سرزمین فلسطین پر یہودیوں کا دعویٰ ملکیت

جمعرات 24 جولائی 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

اسرائیل کے یہودیوں کا کہنا ہے کہ فلسطین ان کے آباؤ اجداد کی سرزمین ہے لہذا وہ اس سرزمین پر دوبارہ قابض ہونے میں حق بجانب ہیں ۔اگرچہ بین الاقوامی قوتیں یہودیوں کے اس دعوے پر ان کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہیں تاہم حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں ۔ دراصل یہودی خاص منصوبہ بندی اور عیاری سے سرزمین فلسطین پر قابض ہوئے اوربلآخر اسرائیل کے قیا م میں کامیاب ہوگئے۔

اس سازش میں بین الاقوامی طاقتوں مثلاََ برطانیہ اور امریکہ نے یہودیوں کو معاونت فراہم کی جبکہ29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اسرائیل کے قیام کی منظوری دے دی۔ جنرل اسمبلی کے 10 ممبر ان سرزمین فلسطین کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اجلاس سے غیر حاضر رہے ۔

(جاری ہے)

اس تقسیم کا قابل زکر پہلو یہ ہے کہ 1947ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین کے مالک تھے ۔

اقوام متحدہ نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کے ساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔اس غیر منصفانہ اور بد دیانتی پر مبنی تقسیم کی وجہ سے اسرائیل کو وجود میسر آیا اور ہنوز یہودی توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خاطر مظلوم اسلامیان فلسطین کی نسل کشی کر رہے ہیں ۔

حالیہ اسرائیلی دہشت گردی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ تاریخی حقائق کی جستجو کی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ آیا واقعی موجودہ فلسطین اور ماضی کے کنعان پر یہودیوں کا حق وراثت درست ہے یانہیں ۔
تاریخی حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ حضرت اسحاق علیہ السّلام مسجد الاقصٰی میں عبادت کیا کرتے تھے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرّمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔

ان کے پوتے حضرت یوسف علیہ السّلام جب مصر کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے خاندان کے 31 اشخاص کو جن میں ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السّلام اور سارے بھائی بھی شامل تھے مصر بلا لیا تھا ۔ بنی اسرائیل کے یہودی پہلے ہی دولت و ثروت کی خاطر فلسطین چھوڑ کر مصر میں آباد ہو گئے تھے اور مصریوں کے غلام ہونا قبول کر چکے تھے ۔ حضرت یعقوب علیہ السّلام نے جاتے ہوئے مسجد الاقصٰی فلسطینی باشندوں کے سپرد کر دی تھی جو کہ نیک لوگ تھے مگر بنی اسرائیل میں سے نہیں تھے ۔

حضرت یوسف علیہ السّلام کے 300 سال بعد حضرت موسیٰ علیہ السّلام مصر میں پیدا ہوئے۔ جس سرزمین پر یہودی اپنی میراث ہونے کا دعوی کرتے ہیں اسے انہوں نے اپنی مرضی سے حضرت موسی علیہ السّلام سے 400 سال پیشتر خیر باد کہہ کر مصر میں دولت کی خاطر غلام بننا قبول کیا تھا۔
حضرت موسی علیہ السّلام کے 40 سال بعد تک بنی اسرائیل صحراے سینائی میں بھٹکتے رہے یہاں تک کہ ان کی اگلی نسل آ گئی اگر یہودیوں دعویٰ کا درست تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ حکومت اس وقت مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی جب آج سے 2591 سال قبل بابل والوں نے اس پر قبضہ کر کے بمع عبادت گاہ سب کچھ مسمار کر دیا تھا اور بنی اسرائیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا تھا ۔

واضح رہے کہ بابل عراق کے شمالی علاقہ میں واقع ہے ۔اسرائیل کے تمام لیڈروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی فلسطین تو کیا سرزمینِ عرب سے بھی تعلق نہیں رکھتا ۔ تھیوڈور ہرستل بڈاپسٹ (ہنگری) کا تھا ۔ بن گوریاں پولانسک (پولینڈ) کا ۔ گولڈا میئر کِیو (یوکرَین) کی ۔ مناخم بیگِن بریسٹ لِٹواسک (روس) کا ۔ یِتسہاک شمِیر رْوزینوف (پولینڈ) کا ۔

خائم وائسمَین جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا وہ موٹول (پولینڈ)کا تھا ۔ثابت یہی ہوتا ہے کہ نہ تو اسرائیل کے لیڈروں کا فلسطین سے کوئی تعلق تھا یا ہے اور نہ فلسطین یا اس کا کوئی حصہ کبھی بھی یہودیوں کی مملکت تھا ۔ ریاست اسرائیل کا وجود جور و جبر کا مرہون منت ہے ۔ اگر یہ اصول مان لیا جاے کہ چونکہ 1005 قبل مسیح میں حضرت داوٴد علیہ السلام کی حکومت شروع ہونے سے وہاں بابل والوں کے قبضہ تک یعنی 400 سال یہودی فلسطین کے علاقہ میں رہے (یعنی آج سے 2610 سے 3010 سال پہلے تک) لہذا اس بنیاد پر یہودیوں کی ریاست وہاں ہونا چاہیئے تو پھر ہسپانیہ ، مشرقی یورپ ، مغربی چین ، مغربی روس اور ہندوستان پر 800 سال یا اس سے زیادہ عرصہ مسلمانوں کی حکومت قائم رہی ہے چنانچہ یہ سارے ملک مسلمانوں کے حوالے کر دیئے جائیں ۔

اِسی طرح اور کئی ملکوں کا تنازع کھڑا ہو جائے گا ۔ کوئی عجب نہیں کہ کل کو بھارت کے ہندو کہیں کہ موجودہ پاکستان کے کافی علاقہ پر تو ہمارے موریہ خاندان (چندر گپت اور اشوک کمار ۔322 سے 183 قبل مسیح) نے 129 سال حکومت کی تھی اور اسے واپس لینے کے لئے بھارت پاکستان پر حملہ کردے اور امریکہ وغیرہ اسرائیل کے متذکّرہ اصول پر بھارت کا ساتھ دیں ۔ اِسی طرح مسلمانوں کا بھی حق بنتا ہے کہ سارے مِل کر جنوبی اور مشرقی یورپ پر حملہ کردیں کہ یہاں کِسی زمانہ میں مسلمانوں کی حکومت تھی ۔

قدیم امریکی موجودہ سفید فام امریکیوں کو جو کہ دراصل انگریز ، جرمن اور ہسپانوی وغیرہ ہیں امریکہ سے نکل جانے کا کہیں ۔ آسٹریلیا کے اصل باشندوں کی خاطر سفید فام آسٹریلویوں کو نکل جانے کا حکم دیا جائے ۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا تو پھر اِسرائیل بنانا کس طرح جائز ہے ؟
حکیم الامت علامہ اقبال نے اسی لئے فرمایا تھا
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :