تھکاوٴ مظاہرین کو۔ اکساوٴ حکومت کو

اتوار 3 اگست 2014

Kamran Naqvi

کامران نقوی

تاریخ کو اوراق میں برگیڈیر نیاز کا اُس جلوس پر فائرنگ کرنے سے انکار اپنی پوری رعناؤں کے ساتھ ،موجود ہے کہ جب مفتی جعفر حسین کی سرکردگی میں ایک احتجاجی مظاہرہ پنجاب اسمبلی کے باہر ہو رہا تھا اور آخر کار یہ مظاہرین اپنے مطالبات ضیاالحق سے منوا کر ہی اٹھے اورا نہی مطالبات میں سے ایک مطالبے کی وجہ سے ہی اب بینکوں میں زکوة سے استثناحاصل ہو جاتا ہے ، آج بھی ایک شور و غوغا ہے کہ حکومت ایک طرف تو پارلیمنٹ کو سپریم قرار دیتی ہے مگر خود میاں صاحب پارلیمنٹ کو وقت نہیں دے پارہے اور ساتھ ساتھ احتجاجی تحریک کو بڑھوتی دینے کے اقدامات نہ جانے کیوں کر کرتی نظر آتی ہے جب احتجاجی تحریک کے دوران نواب زادہ نصراللہ خان کو گرفتار کر کے ہسپتال لے جایا گیا اور اس دوران نواب صاحب کو بتایا گیا کہ ٓاپکے کارکنوں کو پولیس مار پیٹ کر رہی ہے تو نواب صاحب مسکرا کر کہنے لگے ارے میں بھی تو یہی چاہتا تھامیرا مقصد حکومت نے پورا کردیااحتجاج کرنا ہی اپوزیشن کا حق اور احتجاج سے باز رکھنا حکومت کی ذمہ داری مگر سوال یہ کہ دونوں اپنے مقاصد کو کیسے پورا کرتے ہیں اگرچہ خواجہ سعد رفیق کے آگ اگلتے بیانات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب ابھی بھی اپنے آپ کو اپوزیشن PHASEمیں ہی محسوس کرتے ہیں ورنہ کیا ضرورت ہے دھمکیوں کی جن کا کوئی حاصل ہی نہ ہے ورنہ تو میاں صاحباں کے مصاحب آپکو آگ پر تیل کی بجائے پانی ڈالنے کا مشورہ دیتے کہا یوں بھی جاتا ہے کہ شاید یہی مکافات عمل ہے کہ میاں صاحب جو 1999سے پہلے کہا کرتے تھے کہ میری کامیاب سیات کا راز ہی احتجاج اور احتجاج ہے اور اُس بیان کو کون بھول سکتا ہے کہ جب میاں صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر وزیر اعظم بینظیر بھٹو پنجاب آئیں تو میں بطور وزیر اعلی ان کو گرفتار کروا دوں گا اور وہ بے چاری شرافت کی سیاست کی ماری مظلومہ ائرپورٹ سے ہی واپس چلی گئیں اب جو کہتے ہیں کہ اگر بے نظیر ہوتیں تو اُن سے شاید یہ حکومت اس طرح نہ چلتی جس طرح زرداری صاحب نے 5سال چلائی بلکل درست کیوں جو بینظیر کسی بھی صورت پاکستان کی سیاست میں FITنہ تھیں وہ تو تمام ذندگی انسانیت کے احسن اصولوں پر چل کر سیاست کرتی رہیں اور شاید اسی وجہ سے وہ اپنی بیٹی کو سیاست میں لانچ کرنا چاہتی تھیں مگر ذرداری صاحب پاکستان کی سیاست میں خواتین کی مشکلات کو سمجھ کر اپنے بیٹے کو سیاست کے بے رحم اکھاڑے میں اتار چکے ہیں جہاں قید بھی ہونا ہوتا ہے اور موت کا حکم نامہ سن کر بھی موت کی کوٹھی میں اتنا اطمنان کہ سگار کا کش لگاتے ہوئے سگار کی خاک کو بہت دیر تک نہ گرنے دیا اور نصرت بھٹو کو آواز سنائی دی کہ جلدی کروآخری ملاقات کا وقت ختم ہو چکاکیسی سنسنی ہے سیاست کی راہداریوں میں بھلا کہاں صنف نازک اور کہاں لاہور کا شاہی قلعہ کا وہ ذندان جو زمین کے اندر بنایا گیا جیسے آج بھی شاہی قلعہ سے اندر داخل ہوتے دائیں طرف دیکھ کر خوف آتا ہے اور کجاسیاسی اسیروں کا قید ہوناہاں تو بات سیاسی احتجاج کی! جیسے آج بھی روکنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر کیا طریقہ درست ہے ؟نہیں معلوم ؟کیوں جو حکومتِ وقت ہمیشہ مظلوم کے خون سے گرتی ہے، چاہے وہ یزیدکی ہو یا ہٹلر کی یا بنو امیہ کا زوال یا بنو عباس کا تختہ اور چاہے لال مسجد کی فاسفورس بموں میں خاک ہوتی بچیوں کی وجہ سے مشرف کا جانا۔

(جاری ہے)

ورنہ کیا تھا اور بھی بہت سے طریقوں کو اختیار کیا جاسکتا تھا جو لال مسجد میں موجود افراد کو آخر کار باہر نکلنے پر مجبور کرتے مگر خونِ ناحق نے آسمان کی راہ لی اور مشرف کی حکومت کو نگل گئی اب وہ جس کا طوطی پنجاب میں بولتا تھا جس کی زبان کو لگام نہ تھی بس ایک فیصلہ کہ ماڈل ٹاون کے مظلومین کا خونِ ناحق بس پھر کیا کہ اب رانا ثنا اللہ راندہ درگار بھی اور انے والے دنوں میں گرفتار بھی ؟ ۔

ورنہ اور بھی کہی دوسرے راستے اختیا ر کئے جاسکتے تھے کہ مظاہرین خود ہی تھک کر واپس چلے جاتے جیسے کہ زرداری نے ڈاکٹر قادری کے ساتھ کیا آخرکا ر کہی دنوں کی مشقت کے بعد کنٹینرکے پُرتعش ماحول میں بھی تھکنے کے بعد علامہ صاحب واپس کینڈا سدھارے مگر اب جو خونِ ناحق ماڈل ٹاون کا گرا یہ آسمان کہ بلندیوں کو فریاد کناں ہے اگرچہ برادرانِ یوسف کی مثال یہاں عبث مگر کیا کیجئے اگر ایک بار پھر سے کوئی دوسروں کو تخت مصر عطا کرنے پر مُضر ہے تو کیا کیجئے ۔بس حکومت کے پاس ایک ہی حل کہ تھکا دو مظاہرین کو اور مظاہرین کے پاس ایک ہی حل کی اکساو حکومت کو تشدد پر ۔دیکھیں کون جیتے گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :