یہودیوں کی ملکیت عالمی طاقتور میڈیاگروپس

جمعہ 18 جولائی 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

مظلوم فلسطینی ایک بار پھر نشانہ ستم بن رہے ہیں۔ آگ و آہن کی بارش کے زریعے ان کے جان ومال اور املاک کو تباہ وبرباد کیا جا رہا ہے جبکہ مسلم حکمرانوں سمیت بین الاقوامی دنیا اسرائیل کی بربریت پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔مسلم دنیا کے حکمرانوں نے جس انداز سے مجرمانہ سکوت اختیار کر رکھا ہے مسلم دنیا کے عوام اسی شدت سے اپنے مسلمان فلسطینی بھائیوں کا درد محسوس کر رہے ہیں ۔

جس کا اظہار ہمیں سوشل میڈیا پر دکھائی دیتا ہے ۔ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں بین الاقوامی میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ میڈیا کو فلسطین میں ہونے والی بربریت کیوں دکھائی نہیں دیتی؟۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس جدید دور میں بھی ہمارے بعض بھائیوں کو یہ نہیں معلوم کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ یہودیوں کے خلاف اور مسلمانوں کے حق میں مواد کیوں نشر یا شائع نہیں کرتا ۔

(جاری ہے)

لہذا قارئین کی معلومات کیلئے یہاں بین الاقوامی میڈیا کے حوالے سے چند حقائق ضبط تحریر ہیں۔
یہ بات اب منظر عام پر آچکی ہے کہ امریکہ میں مقیم یہودیوں نے بیسویں صدی کے آغاز ہی سے صہیونی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے میڈیا پر تسلط حاصل کرنا شروع کردیا تھا ۔اور آج امریکی میڈیا میں ان کے تسلط کی داستان سناتی ایک رپورٹ کے مطابق صرف چھ کمپنیوں نے 96 فیصد میڈیا کو اپنی ملکیت میں لیا ہوا ہے۔

جن کے مالک یہودی ہیں میڈیا کی ہی بدولت یہودیوں نے امریکہ کو یرغمال بھی بنایا ہوا ہے۔ امریکہ کے اقتدار کے ایوانوں اور امریکی معیشت پر چھائے ہوئے صیہونی ٹولے نے گزشتہ ایک صدی کے دوران رفتہ رفتہ تمام اخبارات اور چینلوں کو انکے اصل مالکوں سے خریدنا شروع کیا۔ انہی اخبارات اور چینلوں کواب صہیونی پالیسیوں کی اشاعت اور مسلمانوں کے خلاف عالمی پراپیگنڈے اور عام امریکی باشندوں کو ایک خاص فکرو نظریے کے تحت ذہن سازی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔

اس وقت امریکہ میں یہ صورت حال بن چکی ہے کہ سیاست کانگریس‘ ایوان صدر سے لیکر میڈیا کے تمام شعبوں میں اسرائیل نواز صہیونی ٹولے کا غلبہ ہے جو کہ خود امریکیوں کے لئے شدید تشویش کا باعث ہے۔ امریکہ میں میڈیا کمپنیوں میں سب سے بڑی کمپنی والٹ ڈزنی ہے جس کا مالک مائیکل آئیزنر ایک یہودی ہے۔ والٹ ڈزنی کمپنی میں شامل تمام ٹیلی ویژن چینل اور دو ویڈیو پروڈکشن کمپنیاں اسی شخص کی ملکیت ہیں۔

والٹ ڈزنی ٹیلی ویژن‘ ٹچ سٹون ٹیلی ویژن اور بیوناوز ٹاٹیلی ویژن اسی کمپنی کے مختلف چینل ہیں ۔اسی طرح فچر فلموں کا گروپ‘ والٹ ڈزنی پکچر گروپ کا سربراہ راتھ جو بھی یہودی ہے۔ اس کی سربراہی اور انتظامی امور میں ہالی وڈ پکچرز‘ ٹچ سٹون پکچرز اور کاروان پکچرز جیسے مشہور ادارے اور فلمی کمپنیاں آتی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈزنی گروپ وائٹ سٹائن برادرز کی سربراہی میں چلنے والی کمپنی” میرا فلمز“ کا مالک بھی ہے۔

اس کمپنی کے صرف امریکہ کے اندر 225 الحاق شدہ سٹیشن ہیں جبکہ یورپ کے متعدد ٹیلی ویژن چینل بھی کسی حد تک اس کی ملکیت ہیں۔ امریکہ کی ایک اور مشہور میڈیا کمپنی اے بی سی کی ایک ذیلی شاخespnکا صدر بورن سٹائن بھی یہودی ہے۔ ٹائم وارنر دنیا بھر میں میڈیا کمپنیوں میں دوسری بڑی کمپنی ہے جس کا مالک ڈینی گولڈ برگ نامی بھی ایک یہودی ہے۔ نت نئی نئی فلمیں دکھانے والا دنیا کا مشہور ترین ٹی وی چینل ایچ بی او اسی کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو امریکہ میں میڈیا کی دنیا میں سب سے زیادہ منافع کمارہا ہے۔

تقریباً پچاس مختلف ناموں سے دنیا میں اس کمپنی کے معروف میوزک ریکارڈنگ ادارے موجود ہیں ۔ٹیڈٹرنر بھی ایک یہودی ہے جس نے 1985میں سی این این کے نام سے ایک کامیاب کیبل ٹی وی نیوز چینل قائم کیا جو آج امریکہ میں خبروں کی دنیا کا بے تاج بادشاہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن جب اس نے سی بی سی کو خریدنے کا ارادہ کیا تو ایک اور کھرب پتی یہودی لارنس ٹش نے اسے خرید لیا۔

ویا کام امریکہ کی تیسری بڑی میڈیا کمپنی ہے جسکا سربراہ سمز ریڈ سٹون بھی ایک یہودی ہے ۔اس کمپنی کا سالانہ ریونیو 10 ارب ڈالر ہے۔ ویا کام میڈیا کمپنی ٹی وی پروگراموں کو بناتی اور ملک کے تین بڑے نیٹ ورکس کو بیچتی ہے۔ اس کمپنی کے پاس 12 ٹیلی ویژن سٹیشن اور 12 ریڈیو سٹیشن ہیں۔ پیر اماؤنٹ پکچرز کے نام سے یہ فیچر فلمیں بناتی ہے جس کی سربراہ ایک یہودی خاتون شیری لینلنگ ہے۔

آسٹریلوی نژاد کروڑ پتی تراسی سالہ روپرٹ مور ڈاک جس کا نام سالہا سال سے میڈیا پر قابض کی حیثیت سے لیا جارہا ہے ۔ وہ گزشتہ کئی عشروں سے مختلف سیٹلائٹ چینلوں اور الیکٹرانک میڈیا پر مسلط ہے اور مختلف طریقوں سے مغربی کلچر اور صیہونی پالیسیوں کی ترویج میں مصروف ہے۔ اس کی کمپنی فاکس ٹی وی اور20thسینچری فاکس فلم کی مالک ہے ۔پیٹر چرمن جو مرڈوک فلم سٹوڈیو اور اوورسیز ٹی وی پروڈکشن کا سربراہ ہے وہ یہودی ہے ۔

یونیورسل پکچرز بھی فلمی دنیا میں ایک جانا پہچانا اور معروف نام ہے۔ اس کا سربراہ ایڈ گربرونف مین ہے جو نہ صرف ایک یہودی ہے بلکہ یہودیوں کی ایک تنظیم عالمی یہودی کانگریس کا صدر بھی ہے۔ اس کے علاوہ پرنٹ میڈیا میں ان یہودیوں کے تسلط کا یہ عالم ہے کہ امریکہ میں ہر روز اخبار ات کی 6کروڑ کاپیاں فروخت ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اشاعت والے تین اخبارات نیویارک ٹائمز‘ وال سٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ بھی یہودیوں کی ملکیت ہیں ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب تک کوئی خبر نیویارک ٹائمز‘ وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ میں شائع نہیں ہوتی وہ اس وقت تک ایشو نہیں بن سکتی ۔

ان حقائق کے جاننے کے بعد کوئی دو رائے نہیں کہ یہودی عالمی سطح پر حکومت قائم کرنے کے لئے عالمی میڈیا پر قابض ہوچکے ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک کو اپنی انگلیوں پر نچا کر دنیا میں ان کو اپنی مرضی کے مطابق چلارہے ہیں ۔آج یہودی میڈیا اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پوری دنیا کو جس نہج پر اور جس سمت میں لے جانا چاہے لے جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یقینا ہم بین الاقوامی میڈیا سے یہ شکوہ نہیں کر سکتے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کے خلاف بپا ہونے والی سفاکیت کا اصل چہرہ دنیا کو کیوں نہیں دکھاتا ۔

درحقیقت یہ مسلم حکمرانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہودیوں کے خلاف اجتماعی لائحہ عمل تیار کریں اور صہیونی ریشہ دوانیوں سے امت مسلمہ کو محفوظ رکھیں مگر مقام افسوس ہے کہ مسلم دنیا خود ان گنت ٹکڑوں میں منقسم ہے اور ان کے سامنے اپنے ذاتی مفاد کے سوا کوئی دیگر ایجنڈا نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :