ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ

جمعرات 24 جولائی 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

یوں تو ساری کی ساری سیاست ہی ایسی ہے کہ
ہیں کواکب کچھ ‘نظرآتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
خاص طورپر ایسے سیاسی رہنماجو اپوزیشن میں تو ان کے دیکھنے کاانداز ‘آنکھ کازاویہ کچھ اور ہوتاہے لیکن جونہی اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے کاموقع مل جائے تو پھرآنکھ دیکھنا بندکردیتی ہے اور بندہ وہی کچھ دیکھتا ہے جو اس کی خواہش ہوتی ہے۔

بھولاکہتا ہے کہ اقتدار کے دنوں میں وزیرشذیر ‘وزیراعلیٰ ‘وزیراعظم وغیرہ وغیرہ ”کلربلائنڈ “ ہوجاتے ہیں اور انہیں ہرکلر بھی بلیک اینڈوائٹ نظرآتاہے گویا دنیا کے رنگوں سے بھی بے نیاز۔ لیکن انکی اپنی دنیا چونکہ رنگین ہوجاتی ہے اسی لئے دنیا کی سنگینی ان پر اثرانداز نہیں ہوپاتی
بہرحال سیاسی بازیگروں کی بابت پڑھتے یا سنتے ہوئے عجیب سا احساس ہونے لگتا ہے کہ ان بازی گروں نے اب تو عوام کو بازی سمجھ کر بازی گری شروع کردی ہے۔

(جاری ہے)

یا شاید ان کے آس پاس رہنے والے مشیران کی لمبی لمبی لائنیں ہاتھ باندھنے محض ”یس سر یس سر“ کی گردان گردانتے ہوئے کبھی کبھار ”سب اچھا ہے “ یا پھر ”ہرطرف امن شانتی ہے “ کے نعرے بھی بلندکردیتی ہیں۔اگر یہ مشیران کہیں کہ ”بادشاہ سلامت! آج موسم خاصاخوشگوار ہے‘ ہرسو ہریالی ہی ہریالی ہے کیوں نہ آج مملکت کی سیر کی جائے “ بس جی بادشاہ سلامت کا بھی جی مچلنے لگتا ہے اور وہ مشیروں‘مشیراؤں کے جھرمٹ میں خصوصی طیارے کے ذریعے کسی دوسرے ملک چل نکلتے ہیں کہ ”’ہرملک ‘ملک ماست“
بہرحال ہمیں موجودہ حکمرانوں کا تو پتہ نہیں ‘ البتہ احساس ضرور ہے کہ ان حاکمین کو بھی الا ماشااللہ ایسے بے شمار مشیروں کی خدمات حاصل ہے جو دن کو رات اوررات کو دن قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے اور ہمیں یقین کہ حاکمین وطن اپنی آنکھوں سے دن نکلتا دیکھنے کے باوجود ”آمین“ کہہ کر سر جھکالیتے ہیں کہ ”بے شک کالی رات ہوتی ہے لیکن آج دن کالا ہے“
چھوڑئیے کہ ”ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ“ کے مصداق یا پھر”اقتدار کے ساون میں اندھے کو ہرسو ہریالی ہی نظرآتی ہے“کے مطابق اقتدار کا ساون جب ہرسو چھن چھن برس رہاہو تو پھر بندہ خواہ مخواہ کی بے حسی کی چادر تانے رہتاہے۔


اب مسلم لیگ کو ہی دیکھ لیجئے․․․․․․عوام آج بھی منتظر ہیں اور بلکہ کئی منچلے تو مینار پاکستان کے ٹھیک اس مقام پر کہ جہاں ”خادم “ صاحب نے کیمپ لگایا تھا‘ ٹینٹ وغیر ہ لیکر پہنچ گئے ۔کسی کے ہاتھ میں وہ ”پنکھا“ بھی تھا جسے آج کل ”خاص پاکستانی زبان “ میں ہمت فین بھی کہاجاتاہے۔ ہوسکتا ہے کہ ”خادم “ صاحب بوجہ مصروفیت اتنا ٹائم نہ نکال سکیں کہ بازار سے ہی ہمت فین منگواسکیں لہٰذا کیوں نہ ایڈوانس میں ہمت فین اورٹینٹ کے ساتھ آن موجو د ہوئے لیکن بیچاروں کی امید خاک میں مل گئی کیوں کہ شایدمشیران نے ”خادم صاحب“ کو بتادیاتھا کہ ملک کی حالت محض ایک سوا ایک سال میں بہت بدل گئی ہے‘ توانا ئی کا بحران ٹل گیا ہے‘ اور لوڈشیڈنگ․․․․․․․ لوڈشیڈنگ تو سرے سے موجود ہی نہیں ہر سو ‘دن ہویارات لائٹیں ہی لائٹیں چمکتی نظرآتی ہیں‘ پنکھا دن رات چلتارہتا ہے ‘ بس مزے ہی مزے ہیں․․․․․․ لیکن مشیروں میں کوئی دل جلا ”نائی “ موجود نہیں جو اپنا استرا چوری ہونے پر کم ازکم اتنا تو شورمچادے کہ ”ملک میں لوٹ مار ‘چوری چکار ی عام ہے“ یا پھر یہ بھی ہوسکتاہے کہ کوئی مشیر سرکاری گاڑی میں ”نجی خریداری “ کیلئے بازار نکلے اورجس شاپنگ مال میں اسے خریداری کرنا ہووہاں لوڈشیڈنگ کا جن قبضہ جمائے بیٹھا ہو ‘ دکان دار پسینے سے شرابور ہو‘ کبھی دائیں طرف سے اورکبھی بائیں طرف سے پسینہ پونچھ رہا ‘ ایسے بھیگے بھیگے ماحول میں ”مشیرخاص “ پسینے میں بھیگتے بھگوتے ‘خریداری کرکے جب واپس آئیں تو چیخنے چلانے لگیں ”خادم صاحب ! او ․․․خادم صاحب ! ملک میں واقعی توانا ئی کا بحران‘ ہرسوگرمی کے ڈیرے ہیں‘ میری حالت دیکھیں گرمی نے مت ہی ماردی ہے‘ خدا کیلئے لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مینار پاکستان پر کیمپ ہی لگالیں“آگے سے خادم صاحب !پردہ سرکاتے ہوئے کہیں ”اوئے تمہیں پتہ نہیں ہے کہ اوپر کی سرکار میرے بڑے بھائی جان کی ہے‘ کیا میں اپنے بھائی کے خلاف احتجاج کرونگا ‘ یہ ٹھیک ہے کہ لائٹ وائٹ کچھ نہیں ‘ لوڈشیڈنگ بہت ہے لیکن بھائی جان تو پھر بھی بھائی جان ہیں اورتمہیں پتہ ہے کہ بھائی جان مجھے لوڈشیڈنگ سے تو پیارے ہی ہیں“
صاحبو! خواجہ صاحب نے ایک اور نیافارمولہ متعارف کرادیا ۔

کہا کہ اگر لوڈشیڈنگ میں کمی چاہتے ہیں تو دعا کریں کہ بارش ہوجائے‘ بات تو ان کی بھی ٹھیک ہے ‘ تو پھر آئیے سارے کام ہی دعا سے کرتے ہیں‘ یعنی بل جمع نہ کرائیں اوربس دعا کرلیں کہ بل جمع ہوجائیں‘ سرکار کو ٹیکس دینے کے بجائے محض دعا دیدیں کہ ٹیکس جمع ہوجائے‘ سرکاری ملازمین ڈیوٹی کرنے کی بجائے رات دن مصلے پر بیٹھ کر ”یااللہ !میرا فرض پورا کردے “ یا پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر نہایت خشوع وخصوع کے ساتھ دعا مانگتے نظرآئیں ”یااللہ ! میری نوکری اسی سکون کے ساتھ چلتی رہے“ یقینا ہرسو سکھ چین ہی ہوگا ‘ سڑکوں پر گاڑیوں ہوں گی نہ دفاتر میں بندہ نہ بندے کی ذات ‘ پھر یوں ہوگا کہ
”گلیاں ہوجان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے“
لیکن خواجہ صاحب کو کون سمجھائے کہ بعض کام دعاؤں کے ساتھ ”دواؤں“ کے بغیر نہیں ہوپاتے ۔

اس کیلئے عمل بھی ضروری ہوتا ہے ۔ مگر کون کہے ‘ کیوں کہنے والے چپ ہوگئے اور جنہیں سڑکوں پر آکر کہنا یا بولنا تھا وہ بیچارے ”میثاق جمہوریت“ کی رسی نہیں تڑواپارہے ‘ بقول زور داری صاحب ! یہ پانچ سال میں میثاق جمہوریت پورا کرونگا اوراس کے بعد سیاست کرونگا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سابق صدر کو اپنا پرانا قول یاد کرنا چاہئے جب انہو ں نے فرمایا تھا کہ ”معاہدے قرآن کا حرف تو ہوتے نہیں کہ توڑے نہ جاسکیں“ یاپھر انہوں نے پہلے بھی معاہدوں کو کاغذکاٹکڑا کہہ کر مستر دکردیاتھا ۔

لوگ چاہتے ہیں کہ وہ آن بان شان ان میں لوٹ آئے اوروہ مخصوص ”دنداسہ “ مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوئے سامنے آجائیں ”میثاق جمہوریت بھی میری بیگم صاحبہ کی طرح دنیا میں نہیں رہا“ لیکن اب تو ہرسوخانصاحب دوڑتے نظرآتے ہیں یاپھر قادری صاحب کا انقلاب ․․․․لیکن فی الحال اس بھاگم دوڑ سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہوسکتا ہے کہ 14اگست کو ہی ”آزادی “ مل جائے مگر بات وہیں آن پہنچتی ہے کہ ان بازی گروں کے اندر کھلا تضاد اور دھوکہ ہے۔ چاہے وہ اقتدار والے ہیں یا انقلاب والے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :