتی ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے کچھ دن پہلے آبائی گاؤں جوزجوبٹگرام شہر سے تقریبا چالیس کلومیٹر دورشمال کی سمت واقع ہے جانے کااتفاق اورتقریبا تین دن وہاں قیام کاموقع ملا۔ ان تین دنوں میں پرانی یادیں ضرورتازہ ہوئیں لیکن نئی یادکوئی نہیں ملی ۔

گاؤں کاموسم تووہی پیارااورنرالاجس میں سانس لیتے ہوئے بھی دل کوٹھنڈک محسوس ہوتی ہے لیکن گاؤں کے لوگ بھی ہماری طرح اب بہت بدل چکے ہیں۔جس سے یہ یقین ہوگیاکہ جدید سہولیات نے شہروں کے ساتھ گاؤں کاماضی بھی ہم سے چھین لیا ہے آج گاؤں میں بھی جھوٹ،منافقت ،دھوکہ اورفراڈ نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔شہروں کی طرح گاؤں کے سادہ لوگ بھی موبائل انٹرنیٹ جیسی جدید سہولیات کے ہاتھوں مارے مارے پھر رہے ہیں۔

شہر کی چوکوں اورچوراہوں کی طرح اب گاؤں کی ان سرسبز وادیوں میں بھی نفسانفسی کاعالم ہے ۔نہ چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز اورنہ ہی پڑوسیوں کی کوئی فکر۔ ہرشخص اپنے مسائل میں ڈوبا ہواہے آج نہ شہر کی زندگی میں سکون ہے اورنہ ہی گاؤں کی زندگی میں وہ پہلے والالطف۔شہروں کی طرح اب گاؤں میں بھی ہرشخص دوسرے سے خوف محسوس کرتاہے کچے مکانوں کی بجائے مکانات تولوگوں نے پکے بنادیئے ہیں لیکن سیمنٹ اورکنکریٹ سے بنے ان مکانات میں زندگی بسر کرنے والے بھی آج امن سے نہیں۔

کچے مکانوں میں راتوں کوکھلے آسمان تلے سونے والے آج دروازوں کوپیچھے سے دواورتین کنڈیاں اورتالے لگائے بغیر آرام کی نیند نہیں سوسکتے جس پتھر پرشیر اوربکری ایک ساتھ کھڑے ہوکر زندگی کالطف اٹھاتے تھے آج اس پتھر پردوانسان ایک دوسرے سے ڈر اورخوف کے مارے ایک ساتھ کھڑے اوربیٹھنے کیلئے تیار نہیں ۔آج انسان کوانسان سے خوف محسوس ہورہاہے ۔

جدید سہولیات سے واقعی رابطے کٹ اورفاصلے مٹ گئے ہیں لیکن حقیت یہ ہے کہ زندگی میں جوآرام وسکون اورمزہ پہلے تھا وہ آج نہیں ماناکہ وقت کے ساتھ ہرچیز بدل جاتی ہے ۔لیکن جتنے ہم بدلے اس کی کوئی انتہا نہیں ۔کہاں گئی وہ آرام وسکون، چین اورعزت والی زندگی ۔۔۔؟شہر ہویاگاؤں آج ہرجگہ انسان ہی انسان کواپناسب سے بڑادشمن سمجھتا ہے ،آج نہ کسی کی جان محفوظ ہے اورنہ ہی کسی کامال۔

شہروں سے گاؤں تک خوف وہراس کے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔۔ہرجگہ اورہرطرف بے یقینی اوربے سکونی کی فضاء قائم ہے ۔نہ شہروں میں امن ہے اورنہ ہی گاؤں دیہات میں سکون ۔چند ہی سالوں میں حالات اتنے نہیں بدلے جتنے ہم بدل گئے ہیں۔ اپنی اقداروروایات کوپاؤں تلے روندتے ہوئے ہم امن وسکون کی وادیوں سے بہت آگے نکل چکے ہیں جہاں سے اب واپس پلٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔آج چکن،مٹن اوربرگر توہمیں مل رہے ہیں لیکن زندگی میں وہ آرام وسکون نہیں جومکئی کی روٹی اورساگ کھانے اورلسی پینے سے تھا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :