بیٹل آف ماڈل ٹاؤن

جمعہ 18 جولائی 2014

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

گلو فورس اور ہدف: ۔سترہ جون2014ء ماڈل ٹاؤن لاہور۔ادارہ منہاج القرآن رہائش گاہ علامہ طاہر القادری ،سرپرست اعلیٰ ادارہ منہاج القرآن چارہزار مسلح پولیس اہلکار ہمراہ ایک ڈی آئی جی چار ایس پی،درجن بھر ڈی ایس پی اور تین درجن انسپکٹر اور سب انسپکٹر۔دو سو ایلیٹ فورس اہلکار،بکتر بند گاڑیاں،پچاس سنائیپر( ماہرنشانہ باز)ایک درجن بارودی مواد ناکارہ بنانے والے ماہرین،اسالٹ رائفل مین دھواں پھیلانے والی اورآنسو گیس شیل فائیرکرنے والی پچاس رائفلیں،دوہزار مسلم لیگی گارڈ،علاوہ ایک ہزار ڈنڈا بردار مسلم لیگی اور گوالمنڈی فورس زیر کمان شیر پنجاب جنرل گلوبٹ۔
منہاج القرآن ملیشیاء:۔ پنجاب کے وزیر قانون و وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے بیان کے مطابق ادارہ منہاج القرآن میں جدید اسلحہ اور ایک پرائیویٹ ملیشیا کی مصدقہ اطلاع موصول ہونے پر اس پرائیویٹ ملیشیا کی فوری سرکوبی اور شہر لاہور کو حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے سولہ و سترہ جون کی درمیانی شب بیان کردہ فورس کو ادارہ منہاج القرآن پر حملہ کرنے اور دشمن کے مضبوط قلعے پر قبضہ کرنے کا حکم دیا گیا۔

(جاری ہے)

رانا ثناء اللہ کے مطابق منہاج ملیشیا نے علاقہ بھر کے مکینوں کو تقریباً یرغمال بنا رکھا تھا۔سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کرکے عوام علاقہ کیلئے آمدورفت کا راستہ بند کر دیا تھا جسے کھولنا حکومت وقت کی ذمہ داری تھی رانا ثناء اللہ نے جدید ہتھیاروں کی اقسام اور تعداد نہ بتائی اور نہ ہی منہاج ملیشیا کی کوئی تعداد بتا سکے۔
گلو فورس کے حملے کے بعد ادارہ منہاج القرآن سے جو ثبوت مختلف ٹیلیویژن چینلوں نے دکھائے ان کے مطابق ادارہ منہاج القرآن میں کوئی جدید یا قدیم اسلحہ نہ تھا البتہ ڈاکٹر طاہر القادری نے خود تسلم کیا کہ ان کے گھر میں لائسینس یافتہ ہتھیار موجود ہیں جنکا کبھی استعمال نہیں ہوا۔بقول ثناء اللہ رانا کے اگر وہاں جدید اسلحہ تھا تو وہ استعمال کیوں نہ ہوا۔تجزیہ نگاروں اور مبصرین نے جنرل رانا ثناء اللہ رانا کے بیان کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اسے بھونگا پن قرار دیا۔
منہاج ملیشیاء کی تعداد:۔
ادارہ منہاج القرآن میں موجود خواتین،مردوں اور بچوں کی کل تعداد پندرہ سو بتائی جاتی ہے جبکہ گلو فورس کے پہلے حملے کے بعد تقریباً ایک ہزار کارکن لاہور کے مختلف علاقوں سے یہاں احتجاج کرنے آئے۔گلو فورس کے اسالٹ کے موقع پر ادارہ منہاج القرآن میں دو سے اڑھائی ہزار کارکن بشمول گھر کے افراد،علاقہ مکین اور طالب علم شامل تھے۔ان میں سے اکثر نہتے تھے جو صرف نعرے لگا رہے تھے اور ادارے کے سامنے انسانی ڈھال بنا کر کھڑے تھے۔انسانی ڈھال بنانے والوں میں اکثریت بچوں،عورتوں اور طلباء کی تھی جبکہ دیگر کارکن پتھروں اور لاٹھیوں سے مسلح تھے۔
جنگی منصوبہ بندی:۔
کہتے ہیں کہ ہرنپو لین کیلئے ایک واٹر لو ہوتا ہے، میاں برادران کا کسی طورنپولین سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا مگر میاں برادران میں یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے ہر منصوبے کو واٹر لو بنا لیتے ہیں ۔ماہرین سیاسیات کا خیال ہے کہ حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ مشیروں کا چناؤ احتیاط سے کریں اور کسی چاپلوس اور ابن الوقت کو اپنی کابینہ میں نہ رکھیں۔ساری دنیا جانتی ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے انتہائی قریبی مشیر ان میں ایسے ابن الوقت موجود ہیں جو صحافت ، کاروبار، اور دیگر شعبوں سے منسلک ہیں مگر میاں صاحب کے منظور نظر محض قصیدہ گوئی کی بنیاد پر ہیں۔پنجاب حکومت میں جو حیثیت رانا ثناء اللہ اور شیر پنجاب جنرل گلو کی ہے وہی حیثیت مرکزی حکومت میں ان منظور نظروں کی ہے۔
بیس کروڑ پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ مشیر جو اس سے قبل فوجی اور جمہوری دونوں ادوار کے مزے برابر لے چکے ہیں اب وزیر اعظم پاکستان کے مشیر خاص ہیں اور ان ہی کی مشاورت سے جناب وزیر اعظم ہر قسم کے واٹر لو منصوبے بناتے اور زچ ہوتے جارہے ہیں۔خصوصی مشیروں کے مشورے کے مطابق علامہ طاہر القادری کو حکومت وقت کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا اور اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کیلئے خواجہ سعد رفیق،رانا ثناء اللہ اور طلال چوہدری(نیو ایڈیشن)نے بیانات کی بمباری کی ۔الفاظ کی اس بمباری کو کچھ کالم نگاروں نے تو انتہائی گری ہوئی اور گھٹیا مماثلت دی اور اپنے کالم میں لکھا کہ لیبیا کے صدر قذافی نے اپنی حفاظت کیلئے گلو عورتیں رکھی ہوئیں تھیں اور علامہ قادری کی سیکیورٹی کا انتظام جن عورتوں کے سپرد ہے انھیں گلو نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی ان کنیاؤں کو جو بھارت کے آنجہانی باپو گاندھی کے آشرم کی حفاظت کرنیوالی کہہ سکتا ہوں۔ ان کالم نگاروں نے ہزاروں بچیوں کے کردار پر حملہ کیا ہے جو ادارہ منہاج القرآن میں دینی تعلیم حاصل کرتی ہیں کیا ایک ایسا شخص جس کے گھر میں بیٹیاں بہوویں اور پوتیاں نواسیاں ہوں کو زیب دیتا ہے کہ وہ محض ذاتی دشمنی اور عناد میں اتنا اندھا ہوجائے کہ اسے کسی کی بیٹی کی عزت و حرمت کا بھی خیال نہ رہے؟کچھ نے بھی میاں برادران کے نمک سے وفا کی اور اس حادثے کا قبل از وقت جناب طاہر القادری کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا۔اور ایک صاحب دو قدم آگے چلے اور دبے لفظوں میں اسے فوج کے سر تھوپنے کی کوشش میں لکھا کہ جناب الطاف حسین،پرویز الٰہی اور علامہ طاہر القادری کے الفاظ میں مماثلت ہے ان کی اطلاع کے مطابق ان سب کو اوپر سے احکامات ملتے ہیں اور کوئی اوپر والا ان کے منہ میں الفاظ ڈالتا ہے۔
کالمانہ،صحافیانہ اور دانشورانہ منصوبہ بندی کے بعد فیصلہ ہوا کہ طاہر القادری پر منی لانڈرنگ کا کیس کھولا جائے اور آتے ہی پابندسلاسل کر دیا جائے۔رانا ثناء اللہ نے اس سلسلے میں میٹنگ کی تو متعلقہ حکام نے مشورہ دیا کہ رحمٰن ملک کے بنائے ہوئے اس منصوبے میں کوئی جان نہیں۔رانا ثناء اللہ نے پہلی آپشن پر بیور کریسی کی معذرت پر دوسری آپشن کے تحت تجاوزات ہٹانے اور مصدقہ اطلاعات کی روشنی میں جدید اسلحہ سے لیس پرائیویٹ ملیشیا کی سرکوبی کا فوری فیصلہ کیا۔
حملہ:۔
سولہ،سترہ جون کی رات تقریباً اڑھائی بجے جنرل گلو کی قیادت میں حملہ شروع ہوا تو منہاج ملیشیا(بقول رانا ثناء اللہ)کے بچوں،عورتوں اور مردوں نے پتھروں اور ڈنڈوں سے مقابلہ کیا اور شیر پنجاب کی شیر دل فوج کے متعدد حملوں کو پسپا کر دیا۔دن چڑھتے ہی شیر پنجاب کے شیر دل دستوں نے علاقہ کو گھیرے میں لے لیا اور ماہر نشانہ بازوں کو ادارہ منہاج القرآن اور ذاتی رہائیش گاہ پر تعینات کیا۔اسی اثناء میں ہیوی مشینری حرکت میں آئی اور ادارہ اور رہائیش گاہ کے سامنے موجود رکاوٹوں کو چند منٹ میں صاف کر دیا۔دوسری جانب شیر پنجاب کی شیر دل پولیس کے شیر جوانوں نے دشمن کی دکانوں کھوکھوں اور دیگر کاروباری مراکز کو لوٹنا شروع کر دیا۔ ٹیلیویژن کیمروں نے عوام کو دکھانے کیلئے محفوظ کر لیا۔لوٹ مار اور فورس کی اہم مقامات پر تعیناتی کے بعد شیر پنجاب جنرل گلو بٹ نے پولیس فورس کو حملے کیلئے ترتیب وار کیا Generals always lead from front.کے مشہور قول کے عین مطابق اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے مطابق نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری بلند کرتے ہوئے پرائیویٹ ملیشیا کے مضبوط قلعے پر یلغار کر دی۔
شیر پنجاب کی شیردل فورس نے سب سے پہلے انسانی زنجیر بنانے والی خواتین،بچیوں اور طلباء پر یلغار کی اور اپنے ہی وطن کی بہنوں،بیٹیوں اور ماؤں کے سینوں کو چھلنی کرتے ہوئے انسانی ہاتھوں سے بنی اس آہنی زنجیر کو توڑ ڈالا۔باپردہ خواتین جن کے سینوں میں قرآن کی روشنی تھی اور جو اس ادارے میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے آئی تھیں انھیں گولیوں کا نشانہ بنانے کے بعد ڈنڈہ بردار گوالمنڈی فورس نے انھیں جی بھر کر پیٹا اور لہولہان کر دیا۔عورتوں اور بچیوں کی حالت زار دیکھ کر طالب علم اور کارکن آگے آئے تو ان پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی اور زخمیوں پر لیگی سپاہیوں نے ڈنڈوں سے حملہ کر دیا۔گلو فورس کی اس یلغار میں تین عورتوں سمیت گیارہ لوگوں نے جام شہادت نوش کیا۔سو کے قریب لوگ شدید زخمی ہوئے جن کے سروں،کاندھوں اور سینوں پر گولیاں ماری گئیں۔ادارہ منہاج القرآن کے مطابق دو سو کے قریب لوگ لاپتہ ہوئے۔جن میں طلباء طالبات اور ادارہ کے کارکن شامل ہیں۔خیال کیا جارہا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ مارے جاچکے ہیں یا پھر انھیں بعد میں کسی پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا۔
نتائج:۔
گلو فورس کا حملہ سو فیصد کامیاب رہا اور اس حملے میں شیر پنجاب کی شیر دل فوج کا کوئی نقصان نہ ہوا۔شیر پنجاب کے شیر دل جوانوں نے جی بھر کر مال عنیمت لوٹا اور حملے کے بعد شیر پنجاب نے قریبی کھوکھا توڑ کر مشروبات کی ٹھنڈی بوتلیں نکال کر اپنے ماتحت افسروں کو پلائیں جنرل گلو بٹ ایک آفیسر سے گلے بھی ملے اور انھیں شاباش دیکر لارنس آف عربیہ کی طرح موٹر سائیکل پر سوار ہوکر اپنے ہیڈ کوارٹر کی طرف روانہ ہوگئے ۔رانا ثناء اللہ نے اس قتل و غارت گری کی ذمہ داری ادارہ منہاج القرآن اور علامہ طاہر القادری پر ڈالتے ہوئے شہیدوں،زخمیوں اور لاپتہ افراد کے خلاف دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت ایف آئی آر کٹوائی اور آپریشن کی کامیابی پر زیر مونچھ کئی بار مسکرائے اورمونچھیں بھی پھڑ کائیں۔
مرکزی اور صوبائی حکومت نے تاحال شیر پنجاب اور شیر دل فورس کے آفیسروں اورجوانوں کیلئے کسی قسم کے اعزازات کا اعلان نہیں کیا۔امید ہے کہ آئند چند روز میں حکومت شیردل آفیسروں کو قائد اعظم میڈل،دو مربہ زرعی اراضی،دو دو کنال کے دو دو پلاٹ اور بیرون ملک چھٹیاں گزارنے کیلئے دو دو ہزار ڈالر دینے کا اعلان کرے گی۔انسپکٹروں اور سپاہی پر ڈائیریکٹ فائیر کرنے اور بے گناہ نہتے لوگوں پر گولیاں چلا کر زخمی کرنے کا مقدمہ چلے گا۔ان میں سے بہت سارے نوکریوں سے جائینگے اور ان کے بچے بھوکے مرینگے۔وزیر اعلیٰ نے دکھی پن کی اداکاری شروع کر دی ہے جبکہ طلال چوہدری انکی حمایت اور دفاع کر رہے ہیں۔وہ اسے ظلم اور زیادتی تو مانتے ہیں مگر اس کی وجوہات پر دلائل دیکر اسکے ناگزیر ہونے کا دفاع بھی کرتے ہیں۔
امید کی جارہی ہے کہ جناب طلال چوہدری اور دانیال عزیز جلد ہی کسی اہم حکومتی عہدے پر فائیز ہونے والے ہیں جبکہ کچھ مرکزی اور صوبائی وزیر گھر جانے والے ہیں۔رانا ثناء اللہ فی الحال وقتی طور پر مستعفی تصور کیئے جا رہے ہیں اور شیر پنجاب جنرل گلو بٹ پولیس کے کسی آرام دہ سیف ہاؤس میں آرام فرما رہے ہیں۔علامہ طاہرالقادری بیٹل آف ماڈل ٹاؤن اور پولیس گردی کو انقلاب کی جانب پہلا قدم قرار دے رہے ہیں اور ان کے اتحادی اس قتل و غارت پر مبنی آپریشن کو میاں برادران کی خاندانی حکومت کے خاتمے کی کڑی کہہ رہے ہیں۔لیگی توپخانہ اپنی کارکردگی پر مطمئن ہے اور اسے روٹین میٹر کہہ رہا ہے۔دانیال عزیز،طلال چوہدری اور دیگر اپنے ٹیلیویژن پروگراموں میں اس معرکے کو امن کی بحالی کا ذریعہ کہتے ہیں۔رانا ثناء اللہ کے گرائیں جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفٰے لیگی توپخانے کی نئی توپ ہیں اور معرکہ ماڈل ٹاؤن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسے وقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے حکومتوں اور حکمرانوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔جنرل مصطفٰے نے محرم میں راولپنڈی میں رونما ہونے والے واقع کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات سے خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیئے۔لگتا ہے کہ جنرل غلام مصطفٰے بھی کسی سفارتخانے یا بڑے ادارے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔اگر میں غلط پر نہیں ہوں تو یہ وہی جنرل مصطفٰے ہیں جنھوں نے جنرل مشرف کے دور میں کئی ہزار کنال آراضی آلاٹ کروائی اور نیب کے خوف سے آلاٹمنٹ منسوخ کروادی(معذرت)
شیر پنجاب جنرل گلو بٹ:۔
جنرل گلو بٹ اپنی نوعیت کے پہلے جرنیل ہیں۔فوجی جرنیلوں اور گلو ٹائپ جرنیلوں میں فرق ہوتا ہے۔عام فوجی جرنیل سال ہا سال محنت سے ترقی کرتے ہیں جبکہ گلو نما جرنیل سالہا سال سیاسی جماعتوں،حکومتوں،حکمرانوں،سیاستدانوں اور گینگ لیڈروں کی خدمت کرتے ہیں۔ان کی تربیت جلسے جلوسوں میں نعرہ بازی،ہلڑ بازی،پتھراؤ وغیرہ سے شروع ہوتی ہے۔ابتدائی تربیت کے بعد انھیں چھوٹے چھوٹے علاقے،محلے اور گلیاں آلاٹ کی جاتی ہیں جہاں یہ چوری چکاری،ہنگامہ آرائی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ منشیات فروشی اور جسم فروشی کے اڈوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں اور علاقہ تھانیدار کو روزانہ رپورٹ پیش کرتے ہیں۔
دوسرے درجے کی تربیت تھانے اور کچہری میں حاصل کرنے کے بعد ان کا علاقہ بڑھ جاتا ہے اور انھیں آخر بڑی وارداتوں میں تحفظ دینے کیلئے ان کے سرپرست سیاستدان،حکمران سیاستدان اور مافیا ممبران انھیں جیلوں میں ڈال دیتے ہیں۔جیل کی تربیت کے بعد ان میں سے اکثر خود سیاستدان بن کر اسمبلیوں میں چلے جاتے ہیں جبکہ دیگر حکمرانوں کی ضرورت بن جاتے ہیں۔سیاسی جماعتیں ان ہی فیلڈ جرنیلوں کی مدد سے الیکشن لڑتی اور جیتتی ہیں اور قومی خزانے سے انھیں بھر پور حصہ بھی دیتی ہیں۔حکومتی کمزوریوں اور انارکی سے فائدہ اٹھانے والے جرنیل بھی ہیں جن میں افغانستان کے مارشل فہیم،جنرل عبدالرشید و ستم دوستم اور دیگر شامل ہیں۔ان جرنیلوں کے پاس اپنی اپنی فوجیں ہیں جن کے آگے امریکہ،برطانیہ،فرانس اور روس کی افواج بھی نہ لڑ سکیں۔سولہ جون کے دن پنجاب میں ایک انسپکٹر جنرل آف پولیس بھی تھے مگر پولیس کی قیادت کا سہرا جنرل گلو بٹ کے سر سجا۔اگر مرکزی اور صوبائی حکومت کو آئی جی یا کسی ڈمی آئی جی پر اعتماد ہوتا تو حکومت انھیں تقریباً چھ ہزار شیر دل فورس کی کمان سونپتی۔حکومت اور حکمرانوں کو پتہ تھا کہ باوردی پولیس جرنیل اور ڈپٹی جرنیل عمدہ نتائج نہ دے سکیں گے اس لئے فیلڈ مارشل جنرل گلو بٹ کو یہ مشن سونپا گیا جس نے ساری دنیا کو حیران کر دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :