فلسطین ۔۔۔!

جمعہ 18 جولائی 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

اسرائیلی ظلم وستم کی کہانی کراچی سے شروع ہوتی ہے اور نیتن یاہو پر جا کر ختم ہو جاتی ہے ۔شاید شروع میں آپ اس کہانی پر یقین نہ کریں لیکن اگر آپ تھوڑا سا ساتھ دیں تو آپ اس کہانی پر یقین کر نے پر مجبور ہو جائیں گے ۔کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور پرانا شہر ہے یہ پاکستان کی واحد قدرتی بندرگاہ ہے ۔ یہ دریائے سندھ کے دہانے کے قریب اور بحیرہٴ عرب کے ساحل پر واقعی ہے ۔

کراچی کی آب و ہواتقریباً معتدل ہے، نہ زیادہ گرمی نہ زیادہ سردی۔ اکثر تو بارشیں ہوتی ہی نہیں، اگر ہوں تو جی بھر کر برستی ہیں۔ کراچی ایک گنجان آباد اور بارونق شہر ہے۔ شہر کے اکثر علاقے انتہائی گنجان آابد ہیں۔ جگہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بڑی بڑی بلڈنگیں بنائی گئی ہیں۔ شہر میں بعض علاقے ایسے ہیں جنہیں پرانا کراچی کہا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقے پاکستان بننے سے پہلے کے آباد ہیں۔

(جاری ہے)

ان علاقوں میں نسبتاً غیر معروف علاقہ ”رنچھوڑ لائن“ کا ہے۔ یہ اکثر علاقہ قدیم طرز تعمیر پر مشتمل ہے۔ آبادی انتہائی زیادہ گنجان ہے، گلیاں تنگ ہیں اور آبادی کی اکثریت ان پڑھ ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت پان کھانے اور سنوکر کھیل کر اپنا قیمتی وقت ضائع کرنیوالوں کی ہے۔ دھان پان سے مرد گھروں سے باہر بنے تھڑوں پر بیٹھے سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور عورتیں ہمسائیوں کے ساتھ وقت ضائع کرتی ہیں۔

اس علاقے میں ایک گلی ہے جس کا نام ”آجا ماوٴجی“سٹریٹ ہے۔ اس گلی میں ” راحت منزل“ نامی ایک بلڈنگ ہے، قیام پاکستان سے قبل اس بلڈنگ کے تیسرے مالے پر رہنے والے یہودی خاندان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا، اس بچے کا بچپن یہیں گزرا، اس نے کراچی کی انہی تنگ گلیوں میں پرورش پائی۔ 1949ء میں جب اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا تو دنیا بھر کے یہودیوں کی طرح کراچی کے یہ مالدار یہودی بھی اسرائیل چلے گئے ۔

وہ بچہ کون تھا اور اس وقت کہاں ہے؟ یقیناآپ یہ جان کر حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے کہ اس یہودی بچے کا نام نیتن یاہو ہے جو آج اسرائیل کا وزیر اعظم ہے اور فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہا ڑ توڑ رہا ہے ۔
حالیہ اسرائیل فلسطین تنازع تین اسرائیلی نوجوانوں کی ہلا کت سے شروع ہوا تھا جو 13جون کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی سے واپسی پر لا پتہ ہو گئے تھے ۔

نیتن یاہو انتظامیہ نے حماس کو اس کا ذمہ دار ڈکلیئر کر دیا اور یو ں فلسطینی مسلمان ایک بار پھر یہودی ظلم وستم کا شکار ہو گئے ۔غزہ کا سارا علاقہ اسرائیلی فضائیہ ،بحری اور بری فو ج کے نشانے پر ہے اور اب تک اڑھائی سو سے زائد فلسطینی مسلمان شہید ہو چکے ہیں ۔اگر آپ گزشتہ دس روز سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پابندی سے دیکھ رہے ہیں تو آپ کو ہر روز بیسیوں مائیں اور چھوٹے چھوٹے بچے روتے دکھائی دیتے ہوں گے ،آپ صرف ایک لمحے کے لیئے اس فلسطینی ماں کی جگہ پر اپنی والدہ کو رکھیں اور فلسطینی بچوں کی جگہ پر اپنی بیٹیوں اور بیٹو ں کو رکھیں اور پھر ایک لمحے کے لئے سوچیں اس لمحے آپ کی حالت کیا ہو گی ؟کیا اس کے بعد آپ اپنی زندگی میں واپس آ پائیں گے اور کیا اس کے بعد آپ مزید جینے کی تمنا کریں گے ؟
آپ اس ایشو کو بین الاقوامی برادری کی نظر سے دیکھیں ،جنگ شروع ہو تے ہی اوبامہ انتظامیہ نے نیتن یاہو کو فون کیا اور اسے ہر ممکن تعاون کا یقین دلا یا ،برطانیہ ،فرانس ،جرمنی پہلے ہی اسرائیل کے پلڑے میں جھکے ہو ئے ہیں ،چین ،روس اور جاپان نے چپ سادھ لی ہے کیوں کہ یہ ان کا مسئلہ نہیں ۔

اس کے بعد آپ انٹرنیشنل آرگنائزیشنز کو دیکھیں ،اقوام متحدہ دنیا کی سب سے بڑے آرگنائزیشن ہے اور یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس لئے بنائی گئی تھی تا کہ دنیا کو آئندہ ایسی جنگوں سے روکا جا سکے لیکن فلسطین ایشو پر اقوام متحدہ کی زبان گنگ ہے ۔آپ کی بین الاقوامی برادری اور انٹرنیشنل آرگنائزیشنز مکمل طور پر اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں ،باقی کیا بچتا ہے ؟؟آپ ساٹھ اسلامی ممالک کی صورتحال کا جائزہ لیں ،اس وقت دنیا میں ساٹھ اسلامی ممالک ہیں اور یہ ساٹھ کے ساٹھ ممالک اپنے اندرونی مسائل میں جکڑے ہو ئے ہیں۔

آپ پاکستان کو دیکھ لیں ،وزیرستان آپریشن ،نواز عمران کی باہمی کشمکش اور حصول اقتدار کی جنگ ،عراق انارکی کا شکار ،شام خانہ جنگی کا ستایا ہو ا،مصر آمریت کا شکا ر ،ملائیشیا اور انڈونیشیا اپنی دنیا میں گم ،ایران امریکی بیساکھیوں کے سہارے پر کھڑا ہوا ،سعودی عرب بادشاہت کے خاتمے کا خوف ،بحرین ،مسقط اور متحدہ عرب امارات اپنی عیش پرستی میں کھوئے ہوئے،افغانستان عالمی سازشوں کے نرغے میں ،برونائی دولت کا خمار ،افریقہ کے مسلم ممالک غربت ،بھوک اور بیماری کے مارے ہوئے ،وسطی ایشیائی ریاستیں اپنی ذات میں گم اور لیبیا خانہ جنگی کی عظیم داستان ۔

زوال کا ایک طویل موسم ہے جو چاروں طرف چھایا ہوا ہے ۔یادش بخیر !کبھی ہم پر بھی عروج تھا،عالم عیسائیت پر یہی کیفیت طاری تھی جو اس وقت عالم اسلام پر ہے ،وہی چھوٹی چھوٹی ریاستیں اور باہمی رقابتیں ،عیسائی حکمران اپنی ریاستیں اور حکومتیں بچانے کے لیئے مسلم فاتحین سے ویسے ہی معاہدے کرتے تھے جیسے آج ہمارے حکمران کر رہے ہیں ،تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے لیکن کیا ہم کبھی اپنے عروج حاصل کر پائیں گے ؟یہ دس بلین ڈالر کا سوال ہے۔


بات دور نکل گئی ،آپ اسلامی ممالک کی آرگنایزیشنز کو دیکھ لیں ،او آئی سی عالم اسلام کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم ہے اور 1969میں مراکش کے شہر رباط میں اس کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ قبلہ اول کی حفاظت کی جائے،لیکن آج او آئی سی کہاں کھڑی ہے سب کو معلو م ہے ،اس وقت عالمی سیاست میں او آئی سی کا حصہ صفر فیصد ہے ۔عرب لیگ بیس سے زائد عرب ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے لیکن اس کا کردار بھی نشستند ،گفتند اور برخاستند تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔

اب اس کے بعد کیا بچ جاتا ہے ؟؟؟بین الاقوامی برادری اسرائیل کے ساتھ ،عالمی تنظیمیں اسرائیل کی پشت پر ،اسلامی ممالک اندرونی خلفشار کا شکار اور اپنی حکومتیں بچانے میں مصروف ،اسلامی تنظیمیں اپاہچ اور معذور ،سو فلسطینی مسلمان کس کو پکار رہے ہیں ؟چپکے سے ظلم سہتے جاوٴ،اپنے بچے ذبح کرواتے جا وٴ،فلسطینی مائیں اپنی ممتا کو مار دیں ،اسے نکال کے باہر پھینک دیں اور فلسطینی باپ اپنے بیٹو ں اور بیٹیوں کے لیئے کفن تیار رکھیں کیوں کہ تمہارا اس دنیا میں کو ئی نہیں ،تم اکیلے تھے اکیلے ہو اور اکیلے رہو گے ۔

اب کوئی تمہاری مد د کو نہیں آئے گا ۔اور ہاں خبر تھی کہ تم سب سے ذیادہ پاکستان ا ور پاک فو ج کو مدد کے لئے پکار رہے ہو ،بھول جاوٴ۔۔کیوں کہ پاکستان نیتن یاہو کی جائے پیدائش ہے اور اب یہاں صلاح الدین نہیں نیتن یا ہو جنم لیتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :