اسرائیلی جارحیت۔ عالم اقوام اور مسلم حکمرانوں کی خاموشی

اتوار 3 اگست 2014

Shabbir Rakhshani

شبیر رخشانی

دن بدن اسرائیلی جارحیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس جارحیت کے نتیجے میں بے گناہ افراد مارے جا رہے ہیں ۔ اور ایسے لگتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کے مسلمانوں کے قتل عام کی ٹھیکہ اٹھایا ہے اور امریکہ اور اقوام متحدہ اسکے پارٹنر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ کھلی بمباری اور دہشت گردی کا واضح ثبوت تو دے رہا ہے مگر کوئی ہے جو اسے دہشت گرد قرار دے۔

آخر کیوں قرار دے۔ کیونکہ اسرائیل کا ایک اہم اتحادی امریکہ نے تو خود دہشت گردی کو ختم کرنے کا ٹھیکہ مسلم ممالک کے مسلمانوں کو آپس میں لڑاکر حاصل کیا ہے اور غزہ کے بچے تو ہیں ہی دہشتگرد کیونکہ انکے ہاتھوں میں پتھروں کی شکل میں ایٹم بم موجود ہیں جو اسرائیل کے ٹینکرز کو ختم کرنے کے لئے استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

آئے روز ہماری آنکھوں کے سامنے اسرائیل کی بمباری اور دہشت گردی واضح نظر آتی ہے لیکن ہم ہیں کہ چپ ہیں۔

کیا غزہ کے بچوں کو جینے کا حق نہیں ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم کی جانب سے یہ بیان بھی آتا ہے کہ وہ حماس کے سرنگوں کو ختم کئے بغیر واپسی کا راستہ اختیار نہیں کرے گا۔ لیکن بمباری غزہ کے اسکولوں اور ہسپتالوں پر جاری ہے۔ کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری دبے الفاظ میں ان حملوں کی مذمت تو کرتے ہیں لیکن اسرائیل کو دہشت گرد قرار نہیں دیتے کیونکہ یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ اقوام متحدہ مغربی اقوام اور مغرب پالیسی کا ایجنڈا ہے اور انہی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کام کر رہا ہے۔

عراق پر حملے سے پہلے اسی اقوام متحدہ نے عراق کے خلاف کاروائی کی منظوری دی تھی کہ عراق اپنا نیوکلیئر سسٹم بنا چکا ہے عراق پر امریکہ نے حملہ کرکے اسکے وسائل پر اپنا قبضہ جما لیا اس سے واضح ہو گیا کہ اقوام متحدہ امریکہ اور مغربی اقوام کی پاسبان تنظیم ہے اسکے سوا کچھ نہیں جسکے بعد سے لیکر آج تک اقوام متحدہ محض ایک ادارے کا نام رہ چکا ہے ۔

گزشتہ ایک مہینے سے اسرائیل کی بمباری میں ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہید ہزاروں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اور اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ میں قیام پزیر ہیں۔ ان افراد میں عورتیں، بچے اور بڑے سب شامل ہیں۔ والدین کو اپنے لخت جگر شہید اور زخمی اٹھائے ہوئے ہیں جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن صیہونی طاقت اور اسکے حواریوں کو یہ سارے دہشت گرد لگتے ہیں افسوس صد افسوس کہ اس پر پاکستان سمیت سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک خاموش ہیں جنکی خاموشی معنی خیز ظاہر ہوتی ہے۔

پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور سعودی عرب تو اسلام کا قلعہ قرار دیا جا چکا ہے۔ لیکن انکی جانب سے تاحال کوئی سخت پالیسی سامنے نہیں آئی ہے کہ وہ غزہ پر صیہونی جارحیت کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ ملالہ یوسفزئی جو امن کا ایوارڈ لے چکے ہیں اور مغرب کی خوشنودی حاصل کر چکے ہیں۔ خود بھی مسلم اور تعلق بھی مسلم ملک سے ۔ جو تعلیم کو بہترین ھتھیار مانتی ہیں مگر غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں سینکڑوں طلبا و طالبات اپنی جانیں گنوا چکی ہیں اسکولیں تباہ ہو چکی ہیں کتابیں اور قلم نذر آتش ہو چکی ہیں ہزاروں بچے نقل مکانی کر چکے ہیں تو کہاں گئی ملالہ تیری ایوارڈ جو تجھے یاد دلائے کہ تجھے کس چیز کے بدلے نوازا گیا ہے۔

یقینا اس سوال کا جواب نہ ملالہ کے پاس ہے ۔ نہ پاکستان کے پاس نہ سعودی عرب کے پاس۔ کیونکہ اسرائیل وہ ملک ہے جو اپنے فیصلے خود کرتی ہے نہ اسے اقوام متحدہ سے اجازت لینے کی ضرورت ہے۔ نہ امریکہ سے۔ نہ اسے کسی کی مدد کی درکار ہے۔ وہ چاہے دن میں ہزاروں بچوں کو شہید کرے۔ ہزاروں عورتوں کو بیوہ کرے۔ سینکڑوں بچوں کو ماوٴں کی پیٹ سے باہر کی دنیا دیکھنے سے محروم کر دے۔

کوئی نہیں روکنے والا کیونکہ اسکے پاس سرٹیفیکٹ ہے کہ وہ جب چاہے جو کچھ کر لے۔ کیونکہ ہمارے مسلم حکمران اپنے حکمرانی کے نشے میں دھت ہیں۔ جس طرح لیبیا کے کرنل قذافی اپنے حکمرانی کے نشے میں دھت تھے۔ لیکن انکے انجام سے کسی نے سبق نہیں سیکھا۔ مسلم حکمران آج بھی شیعہ اور سنی کش تجربات اور کارخیر میں مصروف عمل ہیں۔ بھلا انکو کیا ضرورت کسی اور کے جنگ میں دھکیلنے کی۔

انہیں تو ایک مرغوب خونی کھیل مغربی آقا سپرد کر چکے ہیں کہ کون شیعہ، کون سنی، کون اہل احدیث۔
آج فلسطین جل رہا ہے۔ عراق جل رہا ہے۔ شام جل رہا ہے۔ مصر جل رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم سب خاموش تماشائی بن کر اس منظر کو خوب کیمرے کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہیں کہ کل کے دن یہی کیمرہ ہماری بربادی کا نظارہ بھی دیگر ممالک کو پیش کرے۔

آج مسلم امہ کو جاگ جانے کی ضرورت ہے بالخصوص پاکستان اور سعودی عرب کو۔ کہ ضرورت کی اس گھڑی میں کم از کم کچھ نہیں کر سکتے تو یہ حملے بند کروا سکتے ہیں۔ اگر دیکھیں تو مسلم ممالک پر صیہونی قوت کی زور آزامائی کو ہم مسلم ممالک ہی ایندھن فراہم کر رہے ہیں۔ جس میں تیل کی پیداوارامریکہ کے کنٹرول میں کر چکے ہیں۔ اور اسرائیل کے بنائے گئے اشیاء کی خریداری میں مصروف عمل ہیں اگر ان دو ملکوں کو دباوٴ میں لانے کے لئے مسلم ممالک چند قدم اٹھائیں تو یقینا یہ ممالک گھٹنے ٹھیکنے پر مجبور ہو جائیں گے۔


اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اسرائیل کو ایک ملک کا درجہ دینے کے لئے امریکہ اور اقوام متحدہ کا بڑا ہاتھ ہے اور غزہ پر بمباری انہی دونوں کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ اور موجودہ صورتحال میں اقوام متحدہ محض ایک ادارے کا نام نظر آتا ہے اور جنرل سیکرٹری بیانات کی حد تک۔ اور غزہ پر جسطرح اسرائیلی درندگی جاری ہے اس پر مسلم حکمرانوں اور اقوام عالم کی خاموشی بھی معنی خیز نظر آتی ہے۔ آج اگر فلسطین کے بے گھر بچوں پر نظر دوڑائی جائے تو آنے والے کل ان میں حماس سے بھی بڑا طاقت نظر آرہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :