کیا کبھی ان میں انسانیت تھی؟

جمعہ 18 جولائی 2014

Ahmed Adeel

احمد عدیل

اگر یہ خاموش ہیں تو حیرت کیسی ، یہ تو صدیوں سے خاموش ہیں ان کی خاموشی کی تاریخ بہت بھیانک ہے ان کے آباو اجداد انہی یہی خاموشی اور جہالت ورثے میں دے گئے ہیں یہ دنیا میں جہاں بھی ہیں ان کا منشور ایک ہی ہے ، کہ بولو وہاں جہاں سے کچھ ملنے کا امکان ہو ، آوازوں میں سوز پیدا کر لو ، ایک خاص قسم کا حلیہ بنا لو جس سے لوگوں کو یہ تاثر ملے کہ تم کوئی آسمانی مخلوق ہو ، جہاں کہیں علم و عقل کی بحث ہو وہاں سے بھاگ نکلو لیکن اگر رکنا پڑے تو عقل و دلائل سے عاری اپنی آواز کو اس قدر بلند کرو کہ دوسرا فریق ہار مان لے، یہ ان کی چند خاصیتیں ہیں جن کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج جب مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی غزہ پر ہونے والے حملوں اور اسرائیلی درندگی کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہیں وہاں ان نام نہاد ملاؤں کی طرف ایک لفظ بھی فلسطین کے بارے میں نہیں کہا گیا ، کوئی ملا انقلاب ہے تو کسی کی ڈیزل کے پرمٹوں کی فکر ہے، جماعت اسلامی اپنے فیس بک پیج پر طیب ارگان کی تعریف میں پوسٹ شےئر کر رہی ہے کہ اس نے اسرائیل کو دھمکی دی ہے کہ بمباری بند کرو ورنہ ترکی اسرائیل پر حملہ کر دے گا حالانکہ اس پوسٹ سے حقیقت کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ، کیا ان نام نہاد مذہبی لوگوں کا کوئی فرض نہیں ؟ کیا واویلا کرنا ، رونا پیٹنا، بد دعاؤں دینا یا سپیکروں پر دھاڑنا ہی ان لوگوں کی زندگی کا حاصل ہے ؟ جو کچھ غزہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس پر آواز اٹھانا سب کا فرض ہے لیکن کیا صرف آواز اٹھانا کافی ہے؟ کیا مسلمان ملکوں کا اور کوئی فرض نہیں ؟ سعودیہ، دبئی، ملایشیا، ترکی کویت سمیت کئی اور مسلمان ملک ہیں جو اتنے وسائل رکھتے ہیں کہ صرف زبانی کلامی جمع تفریق کی بجائے یہ گراونڈ ریالٹی پر توجہ دیں تو شاید یہ مسلہ حل ہو جائے یا کم از کم اسرائیل اس درندگی سے باز آ جائے، لیکن یہ شاید ایک خواب ہے اور اب تو فلسطینی بھی یہ سمجھ چکے ہیں کہ ان کا سوائے خدا کے اور کوئی نہیں، خون میں ڈوبے معصوم چہرے ، زخموں سے چور جسم یا رحم کی فریاد کرتی ما ئیں ، کچھ بھی ان لوگوں کے دلوں کو پگھلا نہیں سکتا،جہاں تک عام لوگوں کی بات ہے تو وہ بیچارے جو ماتم واویلا کر سکتے ہیں کر رہے ہیں اور یہی ماتم صدیوں سے ان کے نصیبوں میں لکھاہے جس کے ذمہ دار وہ خود ہیں ، سوشل میڈیا پر بھی لوگ اپنا غم و غصہ شےئر کر رہے ہیں اگر کچھ فرق نہیں پڑا تو وہ عرب ممالک کے انسان نما بادشاہوں کو نہیں پڑا جو کھربوں کے خزانوں پر بیٹھ کر جانوروں کی طرح کھا رہے ہیں یا اس پسماندہ ملائیت کو نہیں پڑا جن کا کام ہی فتوے دینا اور یہ طے کرنا ہے کہ کون سچا مسلمان ہے اور کون نہیں، لیکن خیر ایسی بھی کیا جلدی ہے ابھی تو یہ طے ہونا باقی ہے کہ پاکستان میں سچا مسلمان کون ہے ، اسامہ دہشت گرد تھا یا شہید، اچھے اور برے طالبان میں کیا فرق ہے؟ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے یا انڈیا کا؟ افغانستان ہمارا برادر ملک ہے یا ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے والا ناسور؟ اس طرح کے لا کھوں سوال توجہ طلب ہیں جن کا حل صرف اور صرف یہ عالم فاضل ہی دے سکتے ہیں جن کی تعلیم مدرسے سے شروع ہو کر فتوے دینے پر ختم ہو جاتی ہے۔

(جاری ہے)

سو جو لوگ یہ توقع کر رہے ہیں کہ ان مذہبی ٹھیکیداروں میں سے کوئی فلسطین کے لیے آواز اٹھائے گا انہیں کم از کم دو سو سال انتظار کرنا ہو گا اور عرب ممالک کے انسان نما بادشاہوں کی طرف سے اسرائیل کی مخالفت کا خواب دیکھنے والے احمقوں کے اس جہنم میں رہتے ہیں جہاں علم و عقل آخری سانسیں لے رہا ہے اور اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ یہ سب تو انسانیت کے منافی ہے کہ آپ کا ہمسایہ خاک و خون میں لھتڑا ہو اور آپ روسٹ بکرے کھائیں یا سریلی آواذوں میں مذہب کا پرچار کریں تو اس سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ان میں انسانیت تھی ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :