دماغی تھکن

جمعرات 24 جولائی 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

بعض پوسٹیں ایسی ہوتی ہیں جہاں کام کا بہت دباؤ ہوتا ہے ۔ جہاں فوری طور پر اہم نوعیت کے فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔جہاں اہم اسائنمنٹ کو یاد رکھنا ہوتا ہے۔جہاں مختلف نوعیت کے جائز ناجائز پریشر ہوتے ہیں۔جہاں پبلک ڈیلنگ، آفس ڈیلنگ اورموبائل ڈیلنگ ہوتی ہے۔یہ صورتحال بعض اوقات بے چینی اور اضطراب پیدا کرتی ہے۔ بے چینی اور اضطراب کی وجہ سے کام سنورنے کی بجائے بگڑنے لگتے ہیں۔


ہنگامی حالات میں انسان عام حالات کی نسبت زیادہ الرٹ ہو جاتاہے۔ ہائی الرٹ ہونا اچھی بات ہے لیکن سارا وقت ایسے رہنا اچھی بات نہیں۔ہائی الرٹ پوزیشن میں انسان اُس اتھلیٹ کی مانند ہوتا ہے جو دوڑنے سے قبل پوزیشن لئے کھڑا ہوتا ہے۔مسلسل اس پوزیشن میں رہنے سے جسم کا سارا نظام بگڑ کر رہ جاتا ہے۔

(جاری ہے)

مختلف محاذوں کی جنگ ہیجانی کیفیت میں نہیں بلکہ ٹھہراؤ کی کیفیت میں لڑی جاتی ہے۔

مختلف محاذوں کی جنگ لڑنے کے لئے دماغ ٹھنڈا لیکن قدم تیز ہونا چاہیے۔بعض اوقات ذہن پر بے جا جلدی طاری رہتی ہے جسے ہم ذہنی بیداری سمجھتے ہیں لیکن یہ ہیجان ہوتا ہے۔اس کیفیت سے ذہنی کام بہت تھوڑاہوتا ہے لیکن بندہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ اُس نے بے شمار کام کرلیا ہے حقیقت میں صرف اُس کا ذہن مصروف رہتا ہے۔ ذہن کو اُس کام پر مرکوزنہ کیا جائے جو کر رہے ہیں اورکام لاشعوری طور پر یا نیم بیداری کی حالت میں کیا جائے تو اس کے اثرات بوریت والے ہوتے ہیں۔

زیادہ تر لوگ روزمرہ کا کام کاج مشین کی طرح کرتے ہیں۔ جا کہیں اور رہے ہوں تو ذہن کہیں اور ہوتا ہے ۔ اس نیم بیداری میں کام تو سارے ہو جاتے ہیں لیکن یہ عادت ہو جاتی ہے۔اس عادت کی وجہ سے جہاں مکمل بیداری سے سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں بھی ذہنی صلاحیتوں کو پوری طرح بیدار نہیں کرتا۔جب ہم کسی مشکل صورت حال میں پھنس جاتے ہیں یا بیک وقت کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم اپنے پٹھوں کو اکڑا لیتے ہیں جس سے کام بھی صحیح طریقے سے نہیں ہوتا اور اعصابی توڑ پھوڑ ابھی ہوتی ہے۔

جب ہم پٹھوں کو اکڑا لیتے ہیں تو بہت جلد تھکن محسوس کرنے لگتے ہیں۔ہم تھک جاتے ہیں کیونکہ ہمارا ذہن ہمارے جسم کو تھکاوٹ کی تحریک دیتا ہے۔تھکان سے توانائی مانند پڑ جاتی ہے۔جہاں تک دماغ کا تعلق ہے یہ بارہ چودہ گھنٹے کے بعد بھی اتنی ہی تیزی سے اپنا فرائض انجام دے سکتا ہے جتنا کہ آغاز کے وقت ۔ دماغ سراسر انتھک ہے۔ عجلت، تیزی ،بھاگم بھاگ اور اعصابی کشمکش سے دماغی ونڈو کرپٹ ہو جاتی ہے ۔

افرا تفری کے عالم میں ذہن میں خیالوں ، سوچوں ،تصوروں اور تفکرات کا ہجوم رہتا ہے جس سے مسلے حل ہونے کی بجائے الجھتے چلے جاتے ہیں اورتھکن ہوتی ہے۔جذباتی گھٹن اور اعصابی کھچاؤبہت بری چیز ہے اس سے مایوسی اور یاسیت پیدا ہوتی ہے۔اس گھٹن کی وجہ سے بندہ ایسے محسوس کرتا ہے جیسے کوئی حادثہ ہونے والا ہو یا یہ کہ معلوم نہیں ابھی کیا ہو جائے۔

ہیجان اور کھچاؤ صرف شبہات پیدا نہیں کرتے بلکہ کئی طرح کے خوف بھی پیداکرتے ہیں ان میں ایک خوف ایسا ہوتا ہے جس کے متعلق معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ کیسا خوف ہے۔ یہ خوف آگے نہیں بڑھنے دیتا اور کچھ کرنے نہیں دیتا۔اس کیفیت کی وجہ سے اپنے آپ پر اور دوسروں پر بھی اعتماد نہیں رہتا۔زندگی بے مزہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کے لئے دماغی بے چینی اور انتشار کو دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس سلسلے میں علمِ نفسیات ہمیں مندرجہ ذیل طریقے بتاتا ہے۔
۱۔ ذہنی کام کے بعد جب جی چاہے کہ پلنگ پر پڑ رہوں تو اپنے آپ کو پلنگ پر گرانے کی بجائے جسمانی مشقت میں ڈالا جائے۔ورزش کی جائے۔
۲۔کام میں دلچسپی پیداکی جائے ورنہ ذہن بہت جلد تھکن پیدا کرنے لگتا ہے۔کام میں دلچسپی نہ ہو تو ارتکازِ توجہ مشکل ہو جاتا ہے۔شوق اور جوش یکسوئی کو بڑھا دیتے ہیں۔


۳۔اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ میری تھکن اصلی ہے یا نقلی۔کہیں یہ تھکن میں نے اپنے آپ کو ہپناٹائز کر کے تو پیدا نہیں کی۔ اگر ایسا ہو تو منفی کو مثبت میں بدل لینا چاہیے۔
۴۔ کاموں کو ان کی اہمیت کی ترتیب کے مطابق کرنا چاہیے ۔ اولین کاموں کو اولین فرصت میں کیا جائے۔کام سے پہلے پروگرام بنالینا چاہیے اور لکھ لینا چاہیے،کام میں جتے رہنے کے دوران پروگرام بنانا زیادہ فائدہ مند نہیں ہوتا ۔


۵۔ذہنی ڈسپلن پیدا کرنے کی مشق کرتے رہنا چاہیے۔ اپنے خیالات میں باقاعدگی اور ڈسپلن پیدا کرتے رہنا چاہیے یعنی ذہن کو اپنے قبضے میں رکھنے کی مشق کرتے رہنا چاہیے۔ کام کے وقت پوری توجہ کام پر ہو اور تفریح کے وقت تفریح پر ہو لیکن تفریح صحت مند ہو۔ تفریح کا مقصد یہ ہو کہ اعصاب پر تھکن کا جو کھچاؤ ہوہے وہ رفع ہو جائے اور ذہن تروتازہ ہو جائے تاکہ پھر کام کرنے اور مسائل سے نبرد آزما ہونے کے قابل ہوا جاسکے۔


۶۔ جو مسلہ سب سے زیادہ پریشان کرتا ہو اسے پوری توجہ اور یکسوئی سے تنہائی میں سوچنا چاہیے۔ ہر پہلو کا تجزیہ کرنا چاہیے اور پھر کسی حل پر پہنچ کر ذہن سے اتار دینا چاہیے ۔اس کے بعد ذہنی مشینیر ی خود بخود حرکت میں آ جائے گی اور مسلے کو حل کرنا شروع کر دے گی۔
۷۔ایسے لوگوں سے بچنا چاہیے جنہیں دنیا بھر کی اچھائیاں اپنی ذات میں اور برائیاں دوسروں میں نظر آتی ہوں۔


۸۔ بہت سی پریشانیوں کا سبب خود ساختہ منفی سوچیں اور آنے والے کل کے بے جا اندیشے ہوتے ہیں۔منفی رویوں اور سوچوں کوتین طلاقیں دے دینا چاہیے ۔ ہر شے کا مثبت دیکھنا چاہیے۔
۹۔قوتِ فیصلہ کو پروان چڑھانا چاہیے۔ فیصلوں کے معاملے میں التوا ، تاخیر، نہیں ہونی چاہیے۔بے شک یہ فیصلہ کیا جائے کہ مزید حقائق جمع کئے جائیں یا اس کام کو کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن فیصلہ ضرور کیا جائے۔

جب آپ کو کوئی مسلہ پیش آئے اور آپ کے پاس فیصلہ کرنے کے
لئے ضروری حقائق ہوں تو اس کا وہیں اور اسی وقت فیصلہ کر دینا چاہیے۔ فیصلوں کو بلاوجہ ٹالتے نہیں جانا چاہیے۔
۱۰۔اپنے میز پر صرف وہی کاغذات رکھنے چاہییں جو فوری توجہ کے مستحق ہوں، غیر ضروری چیزیں اٹھوا دینا چاہیے۔جواب نہ دئیے ہوئے خطوط رپورٹوں اور رسیدوں سے اٹی ہوئی میزپریشانیوں الجھنیں کشیدگی اور جذباتی کھنچاؤ پیدا کرتی ہے ۔


۱۱۔زندگی کے پچھتاوے، احساسِ جرم، منفی سوچیں یکسوئی نہیں رہنے دیتیں۔ان سے بچنا چاہیے۔
۱۲۔زندگی میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جسے ہم بدلنا چاہتے ہیں لیکن بدل نہیں سکتے اور اس وجہ سے مسلسل بے سکونی اور بے چینی کا شکار رہتے ہیں ۔بدل نہ سکنے کی صورت میں فضول توانائی ضائع کرتے رہنے کی بجائے، متبادل راستہ اختیار کر لینا چاہیے۔
۱۳۔

اپنے آپ میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کی مشق کی جائے۔ جلد بازی اور اضطراب یکسوئی کم کردیتا ہے۔
۱۴۔اپنے کاموں میں حسنِ ترتیب پیدا کرتے رہنا چاہیے۔
۱۵۔اگرآنکھوں پر دباؤہو،چہرے کے اعصاب تنے ہوئے ہوں اور کندھے سکڑے ہوئے ہوں تو پٹھوں کوڈھیلا چھوڑ دیں۔ اپنے اعصاب سے کہیں چلو چلو ڈھیلے پڑ جاؤ۔چلو چلو ڈھیلے پڑ جاؤ ۔یہ الفاظ بلند آواز سے ایک منٹ تک بار بار آہستہ آہستہ دہرائیں۔

آپ محسوس کریں گے کہ جیسے کسی غیر مرئی طاقت نے آپ کا کھنچاؤ دور کر دیا ہو۔ آنکھوں کے بعد وہی عمل جبڑوں ،دانتوں، کندھوں، گردن، چہرے بلکہ جسم کے سارے پٹھوں کے متعلق کریں۔
۱۶۔کرسی پر بیٹھے بیٹھے اپنے جسم کو اکڑائیے ، پھر آہستہ آہستہ پاؤں کی طرف سے ڈھیلا کرتے جائیے۔ اس سے بے چینی کم ہو جاتی ہے
۱۷۔ اپنی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں کو دبائیے۔

باری باری چھوٹی انگلی سے لے کر انگوٹھے تک یہ عمل کیجئے۔
۱۸۔اپنے پپوٹوں کو شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے دبائیے۔
۱۹۔لمبے لمبے سانسوں کی ذریعے زیادہ سے زیادہ آکسیجن پھیپھڑوں میں داخل کی جائے۔دن میں ساٹھ دفعہ گہرے سانس لیجئے لیکن ایک نشست میں صرف آٹھ بار گہرے سانس لیجئے گھٹن دور ہو جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :