رمضان۔۔۔ صبر و برداشت کا درس

ہفتہ 26 جولائی 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

رمضان المبارک کا با برکت مہینہ دروو سلام کی صداؤں کے ساتھ اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ اللہ نے صاف کہہ دیا کہ روزہ ہم پر اس لیے فرض کیا گیا تا کہ ہم متقی ہو جائیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا بھی دوں گا۔ یعنی یہ ایک ایسی عبادت ہے جو مکمل طور پر ہمیں متقی بنانے کے لیے ہے۔ رمضان کا مہینہ نہ صرف انسان کو اپنے نفس کو قابو کرنے میں مددگارہوتا ہے بلکہ یہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔


پورا دن انسان بھوک و پیاس کی شدت سہتا ہے۔ اس کا نفس اس کوکھانے پینے پر مجبور کرتا ہے لیکن وہ صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے ایسا کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اور جو شخص اپنے نفس پر قابو پا لے وہ انسانیت کی معراج پانے کا راستہ ہموار کر لیتا ہے۔

(جاری ہے)

پورا دن انسان کے سامنے پانی موجود ہوتا ہے اس کے سامنے کھانے پینے کی اشیاء موجود ہوتی ہیں لیکن وہ اپنا ہاتھ روک لیتا ہے کیوں کہ اسے اللہ کی خوشنودی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔

اور جب نعمتیں سامنے ہوتے ہوئے بھی وہ ان نعمتوں سے خود کو (صرف اللہ کو خوشنودی کے لیے) روکتا ہے تو اس کے دل میں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا جذبہ ابھرتا ہے۔
انسان کسی نہ کسی حد تک اپنے نفس پر قابو بھی پاتا ہے اور اللہ کی نعمتوں کا شکر بھی ادا کرتا ہے۔ لیکن رمضان کا حقیقی پہلو انسان بھلا دیتا ہے۔ اور س پہلو کو بھلا دینے سے وہ اپنی عبادات کو ناقص کر دیتا ہے۔

رمضان کے مہینے میں جس عمل کا اجر کئی گنا ہے وہ " صبر و برداشت" ہے لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہم اس عمل پر پورا نہیں اترتے۔ہم انجانے میں اپنی عبادات کو بے وقعت کر دیتے ہیں۔
رمضان کے مہینے کا تقاضا یہی ہے کہ ہر معاملے میں صبرو برداشت سے کام لیں۔ غصے پر قابو پائیں۔ ایک بات جو شاید ہم ذہن نشین نہیں رکھتے کہ روزہ رکھ کر (نعوذ باللہ) ہم اللہ پر کوئی احسان نہیں کر رہے بلکہ اس کا مقصد مکمل طور پر ہماری فلاح ہے۔

اکثر دفاتر میں لوگ اپنے زیر سایہ کام کرنے والے ملازمین کے ساتھ بہت غصے سے پیش آتے ہیں۔ ان پر سختی کرتے ہیں۔ روزہ رکھنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم کاروبار زندگی سے مکمل طور پر الگ ہو جائیں۔ روزہ ہمارے معمولات کو متاثر کرنے کا نام تو نہیں۔ بلکہ رمضان کا مہینہ تو انسان کو ایک مکمل ترتیب سکھاتا ہے۔ ہرکام کو اس کے مقررہ وقت پر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

انسان تمام کام ایک مقررہ وقت پر ختم کر کے افطاری کے وقت گھر پہنچنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ روزہ ہمارے بکھرے معمولات کو ایک نارمل روٹین میں لانے میں مدد دیتا ہے نہ کہ زندگی کے معمولات کو ڈسٹرب کرنے میں۔
بازاروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا جائزہ لیں تو ہمیں گالم گلوچ عام نظر آتی ہے۔ دوکاندار حضرات نماز کے وقت بہت اہتمام کے ساتھ مساجد کا رخ کرتے ہیں لیکن یہی لوگ جب کسی گاہک کے ساتھ معمولی سی بات پر تلخ کلامی پر اتر آتے ہیں حیرت ہوتی ہے کہ جو مہینہ خصوصی طور پر ہمیں صبر و برداشت کا درس دیتا ہے اسی مہینے میں ہم صبر کا دامن مکمل طور پر چھوڑ دیتے ہیں۔

پبلک ٹرانسپورٹ میں ایک ایک روپے کی خاطر مسافروں سے گتھم گتھا ہونا ڈرائیور و کنڈیکٹر حضرات کا معمول ہے۔ وہ اس مہینے کے تقدس کا خیال کیے بغیر پرانی روش پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ کم ا ز کم اس ایک مہینے میں تو کسی کی زیادتی پر بھی صبرکرنا چاہیے ۔ کوئی غلط بات بھی کہہ جائے تو اس کو برداشت کرنا چاہیے ہو سکتا ہے اس ایک مہینے اگر ہم اپنا طرز عمل تبدیل کر لیں تو یہ رویہ باقی کے مہینوں میں بھی ہمارے ذات کا حصہ بن جائے۔


افطاری کے وقت سے کچھ دیر پہلے آپ کبھی سڑک پر ٹریفک کی صورت حال کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ایک ہجوم بے ہنگم ہے۔ ہر کوئی ہارن پہ ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ کوئی کسی دوسرے کو راستہ دینے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں نظر آتا ہے۔ کسی نے اگر غلطی سے بھی کوئی درخواست کر دی تو آؤ دیکھا نہ تاؤ اور گریباں ہاتھ میں۔

کیا رمضان کا درس یہی ہے؟ صبر و برداشت کا دامن چھوڑ کر تو ہم صرف جسم کو بھوک و پیاس ہی سہہ رہے ہیں روزہ اور اس کی برکت سے تو ہم کوسوں دور ہو گئے۔ ہمارے ایک پروفیسر ، اللہ انہیں خوش رکھے، کہا کرتے تھے کہ رمضان کے مہینے میں اگر کوئی تم سے زبردستی بھی لڑائی جھگڑے یا گالم گلوچ کی کوشش کرے تو تم یہ کہتے ہوئے راستہ بدل لو کہ " میں روزے سے ہوں" آپ کا یہ قدم اس غلط حرکت کرنے والے شخص کو بھی شرمندہ کر دے گا۔


نعتوں کی گونج ہر گھر سے سنائی دے رہی ہے۔ مسجدیں نمازیوں سے گچھا گھچ بھری ہیں۔ بلکہ مساجد میں تو زیادہ گنجائش پیدا کرنے کے لیے اضافی بندوبست کیے گئے ہیں۔ سڑکوں تک نمازیوں کی لمبی قطاریں ہیں۔ خشوع و خضوع کے ساتھ صاف لباس زیب تن کیے خراماں خراماں مساجد کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔ لیکن ہم رمضان کریم کے اصل مقصد کو جب چھوڑ دیتے ہیں تو ہماری عبادات بھی شاید سند قبولیت حاصل نہیں کر پاتیں۔

کبھی ہم نے غور کیا کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں۔ درود و سلام کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ پھر بھی ہماری مشکلات کیوں کم نہیں ہوتیں؟ اللہ بے شک ہر شے پر قادر ہے لیکن ہو سکتا ہے ہماری عبادات فضاء میں معلق ہوں صرف اس لیے کہ یہ عبادات مقصد یت و مرکزیت سے عاری ہیں۔ اگر ہم صبرو برداشت کے عمل سے ہی پہلوتہی کر رہے ہیں تو پھر کیا فائدہ ہماری جبینوں پر سجدوں کے نشانات کا۔

کیا فائدہ ہمارے فطرہ و زکوٰة کا۔ کیا فائدہ ہمارے بھوکا اور پیاسا رہنے کا۔
اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں ۔ آج ہمیں جتنی بھی مشکلات کا سامنا ہے ۔ جتنے بھی مسائل کا ہمیں سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ صبرو برداشت کی کمی ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پاتے لہذا ہم سیاسی ابتری کا شکار ہیں۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کو برداشت نہیں کر سکتا جس کی وجہ سے فرقہ بندی عروج پر پر ہے۔

ایک نسل کا بندہ دوسرے نسل کے بندے کو کم تر سمجھتا ہے لہذا نسل پرستی عام ہے۔ ایک صوبے کا رہنے والا دوسرے صوبے کے رہنے والے کو ایک لمحہ برداشت نہیں کر سکتا جس کی وجہ سے صوبائیت پروان چڑھ رہی ہے۔ مذہبی راہنما ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں جو معاشرے میں شدت پسندی کے بڑھنے کی وجہ بن رہا ہے۔
اگر آج ہم رمضان کے بابرکت مہینے میں یہ عہد کر لیں کہ ہم دوسروں کی خطاؤں کو درگزر کریں گے۔

کسی کی زیادتی پر صبر سے کام لیں گے۔ اور کسی کے غلط طرز عمل پر بھی برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے تو انفرادی سطح پر تو ہم میں ایک مثبت تبدیلی آئے گی ہی لیکن اجتماعی سطح پر بھی ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔ اور رمضان دراصل صبر و برداشت کا ہی درس لیے ہوئے ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :