قصّہ ایک افطاری کا

جمعہ 18 جولائی 2014

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

شدید ترین گرمی،حبس اور لوڈ شیڈنگ میں پتہ نہیں ہمیں کیا سوجھی کہ ایک افطار پارٹی کا اہتمام کر بیٹھے۔طے یہ ہوا کہ ڈھیروں ڈھیر نیکیاں سمیٹنے کے لیے بازار سے کچھ نہ منگوایا جائے اور گھر میں ہی ”بنفسِ نفیس“ افطاری کے تمام پکوان تیار کیے جائیں۔میاں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ بیس،پچیس افراد کی افطاری کا گھر میں انتظام ممکن نہیں لیکن ہماری بھی ایک ہی ضد کہ نیکیوں میں کسی دوسرے کی شراکت قبول نہیں ۔

تھک ہار کر میاں نے ہتھیار ڈال دیئے اور ہم اپنی جیت پر دِل ہی دل میں مسرور ہونے لگے لیکن ایک ایسی غلطی کر بیٹھے کہ جس کا خمیازہ بعد میں بھگتنا پڑا۔ہوا یوں کہ ہم گھریلو ملازمہ کو اعتماد میں لیتے ہوئے اُس کے سامنے یہ انکشاف کر بیٹھے کہ اگلے روز افطاری پر کچھ لوگ آ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

میں نے ملازمہ کی مُٹھی میں کچھ کَڑکڑاتے نوٹ رکھتے ہوئے اُسے جلدی آنے کی تاکیدکی اوراُس نے بھی جلدی آنے کا”پکّا“وعدہ کر لیا لیکن بعد ازاں ثابت یہ ہوا کہ صرف حکمرانوں کے ہی نہیں عوام کے وعدے بھی قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔

اگلے روز ہم ملازمہ کے انتظار میں بیٹھ گئے لیکن اُس نے تو گویا نہ آنے کی قسم اُٹھا رکھی تھی۔ہماری بیقراری کو دیکھتے ہوئے میاں نے زیرِ لَب مسکراتے ہوئے کہا
آئے عشاق،گئے وعدہٴ فردا لے کر
اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
سچی بات ہے کہ میاں کا یہ طنز میرے تَن بدن میں آگ لگا گیا لیکن کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے کہ”خود کردہ را اعلاجے نیست“۔

جب آس کی ڈوری ٹوٹ گئی اور ہمیں یقیں ہو چلا کہ”اب یہاں کوئی نہیں،کوئی نہیں آئے گا“تو ہم نے حوصلہ کرکے کچن کی راہ لی۔کچن میں پہنچ کر چھوٹی بیٹی کو مدد کے لیے پکارا تو وہ”تھرما میٹر“تھامے میرے پاس چلی آئی اور مجھے تھرما میٹر کی جھلک دکھا کر کہنے لگی”ماما !مجھے تو ایک سو ایک سے بھی زیادہ بخار ہے“۔میری یہ آخری موہوم سی اُمید بھی دَم توڑ گئی اور مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں کسی صحرا میں اکیلی کھڑی شدتِ عطش سے نڈھال ہو چکی ہوں۔

بہت سے لمحے ایسے ہی گزر گئے لیکن پھرہم نے ساری نیکیاں اکیلے ہی سمیٹنے کا پروگرام بنا کر افطاری کا اہتمام شروع کر دیا۔ابھی چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ محترمہ لوڈ شیڈنگ چھم چھم کرتی آن وارد ہوئی اور یہ اُس کی آمد کا اعجاز تھا کہ پانی بھی اُس کے جلوہٴ حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے ”خُشک“ہو گیا۔پانی کی عدم موجودگی پر میں نے بے ساختہ اپنے سَر پر ہاتھ ماراتو ہاتھوں پہ لگا ہوا آٹا میرے بالوں میں یوں گھس گیا جیسے آجکل پاک فوج کے جری جوان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے اندر گھس گھس کر اُن کا شکار کر رہے ہیں۔


ایک گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد بجلی تو آ گئی لیکن پانی کے آتے آتے مزید بیس منٹ لگ گئے۔جونہی نَل میں پانی آیا بجلی پھر کسی حسینہٴ بے وفا کی طرح دغا دے گئی۔میں نے جلدی جلدی کچن کے سارے برتنوں کو پانی سے بھرنا شروع کر دیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب میرے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا اور میں بیچ میں کھڑی ہونقوں کی طرح یہ سوچ رہی تھی کہ برتن تو سارے پانی پانی ہو گئے،کھانا کِس میں پکے گا؟۔

اب برتنوں سے یکے بعد دیگرے پانی نکالنے کا مرحلہ درپیش تھا ۔میں نے ایک دفعہ پھر حوصلہ پکڑا اور برتنوں سے پانی نکالنا شروع کر دیا۔”سَر منڈاتے ہی اَولے پڑے“کا محاورہ تو ہم بچپن سے ہی سنتے آئے تھے لیکن اُس کی عملی تصویر اُس وقت سامنے آئی جب عین اُس وقت”ہمسائی“آن ٹپکی جب میں کام میں جُتی ہوئی تھی۔وہ کوئی لَگ بھَگ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھی رہی اور پھر جاتے ہوئے یہ کہہ گئی کہ”آپ کا بہت سا وقت لے لیا،اب چلتی ہوں“۔

میں نے مروتاََ بھی اُسے روکنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ میرے پاس وقت کم تھا اور نیکیوں کے حصول کے لیے مقابلہ سخت۔سُنا ہے کہ ہمسائے ماں جائے ہوتے ہیں لیکن اگر”ماں جائے“ایسے ہی ہوتے ہیں تو اِن سے اللہ کی پناہ۔
داستان طویل ہے اور میرے”ننھے مُنّے“کالم میں اتنی گنجائش نہیں کہ قصہٴ درد بیان کر سکوں۔بہرحال میں چھ بجے تک اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارتی رہی اور پھر ناچار اپنے میاں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ گھر میں تو افطاری کا اہتمام ممکن نہیں اِس لیے بازار سے ہی کچھ منگوا لیں۔

میرے میاں پہلے تو بہت چیں بچیں ہوئے لیکن بالآخر مان گئے کہ سوال ہماری”ناک“کا تھا اور ہم کسی کے سامنے ناک کٹتے نہیں دیکھ سکتے ۔افطاری کے لیے بھاگم بھاگ سامان اکٹھا کرنے کے مرحلے سے ابھی فارغ ہی ہوئے تھے کہ مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن عین افطاری کے موقعے پر میرے ہاتھوں کیا پاوٴں کے بھی طوطے اُڑ گئے جب مجھے یاد آیا کہ افراتفری میں افطاری کے لیے ٹھنڈا پانی اور جوس فریزر میں رکھنا بھول گئی تھی۔

ویسے فریزر میں رکھنے یا نہ رکھنے سے کچھ فرق تو پڑنے والا نہیں تھاکیونکہ ہمارے مہربانوں کی بدولت بجلی کے وولٹیج ہی اتنے آتے ہیں کہ جن سے ACتو کجا،فریج اور فریزر بھی نہیں چلتے اور پنکھوں کی سپیڈ بھی اتنی کہ چلتے پنکھے کے پَر گِن لو۔اُدھر ہمارے خواجہ آصف سیالکوٹی نے بھی ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہہ دیا کہ”ٹُٹ پینی “بجلی اُن کے بَس سے باہر ہو گئی ہے اِس لیے قوم جھولیاں اُٹھا اُٹھا کر بارش کی دُعا کرے ۔

اُنہوں نے تو خیر یہ بھی کہہ دیا ”انجن کی خوبی نہ کمالِ ڈرائیور۔۔۔خُدا کے سہارے چلی جا رہی ہے“لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایوانِ صدر،وزیرِ اعظم ہاوٴس،گورنر ہاوٴسز،پارلیمنٹ ہاوٴس اور وزرائے اعلیٰ کے ایوانوں میں بجلی کہاں سے آتی ہے؟۔حضرت عمر  کا قول ہے ”امیر المومنین اُس وقت گیہوں کی روٹی کھا سکتا ہے جب اُسے یقین ہو جائے کہ رعایا میں سے ہر ایک کو گیہوں کی روٹی مِل رہی ہے“۔

لیکن یہاں تو جُرمِ ضعیفی کی سزا مَرگِ مفاجات کی صورت میں مِل رہی ہے۔قصّہ مختصر ہم نے کسی نہ کسی صورت مہمانوں کو افطاری تو کروا دی لیکن آئندہ کے لیے گھر میں افطاری کا اہتمام کرنے سے توبہ کر لی۔ہم نے سوچا کہ اگر ہمارے حکمران بڑے بڑے ہوٹلوں میں افطاریوں کا اہتمام کر سکتے ہیں تو ہم چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں میں کیوں نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :