اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں

بدھ 16 جولائی 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ چپراسی سے اعلی افسر تک،پھل فروش سے خریدار تک، پٹواری سے جاگیر دار تک، عوام سے خواص تک، مُلّا سے فنکار تک،تاجر سے ایف بی آر تک! جس جس کا جہاں جہاں جتنا جتنا ہاتھ پڑتا ہے وہ اتنا اتنا ہاتھ صاف کر تا چلا جاتا ہے۔ کرپشن، جھوٹ، دوغلاپن کیونکہ ہمارا قومی خاصا ہے اسی لئے سیاستدان سے جرنیل تک، سرکاری ادارے سے غیر سرکاری ادارے تک، انقلابی سے سونامی تک اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں!
عمران خان اگر سابق چیف جسٹس پر انتخابات میں دھاندالی کرانے اور ذاتی فوائد اٹھانے کے الزامات عائد کر سکتے ہیں تو ارسلان افتخار عمران خان پر وار کرنے کا موقع کیوں جانے دے گا؟ بھائی صاحب یہ تو وہ ملک ہے جہاں جرنیل سیاستدانوں کی خرید و فروخت کرتے رہے، ایک خاص سیاسی جماعت کو اقتدار سے دور رکھنے کی خاطر مخالف سیاسی اتحاد بنانے میں ملوث رہے، سڑیٹجک ڈیپتھ کے نام پر ناسور باقائدہ پالا گیا، مذہب، اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا کر اقتدار کے مزے لوٹے جاتے رہے ۔

(جاری ہے)

سیاستدان کی بات کریں تو اقتدار کی حوس ملک کی سلامتی و یک جہتی پر حاوی رہی، ضرورت پڑی تو ڈکٹیٹروں کو کاندھوں پر سواری بھی کرا دی، معاہدے بھی کئے اور باوردی جرنیل کو بار بار صدرِ پاکستان بنانے کے عزم بھی دہرائے گئے۔ انقلابیوں کا کینیڈین انقلاب شدید ٹھنڈ میں بلٹ پروف گرما گرم کنٹینر سے شروع ہو کر ایک کاغذ کے پرزے پر دم توڑ گیاجبکہ سونامی اپنی تمام تر حشر انگیزیوں اور رعنائی کے باوجود ناکام تر سیاسی حکمتِ عملی کے باعث آج بھی تذبذب کا شکار ہے اور اپنی سمت کا تعین ہی نہیں کرپائی۔

وطنِ عزیز میں خیر سے ایک قوت مُلّاکریسی بھی ہے جو مذہب کے نام پر ملکی معاملات میں جس حد تک دخل اندازی کر سکتی ہے کرتی ہے اور اپنا سوداجس حد تک بیچ سکتی ہے بیچتی ہے! غرض یہ کہ اس کتاب کے جس صفحے کو کھولا جائیگا کالک ہی کالک دکھائی دے گی تو بہتر بات یہی ہے کہ ورق گردانی چھوڑ کر وسیع تر قومی مفادات کے پیش نظر ماضی کے کارناموں کو بالائے طاق رکھ کر مستقبل کے لئے متحد ہو کر درست اور مناسب فیصلے کئے جائیں۔


انقلابیوں اور سونامیوں کو اسلام آباد تہہ و بالا کرنے سے پہلے ملکی حالات پر نظر ِ ثانی ضرور کرنی چاہیے۔ شاید وہ دیکھنے کے قابل ہوں کہ پاکستان ایک جانب شمالی وزیرستان میں اپنی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے تو ساتھ ہی اس جنگ سے متاثرہ لاکھوں افراد کی باعزت بحالی کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ملکی معیشت کی صورتحال بھی ان کے سامنے ہے تو ایسے موقع محل پر انتخابی عمل میں اصلاح پرسیر حاصل بحث کرنے کی حقیقی جگہ پارلیمان ہے نہ کہ کوئی چوراہا۔

اسی مقصد سے 32 رکنی کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے اور ذمہ دار جمہوریت پسند سیاسی جماعتیں اس عمل پر مطمئین و راضی بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اگر طریقِ کار جمہوری نظام کے تحت وضع کیا جا رہا ہے تو پھر ایسے کسی مسئلے پر انارکی و بد امنی کی فضاپیدا کرنے کی کوئی وجہ سجھائی نہیں دیتی!
14 اگست کو لانگ مارچ کی کال دینے والوں کو ماؤ زِ تنگ کی اکتوبر1934 میں جیانگ زی صوبے سے شروع کی گئی قریباٌ ایک لاکھ افراد کی لانگ مارچ بہت لبھاتی ہے۔

یہ لانگ مارچ ایک سال چل کراکتوبر 1935 میں شانزی صوبے میں اختتام پذیر ہوئی۔ایک لاکھ افراد میں سے محض سات سے آٹھ ہزارافراد زندہ بچ سکے۔ یہ لانگ مارچ چین کی 1927 سے 1949 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کا ایک مختصر سا حصہ ہے مزید براں یہ اس عرصہ کے دوران چلنے والی واحد لانگ مارچ نہیں تھی۔ یہ لانگ مارچ کْومِن ٹانگ کی فوج کے چنگل سے نکل جانے کا چین کی کمیونسٹ جماعت کی ریڈ آرمی کا ایک عسکری فیصلہ تھا۔

درحقیقت فوجی زباں میں اس وقت کمیونسٹ جماعت کی جانب سے پسپائی اختیار کی گئی تھی۔ خانہ جنگی چین کی کمیونسٹ جماعت اور چین کی نیشنلسٹ جماعت کْومِن ٹانگ کے درمیان قربیاٌ بائیس برس جاری رہی۔ ماؤ زِ تنگ کی لانگ مارچ کے بعد 1937 میں جاپان نے چین پر قابض ہونے کی نیت سے چڑھائی کر دی۔اس نازک موقع پر بدترین خانہ جنگی کے ماحول اور دشمنی کے باوجوددونوں فریقین نے 1923 کے بعد دوسری مرتبہ اتحاد بنانے پر اتفاق کیا تاکہ اپنی سر زمیں کو غیر ملکی حملہ آوروں سے محفوظ بنایا جا سکے۔


تمام با شعور جماعتوں کو احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان کے حالات مزید کسی انتشار کے برپا ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ انقلابوں اور لانگ مارچوں کو گلوریفائی کرنے کا وقت ہر گز نہیں ہے۔ سیاست کرنے کے بہت سے مواقع مستقبل میں میسر آئیں گے مگر شرط پاکستان کی بقاء سے مشروط ہے۔تیل ہی نہیں بچے گا تو رادھا کہاں سے ناچے گی؟ انقلابیوں اور سونامیوں کا طرزِ سیاست پاکستان کے نوزائیدہ جمہوری نظام کو جہاں ادارے ابھی اپنی اپنی جگہ کام کرنا سیکھ رہے ہیں تتر بتر کر کے ملک کو خانہ جنگی یا کسی نئی ڈکٹیٹرشپ کی جانب تو ضرور دھکیل سکتا ہے پر اس سے زیادہ کسی نتیجہ کی امید رکھنا حماقت ہے۔


پاکستان تحریکِ انصاف اسی انتخابی عمل اور عوام کے ووٹ سے پارلیمان تک پہنچی ہے اوراسی دھاندلی زدہ الیکشن کے باعث صوبائی حکومت قائم کرنے کے قابل ہوئی ہے تو کم از کم پاکستان تحریکِ انصاف کے چئیر مین کا سیاسی رویہ پاکستان عوامی تحریک کے خواب گو اور ہیٹ سے خرگوش نکال کر عوام سے تالیاں بجوانے والے چئیر مین سے بہر حال بہت فرق اور بہتر ہونا چاہیے! لیکن افسوس صد افسوس!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :