انقلاب کا سبز باغ اور حُبِ عاجلہ

جمعہ 18 جولائی 2014

Akif Ghani

عاکف غنی

مہنگائی کا دورہ دورہ ہے، رمضان میں تاجروں کی من مانیاں عروج پر ہیں،گرمی جوں جوں بڑھتی ہے لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہو اجاتا ہے ایسے میں تڑپتی ہوئی عوام کو کوئی سونامی کی نوید سناتا ہے تو کوئی انقلاب کے خوِاب دکھلاتا ہے۔ عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر جس سونامی کی نوید عوام کو سنائی تھی اس سونامی کے پنجاب میں غرق ہونے سے عمران خان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔

عمران خان نے اپنی ناکامی کا سبب انتخابی دھاندلی کو قرار دیا۔انتخابات کے بعد تقریباََ تمام پارٹیوں کے دھاندلی کے الزامات کے باوجود صوبوں میں اور وفاق میں حکومتیں تشکیل دے دی گئیں۔خیبر پختونخوِاہ میں عمران خان کی کی تحریکِ انصاف نے حکومت بنائی،اوراب ایک سال بعد عمران خان کو ایک بار پھر دھاندلی کا دورہ پڑا اور وہ سونامی مارچ کا علم تھامے اسلام آباد کا رُخ کرنے کو پر تولے کھڑے ہیں ،کبھی عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو کبھی الیکشن کمیشن کو اور کبھی کبھی تو حکومت سمیت پورے نظام کو ہی اپنی توپوں کی زد میں لے آتے ہیں۔

(جاری ہے)

سونامی مارچ کا نام تو خیر کسی خیر خوِاہ کی تجویز پر اب آزادی مارچ رکھ دیا گیا ہے جو پتہ نہیں کس سے کس کی آزادی کا پیش خیمہ بنتا ہے ہاں بظاہر تو یہ مسلم لیگ نون کی حکومت سے جان چھڑانے کا بہانہ محسوس ہوتا ہے وگرنہ عمران کی توپوں کا رُخ لاہور کے ساتھ ساتھ کراچی اور اندرونی سندھ بھی ہوتا۔آزادی مارچ جو چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بہانے کسی انقلاب کی نوید کے ساتھ نمودار ہونے کو تھا اب سارے انتخابی عمل کے احتساب کا نعرہ لئے آگے بڑھ رہا ہے۔

آزادی مارچ سے انقلاب کیسے آئے گا یہ تو عمران خان صاحب ہی بتا سکتے ہیں البتہ ان کے دھاندلی کے الزام میں اگروزن ہوتا تو وہ خیبر پختون خوِاہ کی حکومت نہ بناتے ،اسمبلیوں کا حصہ نہ بنتے اور انتخابات کے فوراََ بعدتحریک کا آغاز کر دیتے۔اب ایک سال بعد جب مولاناطاہرالقادری صاحب کوالہام ہوا کہ پاکستان میں انقلاب آنا چاہیے تو عمران خان کی سونامی میں بھی ابال آنے لگا۔

مولانا طاہر القادری صاحب کو نہ تومشرف دور میں انقلاب کی کی سوجھی اور نہ ہی زرداری دور میں کوئی الہام ہوا،ہاں البتہ جونہی انتخابات قریب آئے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جیت کے واضع امکانات نظر آنے لگے تو قادری صاحب نے خوِاب دیکھ لیا کہ اب اسلام آباد میں دھرنا دے کر انقلاب لایا جائے اور پھر ان کے چند روزہ دھرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ قادری صاحب جن کو یزید قرار دے رہے تھے انہی کے ساتھ معاہدہ کیا اور کینیڈا سدھار گئے۔


اور پھر انتخابات ہو گئے اور اندازوں عین کے مطابق پنجاب اور وفاق میں پاکستا ن مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہو گئی۔ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت جب سے قائم ہوئی ہے عمران خان صاحب کوپریشانی لاحق ہے کہ یہ کیا ہوا کہ میں نے حکومت بنانے کا جو خوِاب اپنی آنکھوں میں سجایا تھا وہ شرمندہٴِ تعبیر نہ ہو سکا اور اب اگر صبر کیا تو پانچ سال سے پہلے تو الیکشن ہونے والے نہیں اور اگر ہو بھی گئے تو ضروری نہیں کہ ان میں جیت لازم ٹھہرے کہ موجودہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت باوجود اس کہ ان کی کارکردگی میں بیشمار سقم ہیں کچھ نہ کچھ کارکردگی بھی ضرور دکھا رہی ہیں،ایسے میں وہ یہ سوچ سوچ کر تلملا اٹھتے ہیں اور انہیں ہر دوسرے دن سونامی دورہ پڑتا ہے اور پھر قادری صاحب کی ڈوری کوئی خوِاب میں ہلا دیتا ہے تو عمران اور بھی جوش میں آ جاتے ہیں ۔

قادری صاحب کے یزیدیوں کے معاہدے سے کچھ فرق تو نہیں پڑا البتہ وہ یزیدی حکومت سے باہر ہو گئے اورشریف برادران کی پنجاب اور و فاق میں حکومت قائم ہو گئی۔قادری صاحب نے پھر انقلاب کا خوِاب دیکھا اور وطن واپس لوٹ آئے، اب کی بارے وہ لوٹے تو حکومت کی بد انتظامی اور قادری صاحب کے اشتعال سے پولیس اور منہاج القران کے کارکنان میں جھڑپوں میں منہاج القران کے چودہ کارکن شہید ہو گئے،اس طرح قادری صاحب کو انقلاب کے لئے چودہ لاشوں کا سہارا مل گیا اب وہ ساری سیاست ان لاشوں پر کریں گے اور مزے کی بات یہ کہ کل تک وہ جنہیں یزیدی قرار دے رہے تھے وہ یزیدی اب ان کے دائیں بائیں منڈلا رہے ہوتے ہیں۔


قادری صاحب کی آمد پر چوہدری برادران جو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے سہارے حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اب مسلم لیگ نون سے دوریوں کے سبب حکومتی سیٹوں سے دور ہونے کی وجہ سے کوئی سہارا ڈھونڈ رہے ہیں جو نواز حکومت کا خاتمہ کر کے ان کے اقتدار میں حصہ بننے کی راہ ہموار کر سکے۔یہی حال شیخ رشید کا ہے جو کبھی عمران کا چمچہ بنتا ہے تو کبھی طاہرالقادری کا۔


پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ یہاں واقعی انقلاب کی ضرورت ہے مگر کس انقلاب کی؟ عمران کے انقلاب کی، قادری انقلاب کی یا پھر واقعی کسی حقیقی انقلاب کی، جہاں تک عوام کا تعلق ہے ،عوام تبدیلی چاہتے ہیں اسی لئے وہ قادری ہو یا عمران یا کوئی اور جو ان کو تبدیلی کی آس دلاتا ہو اس کی کال پہ کان دھرتے ہوئے سڑکوں پہ نکل آتے ہیں اور وہ واقعی انقلاب چاہتے ہیں ۔

مگر افسوس کہ وہ حقیقی انقلاب کے تصور سے ابھی نا آشنا ہے۔ اب رہ گئی بات عمرانی انقلاب یا قادری انقلاب کی تو اگر یہ واقعی حقیقی انقلاب کے داعی ہوتے تو چوہدریوں اور شیخ رشید جیسوں کو اپنے ساتھ نہ ملاتے۔عمران خان صاحب تو زرداری کے اپنے حق میں ایک بیان سے پھولے نہیں سما رہے اوریہ تأثر دے رہے ہیں کہ دیکھا پیپلز پارٹی بھی حکومت کے خلاف ہے تو گویا ان سب کا انقلاب شریف برادران کی مخالفت سے شروع ہوکر انہی کی مخالفت پر ختم ہو جاتا ہے کہ ان کے اقتدار کی راہ میں حقیقی رکاوٹ بس وہی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کو جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے بنے ہوئے اور ان کے خلاف لوڈ شیڈنگ جو ان کی پیدا کردہ نہیں کو بنیاد بنا کر محاذ بنایا جا رہا ہے،مانا کہ مسلم لیگی حکومت نے دودھ کی نہریں نہیں بہائیں مگر بڑے بڑے پراجیکٹس کی بنیاد ضرور رکھی ہے، سب کو نظر آ رہا ہے کہ یہ منصوبے اگر مکمل ہو گئے تو مسلم لیگ اگلے انتخابات میں بھی جیت جائی گی۔


اب رہ گئی بات انقلابیوں کے مطالبات کی تو اس سلسلے میں یہ مطالبات منوانے کا سب سے بہتریں ذریعہ پارلیمنٹ ہے، کیا پاکستان تحریکِ انصاف نے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی ہے،انتخابی اصلاحات یا عدالتی اصلاحات کاکوئی منصوبہ پیش کیا ہے اگر نہیں تو ان کا سڑکوں پر احتجاج بنتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ اول تو کسی کو وطن کی فکر ہے ہی نہیں فقط کرسی کی فکر ہے اور جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے کرسی کی فکر بڑھتی جا رہی ہے،مسلم لیگ نون کی حکومت سے جان چھوٹ جائے یہ تو پیپلز پارٹی کی بھی خفیہ خوِاہش ہو سکتی ہے کہ شائد اگر مڈ ٹرم انتخابات ہوں ہوں تو ان کی بھی لاٹری لگ جائے ،تحریکِ انصاف کے پیرو کاروں سے معذرت کے ساتھ ،عوام کا کچھ نہیں بدلنے والا، عوام کا کچھ بدلنا ہوتا تو خیبر پختون خوِاہ میں بہت کچھ بدل گیا ہوتا۔

عمران خان کو اللہ نے ایک موقع دیا ہے کہ وہ خیبر پختون خوِاہ میں اپنی کارکردگی دکھائیں اگر وہ اپنی بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں تو شائد اگلے انتخابات میں وہ پورے ملک سے جیت جائیں۔رہ گئی ملک میں تبدیلی کے لئے اصلاحات تو وہ خان صاحب اسمبلی میں بیٹھ کر ،اگر ان میں سچائی ،خلوص اورصلاحیت ہو تو حکومتی اور حزبِ مخالف کی جماعتوں کو اکٹھا کر کے اسمبلی سے ہی منظور کروا سکتے ہیں۔اور پھر بھی ایسا نہ ہو تو دباوٴ بڑھا کر ایسا کیا جا سکتا ہے ۔اس کے برعکس حبِ عاجلہ کا شکار ہو کر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے ایسے لوگوں کے ساتھ مل جانا جن کا ایجنڈہ مشرف بچاوٴ اور حکومت گراوٴ ہو ایسے میں کون سے انقلاب کی توقع کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :