عالمی اسلامی فوج کا قیام،اب کیا دیر ہے ؟؟؟

اتوار 3 اگست 2014

Qasim Ali

قاسم علی

اسرائیل کی قبلہ اول کے نہتے باسیوں پر ایک ماہ کی سفاکیت و حیوانیت اور اس میں تین ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں کی شہادت،بیشمار زخمیوں ،درجنوں مساجد و ہسپتالوں اور معذوروں اور بزرگوں کے مراکز تک کی تباہی کے بعد آخرکار سعودی فرمانروا جناب شاہ عبداللہ صاحب کا بیان آیا ہے کہ یہ سب ظلم ہے جو ہمارے بھائیوں پر ہورہاہے ۔''ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا''شائدشاہ عبداللہ کو اب یادآیاہو کہ یہ ہمارے وہی مسلمان بھائی ہیں جن کے بارے میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ''سب مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں کہ جسم کے ایک حصے کو اگر تکلیف پہنچے تو اس کو سارا جسم محسوس کرتا ہے''چلیں خیر ایک ماہ بعد ہی سہی اب ہی اس تکلیف کا محسوس ہونا بہرحال خوش آئند ہے لیکن اس کو کافی اس لئے قرار نہیں دیاجاسکتا کہ اسرائیل ایک ایسا شیطان ہے جس کو الفاظ کی نہیں طاقت کی زبان ہی سمجھ میں آتی ہے کیوں کہ اگر الفاظ کا اس ناسور پر ذرابھی اثرہوتا تو مسلم حکمرانوں کی طرف سے نہ سہی جس عوام پر یہ کٹھ پتلیاں مسلط ہیں ان کی طرف سے تو ہردور میں اسرائیلی مظالم پر تقاریر،جلسے جلوسوں اور احتجاج کی صورت میں شدید ترین الفاظ اداہوئے لیکن اس کے باوجود اگر ہم ماضی پر ایک نظرڈالیں تو ہمیں 1982ء میں صرف 48گھنٹوں میں جنرل شیرون کے ہاتھوں 8000مسلمانوں کا قتل عام بھی نظرآتا ہے اور 2008ء میں حماس کے برسراقتدارآنے کے بعد کی ناکہ بندی اور بمباری بھی جس میں1400کے قریب فلسطینی شہید ہوئے جن میں زیادہ تر تعداد نابالغ بچوں کی تھی اور اب کی بار بھی جب کہ عید کے ایام میں بھی بہتر گھنٹے کی جنگ بندی کو صرف تین گھنٹوں میں توڑ کر بمباری کردی گئی ہے اس ظلم عظیم پر امریکہ ویورپ اور خود اسرائیل میں بھی اس حیوانیت پر لوگ سڑکوں پر ہیں مگر اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکہ و یورپ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور رینگے گی بھی نہیں جب تک اس کا مستقل اور ٹھوس حل نہیں کیا جاتا جو کہ ایک عالمی اسلامی فوج کے سوا کچھ نہیں جس کا تصور کئی دہائیاں قبل مرحوم شاہ فیصل،ذولفقار علی بھٹواور مہاتیر محمد پیش کرچکے ہیں ۔

(جاری ہے)

اگرچہ موجودہ حالات میں جب تقریباََ تمام اسلامی ممالک پر امریکی غلام براجمان ہیں یہ خاصا مشکل ہے مگر اب اگر یہ لوگ اپنی زندگیوں اور اقتدار کو ہی سامنے رکھیں جس کے بچاوٴ کیلئے یہ امریکہ ویورپ کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں تو پھر بھی انہیں فوراََ مظبوط اسلامی بلاک کا قیام عمل میں لانا ہوگا جس کی اپنی یونیورسٹیاں ہوں جہاں سے مسلم امہ کے اپنے سائینسدان اور انجینئر پیدا ہوں تاکہ مسلمان سائینس و ٹیکنالوجی میں یہیودیوں اور عیسائیوں کی دسترس سے باہر نکل آئے،اس کیساتھ اگر تمام مسلمان ممالک ان ظالم ممالک کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کرکے صرف آپس میں تجارت شروع کردیں تو راتوں رات اسرائیل سمیت پورے مغرب کو نانی یادآجائے گی کیوں کہ یہ ایک تلخ ترین حقیقت ہے کہ مسلمان ممالک پر دن رات مظالم ڈھانے والے ممالک کی سب سے بڑی منڈی بھی ہمارے مسلمان ممالک ہیں یعنی وہ جس سرمائے سے ڈیزی کٹر اور فاسفورس بم بناکر ہمارے مسلمان بھائیوں پر برساتے ہیں وہ یہ سرمایہ کماتے بھی ہم سے ہی ہیں اور تو اور ٓاپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اسی ناجائزوسفاک ریاست اسرائیل کے اردگرد آباد بارہ اسلامی ممالک یہیودی مصنوعات کی تیسری بڑی منڈی ہیں آہ ۔

۔
سادگی اپنوں کی اور غیروں کی عیاری بھی دیکھ
سائنس و ٹیکنالوجی میں خودکفالت کے ساتھ ساتھ اگر ہم اسلامی فوج کے قیام پر ایک سرسری سی نظر ڈالیں تو ہمیں ایک طاقتور اور مظبوط ترین فوج بنتی نظرآتی ہے ۔مثلاََ آپ دیکھیں کہ ان 61اسلامی ممالک کی اس وقت کل آبادی ایک ارب ستر کروڑ ہے ،ان کے پاس تین کروڑ پچاس لاکھ کلومیٹر رقبہ ہے ان ممالک کے پاس موجود ٹرینڈ فوجیوں کی تعداد 80لاکھ ہے اور یہ تمام ممالک اپنے دفاع پر 80ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرتے ہیں ۔

اب اگر یہ تمام ممالک اپنے بجٹ کا ایک چھوتھائی حصہ اس عالمی اسلامی فوج کو دے دیں اور اپنی آرمی کا بھی چوتھا حصہ اس فوج کیلئے وقف کردیں تو یہ اسلحہ،تیکنیک اور سب سے بڑھ کر جذبہ ایمانی و شہادت سے لیس وہ فوج ہوگی جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ہوگی اورجس کے سامنے اسرائیل تو کیاامریکہ،فرانس،برطانیہ،چین اور جرمنی کی افواج بھی ٹھہر نہیں پائیں گی۔


لہٰذا شاہ عبداللہ صاحب کو ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے اس اسلامی فوج کے قیام کیلئے جدوجہد شروع کردینی چاہئے خصوصاََ پہلے مرحلے میں اگر پاکستان،ترکی،مصر اور سعودی عرب اس کی بنیاد رکھ دیں تواور آپس کے تمام تر اختلافات کو بھلاکر اپنی بقا کیلئے ایک ہوجائیں تو دیگر ممالک کی اس بلاک میں شمولیت چنداں مشکل نہیں ہوگی اور اس کے بعد عالمی طاقت کا مرکز صرف اور صرف عالم اسلام ہوگا ۔

وقت اور دشمن کی سازشوں نے روزروشن کی طرح یہ ثابت کردیا ہے کہ مسلم امت کا اتحاد اور اسلامی فوج کا قیام مسلم امت کے حکمرانوں پر ایک قرض ہے جس کو اداکرکے مسلمان بھی محفوظ رہ سکتے ہیں اور اسلام کا نام بھی مزید روشن ہوگا اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ کیاگیا تو اللہ اسلام کو زندہ رکھنے کیلئے تو اور لوگوں کو بھی پیدا کرلے گا مگر یہ نام نہاد مسلم حکمران اپنی جھوٹی شان و شوکت کے ساتھ غرق ہوجائیں گے اور ٓانیوالی ہماری نسلیں ان کی قبروں پر یہ کہہ کر لعنتیں بھیجاکریں گی کہ یہ ہیں وہ لوگ جن کو اللہ نے مسلمانوں پرحکومت دے کر عزت دی مگر انہوں نے یہودونصاریٰ کی غلامی اختیارکرکے اپنے آپ کوذلت وگمنامی کے عمیق گڑھوں میں دھکیل دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :