عید بھی متنازعہ ہوگئی

جمعہ 1 اگست 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

ہرسال کی طرح امسال بھی عید کا متنازعہ بنادیاگیاملک بھر میں دو عیدیں ہوئیں ابھی پاکستان میں اٹھائیس روزے مکمل ہوچکے تھے پشاور کی مسجد قاسم خان کی رویت ہلال کمیٹی نے پچیس شہادتیں سامنے لاکر عید منانے کا اعلان کردیا ‘ اس سے قبل جب مسجد قاسم خان سے چاند نظرآنے کی بابت اعلان کیاگیااور مرکزی رویت ہلال کمیٹی ایک بار مورد الزام ٹھہرائی گئی تو ہم نے معلومات لینے کیلئے کراچی کی ایک بہت ہی مقتدر شخصیت سے رابطہ کرکے معلومات چاہیں توانہوں نے بتاکرحیران کردیا کہ چونکہ یہ شرعی معاملہ ہوتاہے اس لئے اس کی باقاعدہ چھان بین کی جاتی ہے اور یہ کہ محض چیئرمین ہی فیصلہ نہیں کرتا بلکہ تمام ممبران کی رائے لی جاتی ہے پھر جب سب کا اتفاق رائے سامنے آئے تو چیئرمین اعلان کرتاہے۔

(جاری ہے)

اب یہاں یہ امر بھی توجہ کا طالب ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی میں تمام مکاتب فکر کے اکابرین ‘ علمائے کرام موجود ہیں پھر کیسے سمجھ لیاجائے کہ محض ایک شخص یا کسی ایک گروہ کی وجہ سے ایسے فیصلے سامنے آرہے ہیں۔ بہرحال ہمیں تو علامہ شہاب الدین پوپلزئی کے بیان پر حیرانی ہوئی انہوں نے فرمایا کہ ہم فیصلہ شریعت کی روشنی میں کرتے ہیں جبکہ گذشتہ برس ان کا بیان تھا کہ ہم نے یہ معاملہ سینٹ کے سپرد کردیا ہے۔

ہم نے کوئی رائے قائم کرنے کی بجائے ایک اورصاحب الرائے سے معلوم کیاتو انہوں نے کہا کہ یہ شرعی معاملہ ہے اس بارے میں سینٹ یا پارلیمنٹ کیا فیصلہ دے سکتی ہے ضروری ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام ا س بارے میں اتفاق رائے پیداکریں کیونکہ محض انہی ایام میں ہی ایسے اقدامات کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمان اور خاص طورپر پاکستان کے مسلمان بدنام ہوجاتے ہیں۔


حدیث مبارکہ ہے کہ روزے چاند دیکھ کررکھو اور چاند دیکھ کر ہی ختم کرو‘ اس مبارک قول کی روشنی میں یہ تو بہرحال طے ہے کہ چاند دیکھ کر ہی رمضان‘ عید بکرعید کافیصلہ کیاجاناچاہئے لیکن یہ بھی سوا ل پیداہوتاہے کہ کیا دنیا میں رمضان‘ شوال کا چاند دیکھنے کے معاملے میں ایسی بدنظمی سامنے آتی ہے ؟ یقینا اس کاسیدھاسادھا سا جواب ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں مختلف النوع عقائد کے لوگ بستے ہیں اورپھر وہاں عقائد کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالصتاًزمینی‘ آسمانی حقائق دیکھ کر ہی فیصلہ کیا جاتا ہے ؟
یہاں ایک اوربھی سوال اٹھتاہے کہ محض شوال کے چاند کیلئے ہی کیوں اتنی تگ ودو کی جاتی ہے‘ سرکار کی قائم کردہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی اورصوبائی سطح پر قائم صوبائی اورزونل ہلا ل کمیٹیوں کی مشاورت سے دیگر مہینوں کی بابت کوئی ایسا اختلاف رائے سامنے نہیں آتا حالانکہ عید کے دو ماہ بعد ہی بکر عید آتی ہے‘ پھر محرم بھی اپنی اہمیت کے اعتبار سے توجہ کا طالب ہے پھر ربیع الاول بھی ہے ‘ لیکن آج تک ملک میں کہیں بھی بکرعید پر اختلاف سامنے آیا اور نہ ہی محرم‘ ربیع الاول پر ‘ باعث حیرت تو یہی ہے کہ ایک دن پہلے اورایک دن بعد عید الفطر منانے والے ایک ہی روز بکر عید مناتے ہیں اورپھر محرم کی سوگ کی گھڑیاں بھی ایک ہی روز گزارتے ہیں ‘ربیع الاول کی خوشیوں بھری ساعتوں میں بھی اکٹھے ہوتے ہیں ۔

یقینا ہر ذی شعور سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ آخر عیدالفطر پر ہی اختلاف کیوں؟؟
زمانہ جدید میں جبکہ دنیا چاند پر کئی بار قدم رکھ چکی ہے لیکن ہمارا چاند دیکھنے پر اختلاف ہے‘ ہم آج تک یہ طے نہیں کرسکے کہ ہمیں کس طرح سے چاند کی تلاش کرنا ہے‘ جیسا کہ عرض کرچکے ہیں کہ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی چاند دیکھنے کے کئی طریقہ ہائے رائج ہیں اوران پر کسی مسلک یاگروہ کا اختلاف نہیں‘ پاکستان میں بھی باقاعدہ بڑی بڑی دوربینوں کا سہارا لیاجاتاہے ‘محکمہ موسمیات کی خدمات بھی مستعار لی جاتی ہیں لیکن ہربار ہی عید الفطر متنازعہ ہوجاتی ہے۔


رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے دوران ہی محکمہ موسمیات کی طرف سے پیشن گوئی کردی گئی تھی کہ امسال29 روزے ہی ہونگے۔ اب ذرا ماہرین موسمیات وفلکیات کی زبانی سنی ہوئی بات بھی عرض کردیں کہ چاند غروب ہونے کے تین راتوں تک غائب ہی رہتاہے اورطلوع ہونے سے ایک رات قبل اماوس کی رات ہوتی ہے۔ گویا انتیس یا تیس کی رات کو چاند طلوع ہوتاہے تاہم ایک رات قبل اماوس کی رات کو ہی علم ہوجاتاہے کہ کل چاند طلوع ہوگا۔

اب یہ کہنا کہ ہرشخص ہی جان لیتاہے کہ چاند کل طلوع ہونا ہے تو یہ سراسر غلط ہے کیونکہ یہ بھی ایک طرح کا علم یا مشاہدہ ہی ہے جس کی بابت عام آدمی کو اس قدر معلومات نہیں ہوتیں جس قدر ماہرین رائے رکھتے ہیں۔
آخری رات کہ چاند کبھی چھپ نہیں پاتا ‘مثال کے طور شوال کے چاند کی بابت ذیقعد یا ذی الحجہ میں ہی خبر ہوجاتی ہے کہ ہم نے عید الفطر غلط منائی ہے یا درست ؟؟؟؟ یقینا آنیوالا چاند بھی یہی بتادے گا۔

تاہم گزرا ہوا اوربیتے ہوئے پل تو واپس نہیں آسکتے ‘جو جگ ہنسائی ہوئی وہ بھی لوٹائی نہیں جاسکتی ۔
آخری بات کے طور پر عرض کریں گے کہ بعض احباب فرماتے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ ہی عیدین کا فیصلہ کیاجائے توعرض یہ ہے کہ سعودی عرب کے جغرافیائی حالات مختلف ہیں اورہمارے مختلف‘ پھر حدیث مبارکہ کی روشنی میں کہ ”چاند دیکھ کر رمضان کے روزے شروع کرو اور چاند دیکھ کر ہی اختتام“ یہ کہنا بالکل ہی غلط ہے تمام مسلمان ایک ہی روز عید منائیں کیوں مغرب کے بیشتر ممالک کے موسموں‘ جغرافیائی حالات کا ایشیا سے بہت ہی زیادہ فرق ہے۔

یہاں اگر دن طلو ع ہورہاہوتاہے تو وہاں کے لوگ مزے کی نیند سورہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہرسرزمین کا اپنا ہی مزاج ہے‘ ہمارے لئے بہتر ہوگا کہ ہم کسی بھی دوسرے ملک کی تقلید کرنے کی بجائے اگر ہم اپنے اس نظام کو درست کرلیں تو زیادہ اچھا ہے‘ نیز یہ بھی یاد رکھاجاناچاہئے کہ محض ایک شخص یا کسی ایک گروہ کی غلطی کی وجہ سے اگر کسی خاص علاقے یا کسی خاص ملک کے لوگوں کی عبادات پر اثر پڑے تو گناہ ثواب کی ذمہ داری اسی ایک شخص یا اس گروہ پر ہی عائد ہوگی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :